اسمارٹ ٹی وی یا جاسوس؟

ندیم سبحان  اتوار 26 جنوری 2014
کمپنیاں صارفین کا ڈیٹا حاصل کررہی ہیں، ہیکرز بھی بہ آسانی نشانہ بناسکتے ہیں۔   فوٹو : فائل

کمپنیاں صارفین کا ڈیٹا حاصل کررہی ہیں، ہیکرز بھی بہ آسانی نشانہ بناسکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

ڈرائنگ روم کی دیوار پر نصب اسمارٹ ٹیلی ویژن پر اپنے پسندیدہ پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس جادوئی آلے کے ذریعے کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے؟ کوئی سیکڑوں ہزاروں میل کی دوری سے آپ کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھے ہوئے ہے؟ آپ کے لیے یقین کرنا مشکل ہوگا کہ گھر بیٹھے آپ کو دنیا بھر کی سیر کروانے والا یہ آلہ آپ کی جاسوسی بھی کرسکتا ہے، مگر یہ حقیقت ہے۔

اسمارٹ ٹیلی ویژن، صرف ٹیلی ویژن ہی نہیں ہے بلکہ اسے کمپیوٹر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ یہ انٹرنیٹ سے جُڑسکتا ہے۔ اس کے ذریعے آپ ’’شاپنگ ایپس‘‘ کے ذریعے امیزون سے خریداری کرسکتے ہیں، یوٹیوب دیکھ سکتے ہیں اور’’ نیٹ فلکس‘‘ کے ذریعے فلمیں ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔ اسمارٹ ٹیلی ویژن ’’ آئی ٹیون‘‘ سے بھی کنیکٹ ہوتا ہے اور اس میں ’’ اسکائپ‘‘ کے ذریعے دوستوں اور عزیزوں سے گفتگو کرنے کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسمارٹ ٹیلی ویژن بنانے والی کمپنیاں ہی اس آلے کو اپنے صارفین کی جاسوسی کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ وہ فلیٹ اسکرین ٹیلی ویژن کے ذریعے صارف کا مکمل ڈیٹا حاصل کرتی ہیں۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر صارف کی دل چسپیوں کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر اسی مناسبت سے انھیں اشتہارات بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ کمپنیاں غیر ضروری اشتہارات کی مد میں کثیر نفع حاصل کررہی ہیں، یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام!

حال ہی میں برطانوی شہر ہَل کے ایک گاؤں میں رہنے والے آئی ٹی کنسلٹنٹ جیسن ہنٹلے نے اسمارٹ ٹیلی ویژن کے ذریعے صارفین کی جاسوسی کو بے نقاب کیا اور اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھایا۔ گذشتہ موسم گرما میں جیسن نے جنوبی کوریا کی عالمی شہرت یافتہ کمپنی کا فلیٹ اسکرین ٹیلی ویژن خریدا تھا۔ چند ہفتوں کے بعد اس نے محسوس کیا کہ جو پروگرام وہ دیکھتا تھا اسی کی بنیاد پر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر اشتہارات نمودار ہونے لگے ہیں۔ چند دن مزید غور کرنے کے بعد اسے یقین ہوگیا کہ اس کا لایا ہوا ٹیلی ویژن ہدفی اشتہارات (targeted adverts) دکھا رہا تھا، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک کسی کو یہ علم نہ ہو کہ ٹیلی ویژن پر کیا دیکھا جارہا ہے۔

چناں چہ جیسن نے اسمارٹ ٹی وی کو موصول ہونے والی اور اس سے بھیجی جانے والی معلومات یا ڈیٹا کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ ریسیور کا رابطہ ایک دوسرے سے الگ کرتے ہوئے انھیں اپنے لیپ ٹیپ کے ذریعے جوڑ دیا۔ اب اس کا لیپ ٹاپ بھیجے اور وصول کیے جانے والے ڈیٹا کو مانیٹر کررہا تھا۔

جلد ہی اس پر انکشاف ہوا اسمارٹ ٹی وی پر دیکھے جانے والے تمام پروگراموں حتیٰ کہ ریموٹ کنٹرول پر دبائے جانے والے ہر بٹن سے متعلق تفصیلات ٹیلی ویژن بنانے والی کمپنی کے جنوبی کوریا میں واقع دفاتر میں بھیجی جارہی تھیں، اور کمپنی پھر ان معلومات کی بنیاد پر اسے مخصوص اشتہارات بھیج کر نفع کمارہی تھی۔ تشویش ناک بات یہ تھی کہ جیسن نے ٹیلی ویژن پر اپنے اہل خانہ کی گھر میں بنائی گئی جو ویڈیوز دیکھی تھیں، وہ بھی اسمارٹ ٹی وی نے کمپنی کو ارسال کردی تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ اس کی لاعلمی میں ہورہا تھا۔ سب سے خطرناک امر یہ تھا کہ ڈیٹا شیئرنگ کے فیچر کو آف کرنے کے بعد بھی اسمارٹ ٹی وی سے معلومات بھیجنے کا سلسلہ جاری تھا۔

جیسن نے ٹیلی ویژن ساز کمپنی کی اس غیر قانونی حرکت کے بارے میں تفصیلات اپنے بلاگ پر اپ لوڈ کیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں اس معاملے کو شہ سرخیوں میں جگہ ملی تو مذکورہ کمپنی کے ترجمان نے بیان دیا کہ انھیں اس طرح کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ صارفین کی معلومات کو ان کی اجازت کے بغیر شیئر کیا گیا ہے، اور ہم اس بارے میں تحقیقات کریں گے۔

کمپیوٹر میں اینٹی وائرس پروگرام انسٹال کرکے انھیں ہیک ہونے سے بچایا جاسکتا ہے مگر اسمارٹ ٹی وی میں یہ خصوصیت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ہیکرز کے لیے انھیں نشانہ بنانا بہت آسان ہے۔ لیپ ٹاپ کی طرح اسمارٹ ٹیلی ویژن میں ویڈیو کیمرا بھی نصب ہوتا ہے، اس طرح ہیکرز اسمارٹ ٹی وی سے لطف اندوز ہونے والوں کو حقیقتاً دیکھ سکتے ہیں اور ان کی فوٹیج بناسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات بھی حاصل کرسکتے ہیں جو اسمارٹ ٹی وی کے صارفین pay-per-view پروگرام دیکھنے، فلمیں ڈاؤن لوڈ کرنے اور آن لائن خریداری کے لیے اپ لوڈ کرتے ہیں۔

جنوری کے آغاز میں مالٹا کی ایک کمپیوٹر سیکیورٹی کمپنی سے وابستہ پروگرامر Luigi Auriemma نے ایک اور معروف کورین کمپنی کے تیار کردہ مختلف اسمارٹ ٹیلی ویژنز کو ہیک کرکے ان سے جُڑے خطرات کو واضح کیا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ٹیلی ویژن سیٹوں تک رسائی حاصل کرنے کے بعد وہ انھیں اپنی مرضی کے مطابق چلانے میں کام یاب رہا۔ اس نے ان سیٹوں پر دیکھے گئے پروگراموں سے متعلق تمام ڈیٹا بہ آسانی حاصل کرلیا۔ اگر وہ مجرم ہوتا تو اس ڈیٹا کے ساتھ ساتھ کریڈٹ کارڈ کی معلومات جان لینا بھی اس کے لیے چنداں مشکل نہیں تھا۔

حال ہی میں انٹرنیٹ سیکیورٹی کے ماہرین نے یہ دریافت کیا کہ اسمارٹ ٹیلی ویژن کے بِلٹ اِن کیمرے تک رسائی حاصل کرنا بھی کچھ مشکل نہیں۔ سان فرانسسکو میں قائم آئی ٹی سکیوریٹی فرم ’’موکانا‘‘ کے ماہر کرٹ اسٹیمبرگر کا کہنا ہے کہ اسمارٹ ٹیلی ویژن بنانے والی ایک کمپنی کی جانب سے انھیں اس کی تیار کردہ ڈیوائسز کو آزمائشی طور پر ہیک کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ کرٹ کے مطابق انھوں نے نہ صرف ٹیلی ویژن سیٹوں پر دیکھے جانے والے پروگراموں سے متعلق تمام معلومات حاصل کرلیں بلکہ انھوں نے سیٹوں میں  ایک ’’ اسپائی ویئر‘‘ بھی انسٹال کردیا۔ اس اسپائی ویئر نے انھیں اس قابل کردیا تھا کہ وہ ٹیلی ویژن میں نصب کیمرے کے ذریعے سامنے موجود افراد پر نظر رکھ سکتے تھے۔

آئی ٹی سیکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسمارٹ ٹیلی ویژن میں ہیکنگ سے بچاؤ نہ ہونے کے سبب یہ صارفین کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔