ڈاکٹر محمد علی صدیقی…شخصیت و فن

ڈاکٹر ناصر مستحسن  اتوار 26 جنوری 2014

ڈاکٹر محمدعلی صدیقی کا شماراردو تنقید کے اہم ترین نقادوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے مغربی ادب کا مطالعہ دقت نظر سے کیا ہے، انگریزی اور فرانسیسی ادب سے ان کا براہ راست تعلق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محمدعلی صدیقی نے اردو ادب کی روایت کا بھی گہرا مطالعہ کر رکھا ہے،اردو ادب اور جدید مغربی ادب کے یکساں مطالعے نے ان کے یہاںاعتدال اور توازن پیدا کیا اور اصل میں وہ نا تو مقامی ادبی معیارات تک محدود رہے اور نہ مغربی ادب سے مرعوب ہوئے۔ ڈاکٹر صدیقی جدید فکر کے آدمی ہیں ان کا مطالعہ بھی مغرب اور مشرق کے ماڈرن ادب کا وسیع اور گہرا ہے۔ ان کی تنقیدی تحریروں کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان میں ناقد کے ذہن کے سارے دریچے کھلے نظر آتے ہیں۔

صدیقی صاحب کی تنقید ان خامیوں سے پاک ہے جس کا شکار ترقی پسند نقاد، تحریک کے ابتدائی سالوں میں ہوئے وہ روایت کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں ان کے یہاں قدیم کلاسیکی ادب کے جاندار عناصر ’’زندہ روایت کے امین ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ مارکس اور لینن ادب کی اس صحت مندی کے قائل تھے انھوں نے لینن کی مثال دی ۔جس نے مایا کوفسکی Mayakofsky کے اس رویے کو ناقابل فہم قرار دیا تھا کہ وہ ماضی کے عظیم ادبی ورثے کو دریا برد کرنا چاہتا تھا۔

صدیقی صاحب نے روایت کے ساتھ ساتھ جدیدیت کی بحث بھی چھیڑی ہے کیونکہ ترقی پسند نظریہ اپنے اندر جدید معنویت رکھتا ہے اور ترقی پسندی کے نام پر رجعت پسندی کے خلاف ہیں وہ ان ناقدین جو مغربی مفکرین کے زیر اثر ہیں ان کے بھی خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ یاسیت پسند لوگ ہیں آپ ان کے یہاں اکثر تنقیدی مضامین پڑھ کر اس بات کا اندازہ بھی لگا لیں گے کہ انھوں نے جہاں مغربی ادب پر بے تکان لکھا اور ان مغربی دانشوروں کو آڑھے ہاتھوں لیا جو ناامیدی، مایوسی اور بے دلی پیدا کرتے ہیں کیا یہ وہ اشارے نہیں جو کسی بھی ذی عقل کے اندر شکست خوردگی کے احساس کو پیدا نہیں کرتے ہوں گے، بحیثیت قاری میں نے اب تک ان کے جتنے بھی مضامین پڑھے مجھے میرے سوالوں کے مدلل جواب ملے۔ مثال کے طور پر میں کئی زمانے سے اس ادھیڑ بن میں تھا کہ مابعد جدیدیت کے اغراض و مقاصد کیا ہوسکتے ہیں اس کا مدلل جواب مجھے ان کی نئی کتاب مابعد جدیدیت سے مل گیا اندھے کو کیا چاہئیں دو آنکھیں، میں کہیں بھی بوریت یا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوا ایک اچھا نقاد ناقدین و قارئین کی الجھی ہوئی گتھیاں ہی نہیں سلجھاتا بلکہ اپنے ناقدین کو شعور کی روشنی سے بھی منور کردیتا ہے، صدیقی صاحب کی تحریر کا بلاشبہ یہی طرہ امتیاز ہے۔

صدیقی صاحب نے اپنے کلچر کو لے کر بہت لکھا اور پاکستانی کلچر کے سوال پر غور و خوص کیا اور یہ کہا کہ ہمیں پاکستانی ثقافت کو وادی سندھ کی قدیم تہذیب تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔

تنقید اور تخلیق کا آپس میں ایک گہرا رشتہ ہے میں بین جانسن کے اس قول سے قطعی متفق نہیں ہوں کہ ایک شاعر ہی شاعری کا اچھا نقاد ہوسکتا ہے اگر ایسا ہی ہوتا تو پروفیسر ممتاز حسین یوں نا کہتے کہ ’’جب کوئی شاعر تنقید کرتا ہے تو وہ اپنی دکان ہی کی آبرو کو بڑھاتا ہے۔ آگہی کی بدولت جدید اردو تنقید میں صدیقی صاحب بے باکانہ اظہار رائے کے ذریعے اردو تنقید کے افق پر بولڈ لکیر کھینچ دیتے ہیں۔ انھوں نے ادبی مسائل پر لکھنے کے علاوہ تخلیق اور تخلیق کار پر بھی کافی کچھ لکھا ہے، شہزاد منظر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ وہ عملی تنقید سے بچتے ہیں اور نظری بحثیں پسند کرتے ہیں، کچھ قابل قبول نہیں وہ یوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ان کی کتاب ’’توازن‘‘ کے علاوہ بھی ان کی عملی تنقید کے نمونے دنیا بھر کے رسائل میں شایع نہ ہوتے ان کی عملی تنقید کی ایک خوبی ان کا تجزیاتی انداز ہے وہ بات کی تہہ تک پہنچتے ہیں، دوسری خوبی ان کی وسیع الذہنی اور وسیع القلبی ہے، جس کا ثبوت اطہر نفیس ضیاجالندھری اور مجید امجد پر ان کی تحریریں ہیں جو غیر ترقی پسند ہیں اس کا ایک ثبوت کروپے پر ان کی کتاب بھی ہے جس کے خلاف خود ترقی پسندوں نے ہمیشہ محاذ قائم رکھا۔ سید ضمیر جعفری نے کیا خوب کہا ہے ’’م۔ع۔ص ہمارے عہد کے چند صاحب اسلوب نقادوں اور تہذیب و فنون کی اقدار کے پارکھوں میں سے ہیں اس دور میں اردو تنقید کے ڈھانچے کو جس شدت کے ساتھ محمد علی صدیقی نے بھنبھوڑا جھنجھوڑا اتنی تھرتھری کوئی دوسرا نقاد برپا نہیں کرسکا۔

صدیقی صاحب نے جدیدیت کے نام پر اور ادب میں درآمد شدہ ان نظریات کی اصل بنیادوں کا براہ راست مطالعہ بھی کیا۔ انھوں نے ہائیڈیگر Hyddegar کی مظہریت اور وٹ گن اسٹائن wittgenstein کی سائنسی دشمنی کو اپنے قاری کے سامنے عیاں کردیا اور چند ادیبوں اور شاعروں نے ان مفکرین کو ترقی پسند ثابت کرنے کی کوششیں کیں۔ تو صدیقی صاحب نے ان پر حقائق کو واضح کردیا۔ انھوں نے ہائیڈیگر کی مظہریات پر قائم موضوعیت پسند فکر کو سائنسی استدلال کے ذریعے بے اثر کردیا وہ جن دقیق ادبی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں وہ بھی ان کے مطالعے کی وسعت کا ثبوت ہیں۔ وہ آدھا مجنوں گورکھپوری سمجھاتے سمجھاتے قاری کو پورا ’’جان اسٹورٹ ملز‘‘ پڑھا جاتے ہیں، وہ سارتر کے کسی اقتباس سے کالم کی ابتدا کرتے اور ہیگل Hegel نطشے، شوپن ہاور، اے۔جے آئر اور چومسکی سے ہوتے ہوئے رشید امجد پر ختم کرڈالتے۔

اردو ادب کے کسی اور نقاد نے مغربی مفکرین اور ادب کا اور بہ حیثیت مجموعی انگریزی، فرانسیسی، اطالوی، امریکن ادب کا اتنا مطالعہ نہیں کیا جتنا محمد علی صدیقی نے یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں ہمیں شوپن ہاور، ہیگل، کروپے، نطشے، چومسکی، وٹ گن اسٹائن، جیپرز، میکسی ورتھ، ولیم ونڈت، ارنسٹ کیریئر، کارنیپ جیسے مفکرین اور گلوبلائزیشن، ڈبلیو۔ٹی۔او اور مابعد جدیدیت جیسی مغربی تھیوریز اردو ادب و تنقید میں پڑھنے کو ملی ہیں جس کا سہرا ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے سر جاتا ہے۔ قمر جمیل صاحب نے صدیقی صاحب پر مضمون میں کہا کہ ’’وزیر آغا شاید واقف ہوں ورنہ اس زمانے میں یعنی 1975 میں جب محمدعلی صدیقی نے ساخیات  Structrulism پر ایک نہیں دو نہیں چار مضامین لکھے اس وقت پاکستان میں بڑے بڑے علما اور نقاد حضرات نے ساختیات کا نام بھی نہیں سنا تھا۔

اس زمانے میں صدیقی صاحب نے نوم چومسکی پر اردو زبان میں پہلا مضمون لکھا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’عسکری صاحب اور ممتاز حسین کے بعد ہمارے درمیان صرف ایک نقاد زندہ رہ گیا ہے اور وہ محمدعلی صدیقی ہے، محقق اور مورخ دو حضرات ہیں ایک مشفق خواجہ اور دوسرے جمیل جالبی۔ ہاں سرگودھا میں ایک انشائیہ نگار ہیں وزیر آغا، باقی اللہ اللہ خیر صلا، معاف کیجیے گا ایک جینوئین رائٹر بھی ہیں مشتاق احمد یوسفی۔ یوسفی صاحب جتنے چلبلے ہیں صدیقی صاحب اتنے ہی سنجیدہ۔ میں دو آدمیوں سے ڈرتا ہوں مشفق خواجہ سے طنز کی وجہ سے اور صدیقی صاحب سے ان کے علم کی وجہ سے اور کچھ نام نہاد نقادوں سے بھی ڈرتا ہوں لیکن ان کے جہل کی وجہ سے۔

میرا خیال ہے جتنا کام اختر حسین رائے پوری، مجنوں گورکھپوری، فرمان فتح پوری، ممتاز حسین، عسکری صاحب، ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے کیا ہے یہ کام اب کوئی ادارہ ہی کرسکتا ہے، آنے والے وقتوں میں کوئی نظر ہی نہیں آتا۔ صدیقی صاحب کی حلقہ تحریر اور دائرہ مطالعہ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، ترقی پسند، غیر ترقی پسند، اسلام پسند، وجودیت، جدیدیت، انقلابی، غیرانقلابی اور فرقہ باطنیہ تک کے لوگ شامل ہیں۔ انھوں نے سب ہی کو پڑھا ہے، غالباً سبھی پر لکھا ہے۔ استفادہ کا اعتراف کیا ہے، لیکن اظہار خیال میں نہ تو کسی خوف و جبریت کا شکار ہیں نہ استدلال و دیانت اور شرافت و متانت کو چھوڑا ہے۔

وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے باضابطہ صدر بھی رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی اعلیٰ و ادبی کاوشوں پر اردو زبان و ادب کے اس فرزند کو تنقید کے سپہ سالار کو، ترقی پسند ادب کے سرخیل کو 2003 میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا اور 2010 میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ صدیقی، فیگن کے بعد دوسرے پاکستانی نقاد ہیں جن کو 1984 میں Casa Scholar کا اعزاز ملا۔ اور AICL (انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف کریٹکس پیپرس میں پہلے ایشیائی اور پاکستانی نقاد ہیں تا ہنوز خدا تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔(آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔