دانشور تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں۔۔۔؟

نسیم انجم  اتوار 26 جنوری 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پچھلے کئی سالوں سے ہمارے ملک کے حکمرانوں کی غفلت نے ملک کی بنیادوں کو کمزور اور عوام کو مجبورولاچارکردیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار سے بے پناہ محبت کرنے والے صرف اور صرف اپنے مفادات کے بارے میں ہی سوچتے ہیں، وہ نہ ماضی کے واقعات سے سبق سیکھتے ہیں اور نہ حال اور مستقبل کی فکر ہے کہ نہ جانے سازشی عناصر کس وقت انھیں، ان کے خاندان اور عوام کو نقصان پہنچائیں اور خونی کھیل کا دائرہ وسیع کردیں۔

تاریخ کا طالب علم منگولوں کے مظالم کو آج تک نہیں بھلا سکا،اس وقت کو ذرا یاد کریں جب (خلیفہ کے غدار وزیر)  ابن العلقمی نے اپنی چالبازی کے ذریعے خلیفہ المعتصم کو ہلاکوخان کے دربار میں پہنچادیا، خلیفہ چونکہ تنہا نہیں جانا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اہل بغداد میں سے (1200) معززین کا انتخاب کیا جن میں سرکردہ فوجی جانباز، اکابر، علما، ممتاز حکومتی اہلکار وغیرہ شامل تھے، اس طرح خلیفہ المعتصم شان وشوکت کے ساتھ بغداد سے روانہ ہوا۔ غدار ابن العلقمی بھی خلیفہ کے پہلو میں چل رہا تھا، جب وہ شہر سے نکل کر آگے بڑھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں حد نگاہ تک خیمے ہی خیمے تھے، انھوں نے دیکھا کہ ایک گھڑ سوار دستہ ان کی طرف بڑھ رہا ہے جوں ہی وہ ان کے قریب پہنچا، فوجی نوجوانوں نے بڑھ کر انھیں حصار میں لے لیا،خلیفہ اور ابن العلقمی کو ہلاکو خان کے پاس لے جایا گیا جب کہ باقی شرفا و معززین کو منگول فوجی دستہ مخالف سمت لے گیا۔ خلیفہ اس قسم کی صورت حال سے پریشان ہوا، لیکن اب کیا کیا جاسکتا تھا کہ اپنے وزیر پر اندھا اعتماد کرنے کی وجہ سے وہ آج ہلاکو خان کے روبرو تھا، سیکھنے والوں کو تاریخ سبق سکھاتی ہے، لیکن لوگ سیکھنا نہیں چاہتے، بلکہ عیش و طرب میں ڈوب کر اپنی ذمے داریوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں ان کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا ہے، تاریخ یہی کہتی ہے۔

ہلاکو خان نے ابن العلقمی سے پوچھا کہ اس شخص کو عالم اسلام میں کس لقب سے پکارا جاتا ہے، غدار علقمی نے طنزاً کہا ’’امیرالمومنین‘‘ یعنی مومنوں کا سردار۔ ہلاکو خان نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا یہ کیسا امیرالمومنین ہے نہ فوج، نہ محافظ، نہ ہتھیار، نہ چتر شاہی بھلا اس حال میں اسے کون امیر المومنین مانے گا۔

اور پھر ہلاکو خان نے ابن العلقمی سے کہا کہ بغداد کے ان لوگوں کی فہرست تیار کرو، جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھاسکتے ہیں اور یہ حکم نامہ امیرالمومنین کی طرف سے ہوگا اس میں یہ بھی درج کرو کہ بغداد کے ان لوگوں کو میرے حضور پیش کیا جائے تاکہ صلح کی شرائط طے ہوسکیں، ابن العلقمی نے خواجہ نصیرالدین طوسی کی موجودگی میں ایک فہرست تیار کی اور حکم نامہ بھی لکھا اور پھر خلیفہ سے دستخط کروائے۔ خلیفہ نے ابن العلقمی کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ، اتنا بڑا دھوکہ؟ کے مکروہ چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔

تھوڑی ہی دیر بعد تمام معززین، علما اور اشراف شہر کو ہلاکو خان کے روبرو پیش کردیا گیا، اس نے بلاتامل سب کی گردنیں اڑانے کا حکم دیا۔ ذرا سی دیر میں شہیدوں کے خون سے زمین سرخ ہوگئی اور ان کی لاشوں کو خندق میں پھنکوا دیا گیا۔

وہ برا دن بھی آگیا جب منگولوں نے دارالاسلام کو دارالحرب میں تبدیل کردیا۔ گلی کوچوں، غرض ہر جگہ کٹے ہوئے سر اور خاک و خون میں لتھڑے ہوئے دھڑوں کے ڈھیر لگتے چلے گئے، دوسرے مذاہب کے لوگوں نے اپنی عبادت گاہوں میں پناہ لے لی لیکن مسلمانوں کے لیے جاء امان نہ تھی۔ ہلاکو خان کا حکم تھا کہ ایک بھی مسلمان زندہ نہ بچ پائے، بقول مورخین کے بغداد کی گلیوں کوچوں اور بازاروں میں بہنے والا خون بذریعہ ندی نالوں کے دریائے دجلہ میں شامل ہو گیا، تو دجلہ کا پانی کئی روز تک خون کی لالی میں ڈوبا رہا۔

چالیس روز تک درندگی کا بازار سجا رہا، بغداد کی آبادی کو تہہ تیغ کرنے کے بعد اس درندے نے جس کا نام ہلاکو خان تھا، بغداد کی تمام تعمیرات کو نذرآتش کرنے کا حکم دیا اس کے بعد ہلاکو خان نے خلیفہ المعتصم کے شاہی محل ’’قصر جعفر‘‘ میں دربار لگایا اس دربار میں خلیفہ کو لایا گیا، اہل دربار خلیفہ کا تمسخر اڑا رہے تھے، اس کی ڈاڑھی کھینچتے، اس پر فقرے کستے، اسی دوران ہلاکو خان نے چاندی کے برتنوں میں ہیرے جواہر رکھ کر خلیفہ کو پیش کیے۔

ہلاکو خان خلیفہ سے مخاطب ہوا کہ یہی وہ سونا چاندی ہے جو تو نے سینت سینت کر رکھا تھا، اب اسے کھا!

خلیفہ نے عاجزی سے جواب دیا، اسے میں کیسے کھا سکتا ہوں؟

اگر نہیں کھا سکتا تو جمع کیوں کیا تھا؟ اتنے بڑے خزانے کو اپنے فوجیوں کی تنخواہوں پر کیوں خرچ نہ کیا، اگر تو نے ایسا کیا ہوتا تو وہ تیری حفاظت کرتے، تجھے کتے کی موت مرنے سے بچا لیتے‘‘۔ پھر اس نے محل کی خوبصورت جالیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا اگر تو نے ان جالیوں کو پگھلا کر تیروں، نیزوں اور تلواروں میں ڈھال دیا ہوتا تو آج اس طرح تو پابجولاں میرے سامنے تھر تھر کانپ نہ رہا ہوتا تو نے ہیرے، جواہرات خرچ کرکے اپنے لیے جانباز تیار کیے ہوتے  تو وہ بڑھ کر میدانوں میں اور پہاڑوں میں میرا مقابلہ کرتے اور تجھے تحفظ فراہم کرتے۔‘‘

خلیفہ نے بے بسی سے کہا ’’اللہ کی مرضی یہی تھی‘‘ہلاکو خان نے برجستہ کہا اب جو تیرا انجام ہوگا، وہ بھی اللہ ہی کی مرضی ہوگی، پھر خلیفہ کو سمودی لبادے میں لپیٹ کر ستون سے باندھ دیا گیا ہلاکو خان کے حکم پر ابن العلقمی نے خلیفہ پر لاتوں کی بارش کردی، اس کے کہنے پر غلاموں نے ڈنڈے برسائے، ابن العلقمی کے دل میں اب بھی ٹھنڈک نہیں پڑی تھی لہٰذا اس نے خلیفہ کی کچلی ہوئی لاش کو زمین پر گرایا اور اسے تادیر تک اپنے پاؤں تلے مسلتا رہا۔

خلیفہ کی موت کے بعد خلافت عباسیہ ہی نہیں بلکہ خلافت اسلامیہ کا دور بھی ختم ہوگیا۔

ہلاکو خان نے بغداد کا عباسی کتب خانہ جس میں لاکھوں قیمتی اور نادرکتابیں موجود تھی، ان قیمتی کتب کو دریائے دجلہ کی نذرکردیا، دریائے دجلہ کا پانی جو شہیدوں کے خون سے سرخ ہو رہا تھا اب سیاہ ہوگیا تھا، مورخین کے مطابق دریائے دجلہ کا پانی کم ازکم چھ ماہ تک سیاہ ہوکر بہتا رہا۔

منگولوں کی ظلم و بربریت نے انسانیت کے پرخچے اڑا دیے، اس کی وجہ خلیفہ کی نااہلی تھی وہ اپنے وزیر ابن العلقمی اور اراکین تک پہنچا، بغداد تباہ و برباد ہوگیا اور خوب خون کی ہولی کھیلی گئی۔

آج کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہے، مذہبی منافرت، لسانی و نسلی تعصب نے انسان سے اس کی انسانیت اور اوصاف اعلیٰ چھین لیے ہیں، آج بھی لوگوں کو اسی طرح بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے جگہ جگہ لاشوں کے انبار لگے ہوئے ہیں، کبھی ان لاشوں کو  بوریوں میں بند کرکے کچرے کے ڈھیر پر ڈال دیا جاتا ہے، مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ عزت و آبرو محفوظ نہیں رہی ہے آج بے شمار خواتین اور معصوم بچیوں کی عصمت کو تار تار کیا جارہا ہے۔

قصر شاہی میں بیٹھ کر حکومت کرنے والے ان حالات سے بے خبر ہیں، وہ باہر کے دورے تو کرتے ہیں لیکن اپنے ملک کے مظلوم انسانوں کی داد رسی اور انھیں انصاف مہیا نہیں کرتے، قاتل کو معاف کردیا جاتا ہے چور، ڈاکو، مجرم ملزم سب آزاد ہیں۔ قید میں ہیں تو بے چارے کمزور و غریب لوگ ہیں جو زندگی کی قید میں تو ہیں ہی، رسم و رواج اور طرح طرح کی بیماریوں کے جال میں بھی جکڑے ہوئے ہیں۔

ان کے بچے اور خاندان کے دوسرے لوگ بے قصور جیلوں میں قید ہیں۔ ان کے پاس نہ رشوت ہے اور نہ سفارش وہ دکھوں اور غموں میں مبتلا ہیں۔ ہمارے حکمراں اقتدار کے نشے سے باہر نکلیں اس سے پہلے کوئی دوسری طاقت ہمارے ملک کا رخ کرے اسے استحکام بخشیں، اس میں ہی سب کی عافیت ہے۔ ذاتی مفادات اور عیش و طرب دین و دنیا میں تباہی و ذلت کا باعث بنتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔