مہنگائی کا جن قابوسے باہر

ایڈیٹوریل  پير 2 اگست 2021
 نا صرف مہنگائی بڑھ رہی ہے بلکہ بے روزگاری میں اضافے دیکھنے میں آرہا ہے۔  فوٹو: فائل

نا صرف مہنگائی بڑھ رہی ہے بلکہ بے روزگاری میں اضافے دیکھنے میں آرہا ہے۔ فوٹو: فائل

حکومت نے چینی کی ایکس ملز اور ریٹیل پرائس میں ایک روپیہ 26پیسے فی کلو اضافہ کردیا ہے، جس سے چینی کی قیمت 88 روپے چوبیس پیسے سے بڑھا کر 89.50روپے فی کلو مقرر کردی گئی ہے ، جب کہ سرکاری نرخ کے برعکس اس وقت بازار میں کم ازکم چینی ایک سو دس روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔

ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ہرفرد پریشان نظر آرہا ہے ، ہر جگہ ، ہر محفل میں موضوع سخن’’مہنگائی ‘‘ہے ، ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ پہلے ہی محدود آمدنی میں گزارا کررہے تھے ان میں سے بھی بہت سے کورونا وبا کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے ہیں اور اب انھیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پٹرولیم لیوی کا ہدف حاصل کرنے میں کوشاں حکومت کو عوام کی مشکلات کا قطعی احساس نہیں ہے ، اسے صرف اور صرف اپنے ٹیکسوں سے غرض ہے جو پیٹرولیم کی مختلف مصنوعات سے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔

موجودہ حکومت مہنگائی کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں کے ساتھ برسرِاقتدار آئی ہے لیکن ہوا، اس کے برعکس ہے یعنی عوام کی آمدنیوں اور قوتِ خرید کا احساس کیے بغیر ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ مہنگائی کئی گنا بڑھتی جا رہی ہے اور اسی شرح سے غربت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جب کہ آئی ایم ایف پہلے ہی آگاہ کرچکا ہے کہ اس سال مہنگائی کی شرح 8.7 فیصد تک رہے گی جب کہ بے روزگاری میں بھی 1.5 فیصد اضافہ متوقع ہے، جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بجٹ پیش کرنے سے پہلے یہ امید ظاہر کی تھی کہ معیشت میں توقعات سے زیادہ بہتری آئے گی اور اگلے سال تک ترقی کی شرح چار فیصد تک پہنچ جائے گی۔

حکومت ٹیکس چوروں کو پکڑے گی اور اپنے ٹیکس اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرے گی،لیکن رواں مالی سال کا بجٹ پیش ہونے کے بعد اب تک مسلسل تین مرتبہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ 16جون سے اب تک کے ایک ماہ کے عرصے میں پٹرول کی قیمت میں 9.53 روپے، ڈیزل 5.77، مٹی کا تیل 7.14 اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 7.14 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیاہے۔ایک مستحکم رائے یہ بھی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ، بجٹ ٹارگٹس کو حاصل کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ حکومت آمدن کے لیے غریبوں پر بوجھ ڈال رہی ہے جب کہ مافیاز دندناتے پھر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے یوٹیلٹی اسٹورز پر فروخت ہونے والی تین اہم اشیاء گھی، چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ چینی میں 17 روپے فی کلو، گھی کی قیمت میں 90 روپے فی لیٹر اور آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں 150 روپے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ حکومت نرخوں پر سختی سے عمل کرائے گی۔

ہمارے ہاں ہمیشہ سے الٹی گنگا بہتی آئی ہے اور جس چیز کے حوالے سے حکومت نرخنامے جاری کرتی ہے اس کے دام اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ عام آدمی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے اور دکاندار کبھی بھی ان نرخناموں پر عمل نہیں کرتے انتظامیہ نہ صرف بے بس ہوتی بلکہ اس کے اہلکار دکانداروں سے نذرانے وصول کر کے چلتے بنتے ہیں۔

دکاندار اپنی من مانیاں جاری رکھے رہتے ہیں جب کہ عام آدمی ان کی تلخ ترش باتیں اور جھڑکیاں سہہ کر چپ سادھ لیتا ہے، اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو وہ دن دور نہیں جب عام آدمی دو وقت کی روٹی کے حصول کی سکت بھی کھو دے گا۔ یوٹیلٹی اسٹور کم آمدنی والے طبقے کے لیے ایک بڑی سہولت ہے جہاں قیمتوں میں رعایت سے عوام فائدہ اٹھا رہے تھے مگر ادارہ جاتی بد انتظامی اور حکومتی فیصلوں نے ان کی افادیت کو ختم کر دیا ہے۔ حکومت کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میںا ضافہ نہ کرنے کا عندیہ دیتی آئی ہے مگر عملی صورت یہ ہے کہ رواں مالی سال کا آغاز ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ وہ اشیائے ضروریہ ہیں جن کے بغیر عام سے عام آدمی کا بھی گزارہ نہیں ہے۔

حکومتی اقدام کے نتیجے میں نا صرف مہنگائی بڑھ رہی ہے بلکہ بے روزگاری میں اضافے دیکھنے میں آرہا ہے۔ عوام شدید مسائل کا شکار ہیں لیکن حکومت کہہ رہی ہے کہ کچھ نہیں ہوا، اس سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسے اس کے اثرات کا علم نہیں اگر علم ہے تو پھر عوام کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے۔

ایل پی جی 160 روپے فی کلو مل رہی ہے، تاریخ میں اتنی قیمت کبھی نہیں ہوئی۔ آٹا 60 سے 70 روپے فی کلو، گھی 350 روپے کلو اور چینی 110 روپے کلو ہے ۔ورلڈ بینک کے ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 4.4 فیصد سے بڑھ کر 5.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ورلڈ بینک کے پیمانے کے مطابق 2 ڈالر یومیہ سے کم قوت خرید رکھنے والا شخص غربت کی کیٹیگری میں آتا ہے۔

پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نچلے متوسط طبقے کی شرح بھی کچھ کم نہیں جن کی ایک دن کی آمدنی صرف 3.2 ڈالر ہے۔گزشتہ دوبرسوں میں بڑھتے ہوئے افراط زر خصوصاً اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20سے 30 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتی ہے۔ اس لیے کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے نے اس طبقے کو بری طرح متاثر کیا اور بیشتر کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف گزشتہ 2 برسوں میں افراطِ زر میں کمی کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں۔

حکومتی وزیر اور مشیر روزانہ اپنی معاشی فتح کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں جب کہ زمینی حقائق اُس سے یکسر مختلف کہانی بیان کر رہے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کے حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ جاری کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ مالی سال 2021-22 کے وفاقی بجٹ کے اثرات مہنگائی میں مسلسل اضافے کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔

بجٹ نافذ ہونے والے دن یکم جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران بھی مہنگائی کی شرح میں 0.53 فیصد اضافہ ہوا تھا جب کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران چینی، آلو، ٹماٹر، انڈے، پیاز، لہسن، مٹن، بیف، ویجی ٹیبل گھی، ایل پی جی، صابن، دال چنا اور کھلے دودھ سمیت مجموعی طور پر 23اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ایک رپورٹ  کے مطابق امسال وطن عزیز میں قربانی کے رجحان میں کمی دیکھنے میں آئی‘ جانوروں کی قربانی میں 30 فیصد کمی ہوئی۔

325 ارب کے آس پاس جانوروں کی خریدوفروخت ہو پائی۔ مہنگائی کی وجہ سے اجتماعی قربانی کے رجحان میں 30 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، بکرے اور چھترے سمیت چھوٹا جانور متوسط طبقے کی خرید سے باہر نظر آیا۔ گزشتہ سال 25 ہزار تک میں ملنے والا چھوٹا جانور بھی اس سال 40 سے 45 ہزار روپے سے کم نہیں تھا، اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو سرکار کی مہنگائی کا چہرہ نظرآتا ہے۔پاکستان بیورو آف شماریات کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں انتہائی کسمپرسی کے شکار گھرانوں کی تعداد 7.24 سے بڑھ کر 11.94 فیصد ہوگئی ہے۔

موجودہ حکومت نے عوام کو دینے تو 50 لاکھ گھر تھے لیکن اس رپورٹ کے مطابق ذاتی گھر رکھنے والوں کی شرح 84 سے کم ہو کر 81 فیصد ہو گئی۔ یہی نہیں دوسرے اعدادوشمار کا بھی جائزہ لیں تو صورتحال کچھ زیادہ اچھی نظر نہیں آتی۔ غذائی عدم تحفظ کا شکار آبادی کی شرح 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے، وہ گھرانے جن کی معاشی حالت میں فرق نہیں پڑا‘ ان کی شرح44.08 سے 45.73 فیصد ہو گئی ہے۔ معاشی صورتحال میں بہتری والے گھرانوں کی شرح 16.48 سے کم ہوکر 12.7 فیصد تک آ گئی ہے۔

پائپ سے پانی حاصل کرنے والی آبادی کی شرح 26.7 سے کم ہوکر 22.3 فیصد اور ہینڈ پمپ سے پانی حاصل کرنے والوں کی تعداد26.4 سے کم ہوکر23.3 فیصد جب کہ موٹر پمپ سے پانی حاصل کرنے والوں کی شرح32.5 سے کم ہوکر30 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ بجلی کی سہولت والی آبادی کی شرح93.45 سے کم ہوکر90.91 فیصد ہوگئی ہے۔

ایک معاشی ضابطہ یہ ہے کہ رسد کم اور طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے منہ مانگی قیمتیں وصول کی جاتی ہیں، لیکن ہمارے یہاں طلب اور رسد میں کوئی خاص فرق نہ ہونے کے باوجود بھی زائد قیمتیں وصول کی جاتی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی دراصل مہنگائی کو جنم دیتی ہے، مارکیٹ میں جب چیزیں ضرورت کے مطابق ہونگی تو قیمتیں ایک سطح پر آجائیں گی۔ بعض اوقات ذخیرہ کی ہوئی چیزیں خراب بھی ہوجاتی ہیں اور اس طرح نفع کی بجائے نقصان ہوجاتا ہے۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے، چیزوں کو ذخیرہ کیے بغیر بھی منافع کمایا جاسکتا ہے۔

ضروری ہے کہ سرکاری سطح پر ’’مرکز شکایات‘‘کو صحیح معنوں میں فعال کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے جو کوششیں ہوتی ہیں اس میں عام طورپر عملی اقدامات کم ہی نظر آتے ہیں۔ نامساعد حالات کے باوجود بعض اہلکار اور افسران اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں، بعض ڈیوٹی برائے ڈیوٹی کے تحت کام کرتے ہیں، اکثر مہنگائی کم کرنے کے حکومتی دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں،اگر صحیح معنوں میں کوششیں کی جائیں تو مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام افراد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

تجارت پیشہ طبقے کو غریب طبقے کا خیال رکھنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات میں غلطیوں اور تحفظات کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ پرائس کنٹرول لسٹ کو روزانہ کی بنیادپر شائع کیا جائے اور اس میں درج شدہ قیمتوں پر عمل درآمد بھی کیا جائے، پرائس کنٹرول عملے کو نئے سرے سے فعال کیا جائے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے اقدامات اس طرح کیے جائیں کہ اس کے نتائج مثبت نکلیںاور عام آدمی کو ریلیف مل سکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔