جبری طلاق (دوسرا حصہ)

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 2 اگست 2021
aamir.liquat@express.com.pk

[email protected]

سازشی کینوس پر عداوت کی شبیہ میں رنگ بھرنے کا وقت آن پہنچا تھا…جعفر بن سلیمان نے اپنے چچا زاد بھائی اور عباسی خلیفہ منصور کو لکھا ’’فقیہ عرب ایک مغرور شخص ہے ،ناقص العقل افراد کے درمیان مسائل بیان کرتا رہتا ہے حالانکہ آپ منع فرماچکے ہیں کہ جبری طلاق کے مسئلے کو سب کے سامنے بیان نہ کیا جائے لیکن میں آپ کے حکم پریعنی جعفر بِن سلیمان اِس کی مجلس درس میں گیا اور کئی بار جبری طلاق کا مسئلہ پوچھا اور اْس نے ہر بار یہی جواب دیا کہ جبری طلاق نہیں ہوتی۔

نہیں ہوتی، نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ وہ درپردہ فساد کا پروردہ ہے اور جبری طلاق کے واقع نہ ہونے کا اصرار کرکے درحقیقت وہ جبری خلافت کے انکار کی طرف مائل ہے…گویا وہ مدینے کے معصوم باشندوں کو عباسی خلافت کے خلاف کچھ اس طرح بھڑکا رہا ہے کہ جیسے یہ خلافت جبری خلافت ہے‘‘… تیز رفتار قاصد یہ خط لے کر منصور کی جانب روانہ ہوا لیکن جعفر بِن سلیمان کا مقصد ہی کچھ اور تھا اْس نے امام مدینہ ،امام ابو مالک کو اپنے دربار میں طلب کیا اور تحکمانہ لہجے میں کہا ’’جبری طلاق کے بارے میں دوبارہ مجھے بتاؤ ‘‘امام کی آواز گونجی ’’عامل مدینہ میرے جواب سے باخبر ہے‘‘…’’میں مگر تمہاری زبان سے پھر سننا چاہتا ہوں ‘‘ضدی اور کینہ پرور جعفر کا غلیظ لہجہ نمایاں تھا …’’لیکن میں بار بار جواب دینے کا پابند نہیں ہوں‘‘ بے نیازمردِ حق کی عزت نفس نے کلام کیا …’’پھر خلیفہ منصور کی بیعت سے متعلق تم کیا کہتے ہو ‘‘خطرناک ارادے کے حامل جعفر نے آہستہ آہستہ اپنی زہریلی فطرت سے پردہ اْٹھانا شروع کیا …’’یہ بات منصور کو معلوم ہے‘‘امام ابو مالک نے مسکراہٹ سے کام تمام کیا …’’چلو تو پھر میرے سامنے خلافت عباسیہ کی حمایت کا اعلان کردو ‘‘جعفر نے یک دَم فیصلہ سنا دیا …’’کیونکہ میرا خیال ہے بلکہ مجھے یقین ہے یا یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ تمہارے دل میں ہمارے خاندان کے خلاف کدورت ہے اور تم امیر المومنین کے منصب کو ناجائز سمجھتے ہو‘‘ جعفر بن سلیمان نے اپنا پورا زہر اْگل دیا …

’’اگر منصور کو میرے اقرار کی ضرورت ہے تو وہ خود چل کر میرے پاس آئے میں تمہارے اختیارات کو تسلیم نہیں کرتا تم سے بات کرنے کے بجائے خاموشی مناسب ہے‘‘…امام مدینہ کے اس استدلال کے بعد جعفر بن سلیمان نے آڑے ٹیڑھے ترچھے ہر طرح کے سوالات کرڈالے مگر دوسری جانب صرف خاموشی تھی ،جعفر بن سلیمان غصے سے طِلملا اْٹھا اور جلادوں کو حکم دیا کہ اس گستاخ (العیاز بااللہ)کے جسم پر اتنے کوڑے برساؤ کہ لہولہان امام چار و ناچار یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ خلیفہ منصور کی خلافت جبری نہیں بلکہ فطری ہے…امام کے رِستے گھاؤ بھی امام کی زبانِ اقدس کے الفاظ بدل نہ سکے اور جواب وہی تھا جو جواب پہلے تھا … جعفر نے پھر لاتوں،گھونسوں اور تھپڑوں سے وقت کے امام پر بدترین تشدد کیا اور جب اس پر بھی بس نہ چلا تو چہرے پر سیاہی ملوادی اور حکم جاری کیا کہ اِسے خچر پہ بٹھاکر پورا مدینہ گھماؤ …تذلیل کے تمام باب تکمیل تک پہنچ چکے تھے مگر مجال ہے جو خاموشی نے اپنی حد عبور کی ہو اور زبان سے ایک لفظ بھی امام مدینہ نے ادا کیا ہو …

جعفر کا ظلم یہیں پر تمام نہیں ہوا بلکہ اْس نے اشقیاکے ذریعے امام مدینہ کو گھسیٹنے کا حکم دیا، ناپسندیدہ جانور کی غلاظت اْن کی پشت پر ڈالی گئی اور بس پھر ایک بار فقیہ عرب نے آسمان کی طرف دیکھا آنکھوں میں ایک عکسِ فریاد تھا، چہرے پر ایک عجیب ملال تھا،یوں لگتا تھا کہ جیسے ایک بندے نے اپنے مالک سے کسی کی شکایت کی ہو، ایسی خاموش شکایت جو صرف مالک نے سْنی، بندے نے کہی اور دنیا والوں کو خبر ہی نہ ہوئی کہ گفتگو کیا ہوئی …مدینے میں تماش بینوں کا ایک ہجوم لگا ہوا تھا قہقہہ بردار سپاہیوں نے اس تماشے کو رنگین بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اب امام مدینہ کی آواز گونجی یہ آواز سپاہیوں سے مخاطب نہیں تھی بلکہ شہر مقدس کے باسیوںکے نام ایک پیغام تھا ’’اے لوگو! میری طرف دیکھو جو مجھے جانتے ہیں وہ بھی دیکھیں اور جو نہیںجانتے وہ بھی سنیں،میں مالک بِن اَنس ہوں،کس نے کیا فتویٰ دیا وہ اپنے عمل کے بارے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہے میں کل بھی سرعام کہتا تھا آج بھی سرعام کہتا ہوں کہ جبری طلاق، طلاق نہیں‘‘… اور پھر جذبات کا آتش فشاں پھٹ پڑا، اور لوگ دھاڑیں مار مارکر رونے لگے…

یہ سب لکھنے کا مقصد یا تاریخ کے صفحات میں آپ کو لیے جانے کی یہ مختصر کاوش صرف اس لیے ہے کہ جب وقت کے آئمہ ظاہری رْسوائی اور حاکموں کی جانب سے زورآزمائی کے باوجود اپنے نظریے پر کار بند رہے تو پھر جان لیجیے کسی کو رْسوا کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے چاہے وہ حاکموں میں سے ہوں یا عوام میں سے، دلوں کے بھید صرف پروردگار جانتا ہے وہی ہماری سرسراہٹ سنتا ہے اور وہی ہمارے قیل وقال سے واقف ہے بس جو کچھ کہنا ہے رب سے کہیے اور دنیا والوں کی باتوںکو سہیے، بعد میں جنازے حکمرانوں کے قابل رَشک نہیں ہوتے اْن کے ہوتے ہیںجو جان بوجھ کر رْسوا کیے جاتے ہیں،اْن کے ہوتے ہیں جن کے گلے میں اِتہام اور بہتان کے رَسے ڈال کر الزامات کے کٹھن فرش پر گھسیٹا جاتا ہے ،بس اْن پر لازم ہے کہ وہ صبر کریں، خاموش رہیں اور اپنے رب کی مدد کا انتظار کریں، یہی کلیہ وفا ہے یہی سجدۂ ادا ہے، اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو…!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔