مسئلہ افغانستان اور بھارتی کردار

سید منعم فاروق  پير 9 اگست 2021
امریکی افواج کے انخلا کے بعد بگرام ایئربیس سے بھارتی خفیہ اداروں کے اہلکار بھی بھارت روانہ ہوگئے۔ (فوٹو: فائل)

امریکی افواج کے انخلا کے بعد بگرام ایئربیس سے بھارتی خفیہ اداروں کے اہلکار بھی بھارت روانہ ہوگئے۔ (فوٹو: فائل)

ماضی قریب کے افغانستان کے زمینی حالات پر اگر نظر دوڑائی جائے تو امریکا کا بگرام ایئربیس خالی کرکے افغانستان سے نکل جانا ایک بہت بڑا ایونٹ تھا اور اس کے بعد ہی افغانستان میں موجود بھارتی مشن کے لوگوں کی نیند اڑنا شروع ہوئی تھی۔ کیونکہ بگرام ایئربیس سے بھارتی خفیہ اداروں کے لوگوں کی بڑی تعداد بھی امریکی انخلا کے فوراً بعد بھارت کی طرف روانہ ہوئی، جس کےلیے بھارت سے خصوصی پروازیں تک بھیجی گئیں۔

اب سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ بھارتی خفیہ اداروں را وغیرہ کے یہ کارندے بگرام ایئربیس پر کیا کر رہے تھے؟ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ بھارتی اہلکار عرصہ دراز سے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کا امن و امان غیر مستحکم کرنے کےلیے منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنا رہے تھے۔ بھارت کا افغانستان کے ذریعے خیبر اور بلوچستان کے علاقوں میں دہشتگرد داخل کروانا اور ان کے ذریعے پاکستان کا امن سبوتاژ کرنا اور پاکستانی سرحد کے ساتھ افغانستان کے اندر بھارتی قونصل خانے بھی اس بات کے گواہ تھے۔ اب ان تمام حقائق کو جانتے ہوئے ایک بہت اہم سوال اٹھ رہا ہے وہ یہ کہ بگرام ایئربیس پر موجود بھارتی کس کی سرپرستی میں کام کر رہے تھے؟

کیونکہ بگرام ایئربیس پر تو امریکی کنٹرول تھا، اور اگر بھارتی خفیہ اہلکار امریکیوں کی سرپرستی میں بگرام ایئربیس کے ذریعے پاکستان میں بدامنی پھیلا رہے تھے تو یہ خبر پاک امریکا تعلقات کےلیے ایک جھٹکا ثابت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اگر امریکا بھارت کو بگرام پر سپورٹ کر رہا تھا تو اس کا صاف مطلب یہی ہوا کہ پاکستان میں شورش پھیلانے میں بھارت کے ساتھ امریکا کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی بگرام ایئربیس سے روانگی کے فوراً بعد بھارتی نہ صرف بگرام سے نکلے بلکہ قندھار میں موجود بھارتی قونصل خانہ بھی بند کردیا گیا، اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مختلف علاقوں میں موجود بھارتی سیف ہاؤسز اور ٹریننگ کیمپس کو بھی بند کرنا پڑا۔ اور اب ایسا نظر آرہا ہے کہ پاکستان امریکا تعلقات میں حالیہ سردمہری کا باعث بھی شاید یہی حقائق ہیں۔

افغانستان کی حالیہ صورتحال کے بعد اگر پاکستان کے کردار کی بات کی جائے تو اس وقت مغرب پاکستان سے یہ تقاضا کررہا ہے کہ پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔ ہر ملک اپنی توقعات و فرمائشوں کے ساتھ پاکستان سے روابط بڑھا رہا ہے اور یہی وہ اہم وقت ہے جب پاکستان سب سے پہلے قومی مفاد اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی فیصلہ کرے۔ روس، پاکستان، چین اور امریکا کی اگلے ہفتے دوحا میں ہونے والی میٹنگ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس میٹنگ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری چپقلش کے دیرینہ حل اور خطے میں امن کےلیے بڑے فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔

پاکستان کو سب سے پہلے اس چیز پر نظر رکھنی ہے کہ امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد امریکا کی خالی کی گئی جگہ کو کہیں بھارت تو نہیں پُر کرے گا؟ کیونکہ معتبر بین الاقوامی حلقوں میں یہ بازگشت بھی سنی گئی ہے کہ شاید بھارت افغانستان کی فوجی امداد کرنے کےلیے رضامند ہے اور افغانستان کے آرمی چیف کا دورہ افغانستان بھی اسی سلسلے میں پیشرفت تھی، جس کو بعد میں نامعلوم وجوہ کی بنا پر منسوخ کردیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکی انخلا کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر آئی ہے، جس کے تانے بانے بھی افغان سرزمین پر موجود بھارتی اثاثوں سے مل رہے ہیں، جس کا ذکر پاکستانی حکومت نے دبنگ الفاظ میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر اور آئی ایس آئی چیف کا دورہ امریکا اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس دورے میں اس پورے خطے میں بھارتی منفی کردار کے بارے میں بھی بات چیت متوقع ہے۔

بھارت کو اگر دیکھا جائے تو سلامتی کونسل کی صدارت ملنے کے بعد بھارت نے عالمی فورم پر مسئلہ افغانستان کو زور و شور سے اٹھانا شروع کردیا ہے۔ بھارتی حالیہ رویے کو دیکھتے ہوئے اس بات کی قوی امید ہے کہ بھارت مسئلہ افغانستان پر بلائے جانے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان پر ایک بار پھر طالبان کی حمایت اور فنڈنگ کا الزام لگائے گا۔ دوسری جانب بھارت نے طالبان سے بھی روابط بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ بھارت کو یہ خوف تو بہرحال موجود ہے کہ اگر طالبان طاقتور رہتے ہیں اور افغانستان میں امن رہتا ہے تو ان جنگجو طالبان کی اگلی منزل کشمیر بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے بھارت کی یہ کوشش رہے گی کہ طالبان کو افغانستان میں ہی الجھا کر رکھا جائے اور ان کو کسی صورت طاقت میں نہ آنے دیا جائے اور اگر طاقت میں آ بھی جاتے ہیں تو بھارت کےلیے کسی بھی قسم کا خطرہ نہ بنیں۔

اس وقت افغانستان کا مسئلہ پوری دنیا کےلیے ایک معمہ بنا ہوا ہے اور افغانستان کی حکومت اور طالبان کے ترجمان بھی اصل زمینی حقائق دنیا تک نہیں پہنچا رہے۔ ایسے موقع پر پاکستان کا کردار بلاشبہ بہت اہم ہے لیکن سب سے ضروری یہ بات ہے کہ پاکستان اپنا ’’ہاؤس اِن آرڈر‘‘ رکھنے کےلیے افغانستان اور پاکستان کے درمیان نقل و حمل پر کڑی سے کڑی نظر رکھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید منعم فاروق

سید منعم فاروق

بلاگر کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور مختلف اداروں کے ساتھ فری لانسر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا، کرنٹ افیئرز اور کھیلوں کے موضوعات پر لکھنے کا شوق ہے۔ ٹویٹر ہینڈل @syedmunimpk پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔