مشکل وقت سر پر آ گیا

زمرد نقوی  اتوار 26 جنوری 2014

ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے ملک میں بدامنی ختم کر کے امن قائم کرنے کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرنے پر اتفاق کیا ہے جب کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے قریبی رفقا سیاسی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے مختلف آپشن پر غور کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا تھا جس میں سیکیورٹی پالیسی کی منظوری تو نہیں دی جا سکی تھی لیکن بعد میں آپریشن کا فیصلہ ضروری سامنے آ گیا ہے۔ جب دنیا ہم پر الزام لگاتی تھی کہ پاکستان میں ناپسندیدہ لوگوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی یہاں کیا کر رہے ہیں۔ عرصے سے ایسی اطلاعات ہیں کہ اپنے ملکوں سے بھاگ کر افغانستان آنے والوں نے پاکستان کا رخ کیا اور پاکستان دنیا کی نظروں میں آگیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ملکوں میں کیوں نہیں جارہے؟پاکستان کو کیوں انھوں نے اپنا اڈہ بنایا ہوا ہے۔ وقت پر صحیح فیصلہ نہ کرنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب پاکستان مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔

کوئٹہ میں ہزارہ منگول برادری کا قتل معمول بن گیا ہے۔ ان کے صبر کی داد تو وفاقی وزیر داخلہ نے بھی دی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر حکومت نے اپنی رٹ کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر پرامن احتجاج تباہ کن احتجاج میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے اور یہی پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں جس کے لیے پچھلے تیس سال سے وہ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی عراق اور شام کی طرح خانہ جنگی شروع ہو جائے۔ اللہ نہ کرے کہ وہ وقت کبھی آئے لیکن اب صرف دعائوں سے کام نہیں چلے گا جب تک ملک دشمنوں کو آہنی ہاتھوں سے کچل نہیں دیا جاتا۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت ان کو کچلنے میں بے بس ہے۔ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف صرف وفاقی حکومت اور اس کے ادارے ہی  کارروائی کر سکتے ہیں۔ شرپسند کوئی سلیمانی ٹوپی نہیں پہنے ہوئے، سب کو پتہ ہے کہ وہ کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ ہمارے حساس اداروں کو چاہیے کہ وہ اس سے پہلے کہ نہتے پر امن شہریوں پر حملے کریں، ان کی کمین گاہوں پر حملے کر کے ان کا اور ان کے حمایتوں کا بھی خاتمہ کیا جائے ۔

اگر پاکستان کی مختلف حکومتیں اینٹی پاکستان قوتوں کے خلاف مسلسل اقدامات کرتی رہتیں توآج پاکستانی عوام کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ پچھلے پانچ سالوں میں نہ صرف معصوم پاکستانی شہریوں بلکہ عسکری اداروں کو ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا جس میں کراچی نیول بیس اور کامرہ پر حملے شامل ہیں۔ حالیہ حملے جو بنوں اور آر اے بازار راولپنڈی میں ہوئے ، اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس حملے کی مذمت میںدائیں بازو کے سیاستدان نرم لہجے کا استعمال کرتے ہیں۔حکومت کی کمزور پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پورے ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ کراچی کی صورت حال زیادہ خراب ہے‘ وہ ایسا علاقہ ہے جہاں پورے برصغیر سے بلا روک ٹوک لوگ آ رہے ہیں لیکن حکومتی ادارے مفلوج ہیں۔ افغانستان سے بھی بڑی تعداد میں لوگ یہاں آ گئے‘ اس سے کراچی میں لاقانونیت بڑھنا شروع ہو گئی‘ جو اب قابو سے باہر ہے۔ اب کراچی میں نجانے کون کون سے گروہ کام کررہے ہیں ، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔

ایسا لگتا ہے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز اس جنگی حکمت عملی پر عمل کررہے ہیں جو صرف ملک دشمن ہی کر سکتے ہیں کہ ایک تو پورے پاکستان میں اپنے عسکری سیل قائم کر دیے جائیں تودوسری طرف پاکستان کی معاشی شہ رگ پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو مذہب، نسل اور زبان کے نام پر تقسیم کرتے ہوئے ان کو فکری طور پر مفلوج کر دیا جائے۔ ملک دشمن گروہ اور ان کے حمایتی کتنے سمجھدار ہیں کہ جب انھوں نے دیکھا کہ وہ انتخابات میں جیت نہیں سکتے کیونکہ پاکستانی مسلمان ان کی ضمانتیں تک ضبط کرا دیتے ہیں تو انھوں نے بذریعہ طاقت پاکستان پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی، اب لگتا ہے کہ وہ ملک کو گروہوں میں تقسیم کرکے خود کو محفوظ رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ریاستی ادارے خطرات سے آگاہ ہیں۔معاملہ صرف طالبان کا نہیں ہے، بہت سے دیگر گروہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔نواز شریف حکومت سخت مشکل میں ہے۔وہ چاہتی یہ ہے کہ چھوٹی موٹی کارروائیوں سے کام چل جائے لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ایک جانب فاٹا ہے تودوسری جانب کراچی ہے،بلوچستان الگ مسئلہ ہے۔ ایسے میں حکومت کون سا محاذ کھولے ، یہی اس کے لیے سب سے بڑی پرشانی ہے۔

پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے بعض انتہائی اہم اور فیصلہ کن اقدامات مارچ اپریل میں کیے جانے کا امکان ہے۔

سیل فون:0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔