قیامت کسے کہتے ہیں…

شیریں حیدر  اتوار 26 جنوری 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا…

اس شعر کے سارے مطالب جان کر بھی نہ جان پائی تھی جب تک کہ اس کیفیت سے نہ گزری کہ جس نے میری راتوں کی نیندیں ہی اڑا دی ہیں، سکون کھو گیا ہے، ایک شہر پر کیا موقوف …دنیا ہی ویران لگتی ہے۔ ارد گرد کا ہوش تھا نہ دنیا کی خبر کہ کئی دن تک ٹیلی وژن آن ہوا تھا نہ اخبار پڑھنے کا وقت اور موڈ میسر ہوا، ایک انوکھی سی دنیا بسا لی تھی مگر تا بکہ… قرار آئے نہ آئے، معمول کی زندگی بالآخر چل ہی پڑتی ہے۔ دل جتنا بھی بوجھل ہو… کار دنیا کے بوجھ اٹھا ہی لیتا ہے۔ کئی دنوں کے بعد گھر لوٹے تو نہ وہ گھر کی صورت نہ دیوار و در کی صورت، اخبارات کا ایک پلندہ استقبال کو پڑا تھا، اسی کو اٹھا لیا کہ کچھ اور کیا کیا جاتا اس کیفیت میں… چار جنوری سے شروع ہو کر!!!

…اہل سنت و جماعت کے مفتی منیر معاویہ کا قتل۔
…کراچی میں فائرنگ کے واقعات میں دوبھائیوں سمیت 17 ہلاک
…ژوب میں چھ لاشیں ملیں… تربت میں گاڑی پر فائرنگ سے تین ہلاک
…تیرہ میں توپ کا گولہ پھٹنے سے دس ہلاک، پھالیہ میں وین اور ٹرالی کی ٹکر سے سات
مسافر زندہ جل گئے۔

…کراچی میں 6 تشدد زدہ لاشیں برآمد، دیگر واقعات میں 8 افراد کی ہلاکت
…مری میں دو بسوں کی ٹکر سے 15 افراد جاں بحق، 35 زخمی
…بم حملے میں ایس ایس پی چوہدری اسلم سمیت تین شہید
…کراچی کے فائرنگ کے واقعات سے سات افراد ہلاک
…قصور میں فائرنگ سے تحریک انصاف کے رہنما سمیت پانچ افراد جاں بحق
…کراچی میں فائرنگ سے انسپکٹر سمیت پانچ جاں بحق
…وزیر اعظم کے مشیر امیر مقام پر حملہ، چھ شہید
…پشاور میں تبلیغی مرکز میں دھماکا، 9 افراد شہید
…نوابشاہ میں المناک حادثے میں 19 طلباء سمیت بائیس افراد جاں بحق
…کراچی میں ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر حملہ، 3 کارکن شہید
…راجن پور میں ریلوے ٹریک پر دھماکا، 4 افراد ہلاک 60 زخمی
…سرگودھا میں اہل سنت و الجماعت کے رہنما مولانا عبدالحمید زخمی، دو محافظ جاں بحق
…بنوں، فوجی قافلے پر حملہ23 اہل کار شہید، 66 زخمی
…آر اے بازار میں خود کش دھماکا4 شہید 33 زخمی
…مستونگ میں زائرین کی بس پر خود کش حملہ، 28افراد جاں بحق
…پولیو ٹیموں پر حملوں میںچار افراد جاں بحق
…چار سدہ اور مستونگ میں دہشت گردی، 12 اہلکاروں سمیت 13 شہید

یہ وہ چند چیدہ چیدہ خبریں ہیں جن پر فوراً نظر پڑتی ہے… اس کے علاوہ درجنوں خبریں ہیں جو اندرونی صفحات پر ہیں یا ان پر بعد میں نظر پڑتی ہے۔ میں نے ان جاں بحق ہونے والوں اور شہیدوں کے ورثاء کے کرب کو محسوس کیا، کس طرح وہ اس حادثاتی موت کو قبول کر پاتے ہوں گے؟ عموما کوئی بیمار پڑتا ہے یا قدرتی طور پر عمر کے اس مرحلے میں ہوتا ہے تو اس کی موت کو قبول کرنا اتنا مشکل نہ ہوتا ہو گا… مگر اس طرح ناگہانی اور بے قصور لوگوں کا جانا ایک بڑا سانحہ ہوتا ہے۔

کوئی اس نئے برس کے پہلے چند دن کے اخبارات کو دیکھے تو اس کا اس ملک کے بارے میں کیا تاثر ہوتا ہو گا؟ کیا اس ملک میں کوئی حکومت ہے، قانون ہے… کیا اس ملک کا کوئی بھی شہری اس احساس تحفظ کے ساتھ گھر سے نکل سکتا ہے کہ وہ لوٹ کر اپنے گھر واپس آئے گا؟ دیار غیر سے کالیں آتی ہیں تو رشتہ دار، دوست اور احباب حیران ہوتے ہیں جب ہم ان کو یہ بتائیں کہ ہم گھر پر نہیں بلکہ کہیں بازار میں ہیں، ملازمت پر یا کسی اور جگہ پر تو وہ ہمیں پاگل سمجھتے ہیں جو ’’ ایسے ‘‘ ملک میں رہ کر بھی اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ ہاں سچ ہی تو ہے… ہم سب جان ہتھیلی پر ہی تو لیے پھرتے ہیں، گھر سے نکلتے وقت پلٹ پلٹ کر نگاہ ان پر پڑتی ہے جنھیں ہم چھوڑ کر جا رہے ہوتے ہیں کہ جانے پھر ملنا نصیب ہو کہ نہ ہو۔

جہاں چار لوگ بیٹھتے ہیں، رونا یہی ہوتا ہے کہ brain drain کی مہم چل رہی ہے، ایسا نہیں ہے،بچے باہر پڑھنے کو جاتے ہیں تو جو سکون وہ وہاں دیکھتے ہیں وہ انھیں فقط چند ماہ بعد جب اپنے ملک میں نظر نہیں آتا تو وہ سٹپٹا اٹھتے ہیں۔ بات صرف اچھی ملازمتوں اور نظام کی نہیں… قانون کی حکمرانی انھیں وہاں نظر آتی ہے، اپنے حقوق انھیں بطور طالب علم بھی ملتے ہیں تو وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ایسا ہمارے ہاں کیوں نہیں!!

پے در پے ہونے والے واقعات نے کس قدر جانی اور مالی نقصانات کیے ہیں … کوئی شہر، صوبہ اور علاقہ خطرے کی زد سے باہر نہیں۔ کسے منصف کریں، کس سے دارو مانگیں، کہاں پناہ ڈھونڈیں؟ کوئی پرسان حال بھی نہیں… کہیں حادثات ہیں تو کہیں دھماکوں نے ناطقہ بند کر رکھا ہے اور کہیں دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین خون کا حساب مانگنے کے لیے شہیدوں کی میتیں لیے دھرنا دئیے بیٹھے ہیں، ان دھرنوں نے لوگوں کے لیے کیا مسائل کھڑے کر رکھے ہیں … یہ ایک الگ کہانی ہے۔

اس ملک کے حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ بلدیاتی الیکشن کروانا، کسی سابقہ صدر پر عوام کی توجہ مرکوز رکھنا یا اس سے ہٹانا… ہر دن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے عوام کو بلبلانے پر مجبور کرنا، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے انھیں پتھر کے دور میں لوٹ جانے پر مجبور کرنا؟ شاید وہ بھی اس موقعے کو آخری موقع سمجھ کر اپنے مفادات پورے کر رہے ہیں، عوام سے ان کا کوئی رابطہ ہے نہ ان کے مسائل کا کوئی ادراک، نہ انھیں علم ہے کہ عوام چاہتے کیا ہیں ۔ وزراء ان وزارتوں کے قلمدان سنبھالتے ہیں جن کو انھیں علم نہیں بلکہ… جن وزارتوں کی وہ خواہش رکھتے ہیں، جہاں سے حکومت کو خطرہ ہوتا ہے کہ ایم این اے صاحب ناراض ہو کر ان کی مقبولیت کو ٹھیس نہ پہنچائیں، وہاں وہ وزارت کا چارہ ڈال کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔

اس سارے کھیل میں پستا کون ہے ، نقصان کس کا ہے، محروم کون ہے، پریشان کون ہے؟ عوام !!!! اور عوام خوش ہیں یا نہیں، اس سے کسی حکمران کو کوئی فرق نہیں پڑتا، انھیں ان کے ووٹوں کی طاقت کی ضرورت بھی نہیں، کیونکہ وہ، میں اور آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ کس طاقت کے بوتے پر اقتدار میں آتے ہیں، اس لیے اب اس غلط فہمی سے نکل آئیں کہ کل کو ہم ووٹ نہ دیں گے تو ان کے اقتدار کا پانسہ پلٹ جائے گا۔ کئی گھروں کے اکلوتے سربراہ جاتے رہیں گے، کئی ماؤں کے لال کٹ مریں گے، کئی طالب علم گھر سے راہ طلب پر نکلیں گے اور کبھی نہ لوٹیں گے، کئی آنکھوں کے تارے اسی طرح بجھتے رہیں گے… مگر کچھ ہونے والا نہیں… جب تک کسی کے اپنے گھر پر قیامت نہ ٹوٹے تب تک علم نہیں ہوتا کہ قیامت کسے کہتے ہیں!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔