پاکستان کا کل

وجاہت علی عباسی  اتوار 26 جنوری 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

میں کل ہوں پاکستان کا۔ وہ کل جس کو ہمیں بہترکرنے کی شدید ضرورت ہے، میری عمر پانچ سال ہے اور میرے کمزورکندھوں پر اس ملک کو بچانے اور چلانے کی بڑی ذمے داری ڈالی گئی ہے، ہم لاکھ ایک دوسرے کو یہ کہہ کر بہلا لیں کہ سب صحیح ہے لیکن سچ سچ ہی رہے گا اور سچ یہ ہے کہ ہم باقی دنیا کے مقابلے میں مہذب سوسائٹی سے بہت دور ہیں۔

چھوٹے سے جھگڑے میں لڑکے ایک دوسرے کو قتل کردیتے ہیں اور کیس نمٹانے میں برسوں لگ جاتے ہیں، چھوٹے چورکو پکڑے جانے پر اسے سر عام مارا جاتا ہے لیکن پولیس نہیں پہنچتی، لا اینڈ آرڈر باآسانی پانچ ہزار سے پانچ لاکھ تک بکنے پر تیار ہے اور جنھیں جیلوں میں ہونا چاہیے وہ اونچی اونچی کرسیوں پر راج کر رہے ہیں اور یہی میرے ملک کا آج، میرے ملک کا سچ ہے،مجھے میری سوسائٹی نے میرا آج ایسا دیا ہے کہ مجھے اس ملک کا کل بہتر کرنے کے لیے خود کو بہت مضبوط بنانا ہوگا، جب ایک بچہ مغرب میں پیدا ہوتا ہے تو اسے اس سوسائٹی میں آگے بڑھنے کے کئی مواقع ملتے ہیں لیکن میری سوسائٹی یہ سکھاتی ہے کہ کچھ بھی حاصل کرنے کے لیے مجھے سسٹم سے لڑنا ہوگا، وہ سسٹم جو بے ایمان، بے رحم، لالچی جھوٹا اور طاقتور ہے۔

پیسے سے خوشی نہیں خریدی جاسکتی لیکن پیسے میں وہ طاقت ہے جس سے دنیا بدلی جاسکتی ہے، ترقی کی جاسکتی ہے، دنیا میں آج تک سب سے زیادہ پیسہ کمانے والے کا نام وارنر بوفٹ ہے، 144 بلین ڈالرز کمانے والے اس بزنس مین نے اپنی 1994 کی ایک تقریر میں کہا تھا میری کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میں امریکا میں پیدا ہوا پاکستان یا بنگلہ دیش جیسے بچھڑے ملکوں میں نہیں جہاں کے نوجوانوں کا آگے بڑھنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔

1994 سے لے کر آج تک بنگلہ دیش نے اپنے آپ کو بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ،آج بنگالی نوجوانوں کو کچھ کر دکھانے کی ان کی سوسائٹی کئی موقعے دیتی ہے مائیکرو لون آج بنگلہ کمپنیاں سب سے زیادہ اپنی یوتھ کو دے رہی ہیں لیکن ہمارے لیے چیزیں اس وقت سے آج تک بد سے بدتر ہوتی گئیں لیکن میں بدلوں گا پاکستان کا کل۔ وہ کل جس میں کوئی وارنر بوفٹ میرے ملک کی مثال دے کر یہ نہیں کہے گا کہ اس ملک کے نوجوان کامیاب نہیں ہوسکتے۔

ایمیزون ڈاٹ کام۔ انٹرنیٹ کی ایک مشہور کمپنی ہے۔ یہ کمپنی شپنگ کے لیے یوپی ایس، ڈی ایچ ایل اور فیڈیکس جیسی کئی شپنگ کمپنیوں کو استعمال کرتی ہے جتنی رقم 2013 میں صرف ایک کمپنی یو پی ایس کو شپنگ کے لیے دی گئی ہے اس سے کم پورے پاکستان کا اس سال کا بجٹ تھا یعنی امریکا کی ایک پرائیویٹ شپنگ کمپنی کا ایک اکاؤنٹ پاکستان کے خرچے سے بڑا ہے۔

میں نہیں مانتا ایسی سوسائٹی کے طور طریقوں کو جہاں کے لیڈرز تھوڑے پیسوں کے لیے ملک کو آگے نہیں بڑھنے دیتے وہ نادان نہیں سمجھتے کہ اگر ملک کو آگے بڑھنے دیں تو جتنے پیسے وہ چرا رہے ہیں اس سے زیادہ کما پائیں گے۔

سو روپے چوری کرنے والا کبھی بھی دس لاکھ کمانے کی نہیں سوچتا، میں پاکستان کے آنے والے کل کو بہتر بناؤں گا کرپشن نہیں کروں گا۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے کامیاب نہیں ہونا لیکن میں سو کروڑ کی چوری کرنے پر نہیں ہزار کروڑ کی انڈسٹری بنانے پر یقین رکھتا ہوں۔

انسان کی زندگی میں سب سے اہم ہے وقت۔ وہ وقت جو ہمارے پاس محدود ہوتا ہے، جان ہے تو جہان ہے والی مثال سچ ہے اگر انسان کے پاس صحت ہے تو وہ اپنی مثبت سوچ سے دنیا فتح کرسکتا ہے اور میں بھی وہی کروں گا اپنی صحت کا خیال رکھوں گا یہی سوچ تھی میری اور اسی لیے میں پولیو کے ٹیکے لگوانے گیا تھا۔

دو ہفتے پہلے انڈیا پولیو فری ہوگیا یعنی وہاں کوئی بھی نوزائیدہ بچہ ایسا نہیں جس نے پولیو ڈراپس نہ پیے ہوں، انڈیا اس بات کو لے کر بہت خوش ہے بولی وڈ اسٹار امیتابھ بچن سے لے کر وزیر اعظم تک اس بات کا ذکر کرتے نظر آئے۔ پولیو لگنے والی بیماری ہے جو چھوٹے بچوں کو ایک دوسرے سے آسانی سے لگ سکتی ہے پولیو سے جسم کا کوئی بھی حصہ مفلوج ہوسکتا ہے اور پھر وہ زندگی بھر ایسا ہی رہتا ہے۔

چالیس سال پہلے بننے والی پولیو کے ٹیکے وہ کچھ بوندیں ہیں جس سے ایک بچے، ایک انسان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل سکتی ہے، سوسائٹی میں موجود بڑوں کا بچوں کو پولیو کے ڈراپس دینا ان کا فرض اور ہر بچے کو یہ ڈراپس ملنا اس کا حق ہونا چاہیے اور یہی ہے وہ حق جسے حاصل کرنے میں کچھ دن پہلے کراچی کے علاقے قیوم آباد گیا تھا۔ وہ حق جو مجھ سے چھین لیا گیا۔

آپ نے کچھ دن پہلے ٹی وی چینلز پر دیکھا ہوگا کہ نامعلوم افراد نے تین پولیو کے قطرے پلانے والے ورکرز کو جان سے مار دیا لیکن کسی نے بھی یہ خبر شو نہیں کی کہ ان پولیو ورکرز کا انتظار کرنے والا پاکستان کا کل یعنی ’’میں‘‘ کلینک کی بینچ پر ہی بیٹھا رہ گیا اسے پولیو ڈراپس نہیں ملے۔ وہ کل جو اس سانحے کی وجہ سے آج پولیو کا شکار ہے جو اس دنیا کے دوسرے ملکوں سے تیز دوڑنے کے خواب دیکھ رہا تھا اب بستر سے اٹھ کر چلنے کے لیے بھی سہارا تلاش کرے گا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو پولیو کا سب سے بڑا گڑھ قرار دیا ہے۔ یہ پولیو صرف ان معصوم بچوں کو نہیں ہوا ہے یہ پولیو ہوا ہے پاکستان کے آنے والے کل کو۔

وہ لوگ جو ہیلمٹ میں منہ چھپائے بائیک پر سوار گولی مار کر چلے گئے میرا ان سے یہ سوال ہے کہ اگر یہ احتجاج ہے تو خود اپنے سر پر سرعام بندوق تان کر کیوں نہیں اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے کیوں ان مظلوموں کو نشانہ بناتے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں۔

پولیو کسی بھی سوسائٹی میں لگنے والا دیمک ہے جو میرے آنے والے کل کے پاکستان کو لگ چکا ہے، پولیو کے قطرے پلانے والی آرگنائزیشن نے سندھ بھر میں خطرے کی وجہ سے پولیو ویکسینیشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے،کچھ خواب دیکھے تھے میں نے پاکستان کے کل کو بہتر کرنے کے لیے لیکن ظالموں نے میرے کل میں صرف پولیو کی مجبوریاں لکھ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔