نور

جاوید قاضی  اتوار 1 اگست 2021
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ہم کچھ اور نہیں ہوتے، ہم در اصل اپنے گرد و نواح کا عکس ہوتے ہیں۔ ایک بچہ جو بچپن سے دیکھتا آتا ہے کہ اس کی اماں کو اس کا باپ مار پیٹ کرتا تھا ، گھر میں بیٹیوں کو پڑھانے کا رواج نہ ہو، بیٹے کو دو روٹیاں اور بیٹی کو ایک روٹی کھانے کو ملے۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ کیا انصاف کرسکتا ہے۔جب ریاست ایسا بیانیہ ترتیب دے جس سے یہ سب جیسے صحیح دکھائی دے ، تاریخ کو غلط رقم کرایا جائے۔

خواتین کے حقوق سلب کرنا اپنا حق سمجھنے لگیں ، بگاڑ وہاں سے پیدا ہوتا ہے ۔ جب ملک کا وزیر اعظم کہے کہ جب عورت صحیح لباس نہیں پہنے گی تو مرد روبوٹ نہیں ہوتے۔ جب جنرل ضیاء الحق کو درسی کتابوں میں ہیرو اور پاکستان کے منتخب وزیر اعظم بھٹو کو’’ غدار‘‘ قرار دے دیا جائے ، تو پھر یہی کچھ ہونا تھا، جو اب ہمارے سامنے ہے۔

ہمارا بیانیہ در اصل عورت دشمن ہے۔ بحیثیت قوم اب ہم وہ حساسیت ہی نہیں رکھتے ورنہ آرٹیکل 25 کے تحت عورت اور مرد قانون کی نظر میں برابر ہیں ۔ ہمارے آرٹیکل 25 کی روح ہمارا بیانیہ نہ بن سکا ۔ یہ ہے اس ملک کی سیاسی تاریخ کا بحران ۔ جب آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی تو عورتوں کو اور اقلیتوں کو برابری کے حقوق کیسے ملیں گے۔

ہم ابھی اسی تذبذب میں اپنی جنگ لڑ رہے تھے کہ اسلام آباد میں نور مقدم کو اس کے دوست ظاہر جعفر نے گھر بلاکر ٹارچر دیتے دیتے، اس کا سر تن سے جدا کر ڈالا۔ نور ایک سفیر کی بیٹی تو تھی مگر تھی صرف ایک بیٹی،وہ بیٹا نہیں تھی ۔ کیا فرق پڑتا ہے جب بیٹی تھی تو پھر بیٹی تھی، وہ بس یہی شناخت رکھتی ہے کہ وہ ’’حوا کی بیٹی‘‘ تھی۔ عجیب سا رشتہ ہوتا ہے باپ اور بیٹی کا ۔ ہم بھلے ان کو جائیداد میں برابر کا حصہ نہ دیں مگر ہمارا سب کچھ بیٹی ہی ہوتی ہے۔ آپ کچھ ان کو نہ بھی دیں، آپ کے بڑھاپے میں بیٹے کام نہیں آتے، بیٹیاں ہی ہوتی ہیں جو آپ کے پاس ہوتی ہیں۔ بیٹی کا دکھ باپ سے دیکھا نہیں جاتا ۔ میں اس نعمت سے محروم ہوں اور اس محرومی کا احساس ہمیشہ رہتا ہے۔

ظاہر جعفر کو کس نے حق دیا تھا نور مقدم کو قتل کرنے کا؟ دراصل یہ حق اس نے خود بنایا تھا، گردو نواح سے دیکھا تھا، دولت و طاقت کا نشہ تھا، اس کے ذہن میں عورت کی کمزور اور تذلیل آمیز شکل موجود تھی، لہذا عورت کو قتل کرنا آسان سا عمل تھا ۔ بے حسی اور بزدلی کی مثال بھی سامنے آئی، قاتل اپنا خونی کھیل کئی گھنٹے کھیلتا رہا۔ گھر کے بظاہر مرد ملازمین کے سامنے ہوتا رہا مگر قاتل کے کمرے میں جانے اور اس کا ہاتھ روکنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔

دیکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ قاتل کے والدین نے اس کی تربیت ہی ایسی کی۔ ادھر المیہ یہ ہے کہ مجھ جیسا عام فرد جو پاکستان کے بنے ہوئے بیانیے کے زیر اثر پلا بڑھا ہو، وہ یہ سمجھتا ہوگا کہ ضرور نور نے کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کی ہوگی۔ ہم اقتدار پر قابض طبقات کے بنائے بیانیے کا شکار ہوچکے ہیں ۔ اس بیانیے کو جنرل ضیاء الحق نے چار چاند لگائے اور آج عمران خان اس کے نقش قدم پے چل رہا ہے۔

ہمارے دین اور آئین کے تحت نور مقدم پاکستان کی ایک آزاد شہری تھی۔ جب ماروی کو راجستھان کا بادشاہ عمر سومرو اغوا کر کے لے گیا تھا، شاہ لطیف بھٹائی اپنی شاعری میں یہی تو کہتا ہے ’’ماروی کا جسم ماروی کی مرضی‘‘ لیکن آپ اس بادشاپ کو بھی تو دیکھیں کہ وہ ماروی کو اپنے محل میں تو لے آیا مگر اس سے نکاح نہیں کیا کہ جب تک ماروی اپنی مرضی نہ دکھائے۔

ظلم تو یہ ہوا کہ جب وہ ماروی کا من جیت نہ سکا، جب اس کو واپس ملیر اس کے گائوں چھوڑنے گیا تو وہاں ماروی کے منگیتر نے اس سے شادی کرنے سے انکار کردیا۔ اس لیے کہ یہ بے عزتی کا عمل تھا، ایک ایسی لڑکی سے بیاہ کرنا جو اب بدنام ہوچکی تھی۔ قصور سب victim کا ہے۔ غیرت ، عزت کے پاداش میں عورت ماری جائے، یہ کیسا انصاف ہے، یہ کیسی خدا کی بستی ہے؟

ایسی سیکڑوں عورتیں ہیں جو اپنی بدنامی کی وجہ سے جو ان پے بیتتی ہے بتاتی نہیں۔ جو بتانے کی جرت کرتی ہیں ، ہمارے قوانین کچھ ایسے بنائے کہ ریپ کا عمل خود اس عورت کو ثابت کرنا ہوگا ، اسے ہی گواہ لانے ہوںگے ۔ ظلم تو یہ ہے کہ آپ اگر کھل کر ان باتوں پے لکھنا بھی چاہیں تو آپ کو اردو زبان میں اپنی باتیں لکھنے کی اجازت نہیں، سوشل میڈیا میں تو ہے، اور انگریزی اخباروں میں بھی آپ کھل کے لکھ سکتے ہیں ۔ جب اظہار رائے چھن جائے اس لیے کہ بیانیہ ایسا ہے تو بات ہی ختم ۔

ڈاکٹر شازیہ کا ڈیرہ بگٹی کے شہر’’ سوئی ‘‘میں ریپ ہوا تھا، جو کچھ بھی ہوا ، اس کی تفصیل میں نہیں جاتے، مگر سلام ہو اس کے منگیتر کو کہ وہ پیچھے نہ ہٹا ۔ وہ ڈٹ کے اپنے منگیتر کے ساتھ کھڑا ہوا۔ آخرکار دونوں نے یورپ میں پناہ لی ۔ ایک شائستہ عالمانی بھی تھی گھوٹکی کی، اس نے بھی سویڈن میں پناہ لی ۔ یہ کیا ہے کہ اس ملک میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ اس بیانیے کو روک سکے ۔

مجھے یاد آتی ہے پشکن کی وہ طویل نظم نور مقدم سے ملتے جلتے حقائق کے پس منظر میں ’’جپسی گرل‘‘ ایک بنجارن لڑکی جو ماسکو کے شہر کے نواح میں اپنے قبیلے کے ساتھ خیمے لگاتی ہے جو ماسکو کے محلات کے ساتھ والے چوراہے پہ ریچھ کے ساتھ ناچتی ہے ۔اس کا ابا ڈگڈگی بجاتا ہے۔ گرد لوگ جمع ہوجاتے ہیں ۔ یہی ان کا پیشہ تھا۔ بستی بستی نگر نگر نکل پڑتے تھے۔ یہ بنجارے زمین پے اپنے پائوں مضبوط نہیں کرتے ۔ مجھے حیرت ہوئی ، پشکن کی وہ جپسی گرل بھٹائی کی ماروی کی طرح تھی ۔ ماروی بھی تو بنجارن تھی جو خیمے لگاتی تھی، بارشیں ہوں تو واپس آ جاتی ورنہ اس کے قبیلے والے کسی نہر کے ساتھ زندگی بتاتے۔

مختصر یہ کہ شہزادے نے سب کچھ چھوڑ دیا ، وہ بنجارہ بن گیا اور اس بنجارن کے ساتھ بستی بستی نگر نگر چلتا رہا، اس کے پیار میں محو ہوکے ۔ اس کے والد نے اسے سمجھایا کہ تم بنجارے نہیں بن سکتے، تمہاری رگوں میں وہ کچھ نہیں ہے، تم شہری بابو ہو ۔تمہارے پاس ہم بنجاروں والا من ہو نہیں سکتا ،بھلے باطنی طور پر تم کتنے بھی بنجارے بن جائو ۔ اور چھ سات ماہ کے اس طویل سفر میں وہ بانسری بجانا بھی سیکھ گیا۔ وہ چرواہا بھی بن گیا، مگر اندر اس کے ایک شہری بابو رہتا تھا جو عورت پہ حاکمیت چاہتا تھا اور اس کو اپنی بنجارن ہم سفر پر جو اس کی بیوی بھی نہیں تھی، شک پڑ گیا کہ وہ سامنے والے دوسرے جانب سے آئے بنجاروں کے لڑکے سے، جنھوں نے ساتھ ہی ان کے خیمے لگائے تھے، پیار کرتی ہے اور ایک رات تعاقب کرکے ان کو باتیں کرتے پکڑ لیا اور دونوں کو وہیں قتل کردیا۔

ہاں مگر پشکن کی اس طویل نظم ’’جپسی گرل‘‘ میں اس بنجارن کے والد نے ماسکو کے شہزادے کا قتل نہیں کیا ۔ اس رات دو قتل اس کے سامنے پڑے تھے۔ وہ بوڑھا باپ اور سب خانہ بدوش جب وہاں پہنچے تو سب کی زبان رک سی گئی ۔ اس بنجارن کے بوڑھے باپ نے ماسکو کے شہزادے کو صرف یہی کہا کہ ’’میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم شہزادے ہو ، تم شہری بابو ہو ، تمہارے پاس پیار کرنے کا تصور کچھ اور ہے، تم حسن کو شو کیس کی ایک زینت سمجھتے ہو، تم اسے Possess کرنا چاہتے ہو، تم اس کی روح پے قبضہ کرنا چاہتے ہو ، لیکن ہم قتل کا بدلہ قتل کرکے نہیں لے سکتے۔

ہاں لیکن ہم قاتل کو اپنے قبیلے سے خارج کردیتے ہیں ، تم واپس ماسکو چلے جائو کہ تم بنجارے نہیں بن سکتے۔ کتنا اچھا لگا تھا جب ہندوستان کے عامر خان نے اپنی بیوی سے علیحدہ ہونا چاہا، دونوں نے پریس کانفرنس کرکے خوشی خوشی اس کا اعلان کیا،مگر کب بنے گا ایسا بیانیہ جس کی کوکھ سے ایسا ہی نکلے۔ کب قانون حرکت میں آئے گا۔ کب آئین کا آرٹیکل 25 حقیقت بنے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔