پنجاب میں ’’کنیزوں‘‘ کے قتال کی رِیت؛ فی الحال حکومت کو حکومت کرنے سے فرصت نہیں

سید مشرف شاہ / ایم عمیر دبیر  اتوار 26 جنوری 2014
رواں ماہ پنجاب کے دارالحکومت میں تین ملازمائیں تشدد کا نشانہ بناکر مار دی گئیں۔  فوٹو: فائل

رواں ماہ پنجاب کے دارالحکومت میں تین ملازمائیں تشدد کا نشانہ بناکر مار دی گئیں۔ فوٹو: فائل

لاہور: ملازم یا ملازمہ کے نام پر بچوں اور بڑوں کو غلام یا کنیز بنا کر رکھنے کی دین اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ مساجد کے اماموں کو چاہیے کہ اس مسئلے کو اپنے خطباتِ جمعہ کا موضوع بنائیں کیوں کہ حکومت کو فی الحال حکومت کرنے سے فرصت نہیں۔ رواں ماہ پنجاب کے دارالحکومت میں تین ملازمائیں تشدد کا نشانہ بناکر مار دی گئیں۔

شمالی چھاؤنی کے علاقے عسکری 10 کے رہائشی الطاف نے اوکاڑہ کی ایک غریب خاتون زبیدہ کی دس سالہ بیٹی اِرم کو تین ہزار روپے ماہانہ پر گھر میں ملازم رکھا تھا۔ ایک موقع پر گھر سے مبینہ طور پر تیس ہزار روپے غائب ہوگئے۔ خاتون خانہ ناصرہ کو ارم پر شک گزرا اور اس نے معصوم بچی کو برفا دینے والی سردی میں صحن میں کھڑا کیے رکھا، باپ تو دنیا ہی میں نہ تھا کہ سر پر دستِ شفقت رکھتا، ماں بھی پاس نہ تھی کہ اس کی نرم گرم گود میں جا چھپتی، در دور تک کوئی ایسا بھی نہیں تھا کہ ظالم کا ہاتھ روکتا، ننھی سی بے بس بچی لامحالہ اس وقت تک فریاد کرتی رہی ہوگی جب تک اس میں سکت تھی لیکن کب تک،  ایک وقت آیا ہوگا جب وہ تیورا کر گری ہوگی، سنگ دل مالکہ کے ہاتھ تب بھی نہ رکے ہوں گے حتیٰ کہ بے بس بچی کی حالت غیر ہوگئی ہوگی تو اسے قریبی سرکاری اسپتال پہنچا دیا لیکن ننھی ارم کی روح بے حسوں کی اس دنیا سے تب تک ناراض ہوکر اپنے خالق کے حضور شکایت لے کرپہنچ گئی۔

پولیس نے بچی  کی نعش قبضے میں لی، الطاف، اس کی فرعون عورت ناصرہ اور بیٹے عامر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے گرفتار کرلیا۔ مقتولہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ بیوہ ہے، رزق کی تنگی کے باعث اس نے اپنی بچی کو الطاف کے گھر ملازمہ رکھوایا تھا۔ ملزم الطاف نے پولیس کو بیان دیا کہ اس کی بیوی ذہنی مریضہ ہے۔ ملزمہ ناصرہ کا بیان ہے ’’گھر میں پہلے بھی دو تین بارچوری ہوچکی تھی، حالیہ وقوعہ پر میں نے ارم سے پوچھا تو وہ حیلے بہانے کرنے لگی، میں نے طیش میں آکر اسے مارا تاہم مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ مرجائے گی‘‘۔ یہ خاتون، جو اپنے شوہر کے دعوے کے مطابق ذہنی مریضہ ہے، اپنے بیٹے عامر کو شاید ’’تتی وا‘‘ کا لگنا بھی برداشت نہ کر پاتی ہو۔

اس المیے کی بازگشت ابھی فضا میں تھی کہ فیصل ٹاؤن کے علاقے میں کپڑے کے تاجر شیخ شوکت کے گھر سے سولہ سالہ ملازمہ عذرا کی پھندہ لگی نعش برآمد ہوگئی، ابتدائی بیان میں اہل خانہ نے کہا کہ بچی  نے خودکشی کی ہے تاہم تفتیش میں کھلا کہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس پر پولیس نے شیخ شوکت اور اس کے تینوں بیٹوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کروائے تو شیخ شوکت کے بیٹے عاصم کی کارستانی نکلی، جس نے اعتراف جرم بھی کرلیا۔ مقدمہ عذرا کے اہل خانہ کے بیان پر درج کیا گیا۔

ابھی یہ زخم بھی تازہ تھا کہ تیسرا سانحہ رونما ہوگیا۔ مقامی کالج کے پروفیسر سلمان  رفیق نے گھریلو ملازمہ فضا بتول کو تشدد کا نشانہ بناکر شدید مجروح کردیا، طبی امداد کے لیے اسے بھی عین آخری دم پر اسپتال پہنچایا گیا، جہاں وہ اگلے دن پڑھے لکھے ابوجہلوں کے  سماج سے منہ موڑ گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ پولیس نے ’’پروفیسر صاحب‘‘ کو گرفتار کرلیا اور بچی کی بے کس و بے خانماں ماں کے بیان پر مقدمہ درج کیا۔

تینوں مقدمے زیر سماعت ہیں۔ سی سی  پی او لاہور چوہدری شفیق احمد کا کہنا ہے کہ پولیس متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی تک کوشاں رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔