کیا تعلیم کی خریدو فروخت جائز ہے؟

پروفیسر رشید احمد انگوی  پير 27 جنوری 2014
طبقاتی نظامِ تعلیم کے ذریعے قوم کی بربادی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ فوٹو: فائل

طبقاتی نظامِ تعلیم کے ذریعے قوم کی بربادی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ فوٹو: فائل

تعلیم سے زیادی اہم کوئی ضرورت اب تک پیدا ہوئی ہے اور نہ ہو گی… اللہ تعالیٰ کی آخری و مکمل کتاب ہدایت کا اوّلیں پیغام ’’پڑھنے، لکھنے اور پڑھانے‘‘ پر مشتمل ہے۔

اس سے بڑھ کر تعلیم کی اہمیت کیا ہو سکتی ہے۔ مگر مملکت خداداد اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں آج مہنگا ترین شعبہ تعلیم کا ہے۔ دینی مدارس تو آج بھی مفت تعلیم دے رہے ہیں اور سرکاری اسکول کالج بھی کافی سستی تعلیم مہیا کر رہے ہیں مگر جو سکہ رائج الوقت بنا ہوا ہے وہ انتہائی مہنگی تعلیم ہے۔ یہ سلسلہ پرائیویٹ اسکول، اور پرائیویٹ کالج سے ہوتا ہوا پرائیویٹ یونیورسٹی تک پہنچتا ہے۔ آج گلی گلی انگلش میڈیم سکولوں کا جو جن بوتل سے باہر آیا ہوا ہے اسے کون کنٹرول کر سکتا ہے؟۔ ایک جانب دہشت گردی اور امن و امان کی ابتر صورت حال نے ملک و قوم کا سکون برباد کر رکھا ہے تو دوسری جانب مہنگی تعلیم نے والدین کو معاشی بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ بیٹا ہو یا بیٹی، تعلیم پانا اس کا حق ہے اور والدین کا فرض کہ اسے تعلیم دلائیں مگر ریاست و معاشرہ نے والدین کو مہنگی تعلیم کے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ملک کے اعلیٰ بیورو کریٹس کے بچے براہ راست مغربی ممالک میں کروڑوں کے بجٹ پر پڑھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ لامتناہی مالی وسائل آتے کہاں سے ہیں؟۔ صاف ظاہر ہے کہ کرپشن سے، کیوںکہ جائز طریقوں سے تو ملازمین سرکار کی جیبیں اس قدر بھاری ہو ہی نہیں سکتیں، کاش کہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں گریڈ بائیس کے افسروں کے بچوں بچیوں کے تفصیلی تعلیمی کوائف پیش کئے جا سکیں کہ ایک ایک بچے پر بیرونی ڈگریوں کے حصول کے لیے خرچ ہونے والا خزانہ بچوں کے باپ کے پاس آ کیسے گیا؟

 photo Pic_zps287eddbf.jpg

انسانی شخصیت کی مادی لحاظ سے اصل حقیقت تو ڈی این اے (جینز) پر مشتمل ہے۔ اصلاًڈی این اے امیر و غریب شاہ و گدا سب کے بچوں کا ایک جیسا ہوتا ہے۔ کتنے ہی غریب بچے اعلیٰ ترین صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں مگر ملک کا ظالمانہ نظام غریب والدین کے گھر پیدا ہونے کے جرم میں تعلیم و ترقی کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ ادھر امراء کے ہاں جنم لینے والے نالائق بچے بھی والدین کے جائز و ناجائز وسائل کی بدولت من پسند ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ تعلیم میں اس طبقاتی تقسیم یعنی ’’امیرتعلیم اور غریب تعلیم‘‘کے بارے میں آگاہی بڑھنی چاہیے۔ ڈگری بوجہ دولت اور ڈگری سے محرومی بوجہ غربت کا نظام اب ختم ہونا چاہیے۔ اگر مغرب پرست طبقے تعلیم میں طبقاتی تقسیم سے باز نہیں آئیں گے تو یاد رکھیے اس کے شدید رد عمل سے آپ بچ نہ سکیں گے۔ سکول کے بچے کو امیری و غریبی کی بنیاد پر چلنے والے تعلیمی نظام کے سپرد کیا جائے گا تو اس سے کبھی خیر برآمد نہ ہو سکے گی اور معاشرہ قسم قسم کی ناآسودگیوں کا شکار ہو جائے گا۔

صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے نمائندگان کا فرض ہے کہ سرکاری اسکول اور کالج سے لے کر پرائیویٹ سکولوں و کالجوں کی فیسوں کے چارٹ اسمبلی میں پیش کیے جائیں اور ووٹ دینے والے عوام کے مالی حالات کے ساتھ ان کی مناسبت وضع کی جائے۔ ہمارے حکمران کیوں نہیں سمجھ رہے کہ کئی قسم کے تعلیمی نظام مسلط ہوں گے تو ایک متحد قوم کبھی تیار نہیں ہو سکے گی۔ یاد رکھیے جتنے قسم کے تعلیمی نظام ہوں گے اتنی قسم کی قومیں تیار ہوں گی، جن کے احساسات، محسوسات، جذبات، مرغوبات، منکرات مختلف قسم کے ہونگے اور اس حقیقت کا اظہار ہونا شروع بھی ہو گیا ہے کہ مدارس اور ویسٹرن سٹائل اداروں سے بالکل مختلف مخلوق تیار ہو رہی ہے۔ قومی نظام تعلیم کیلئے اقبال و جناح اہم ہیں، مگر مغربی طرز تعلیم کا پروردہ دوسرا طبقہ اقبال کی شخصیت اور پیغام کی اے بی سی بھی نہیں جانتا۔ کیا یہ امر باعث تشویش نہیں؟ ہم وزیراعظم پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ تعلیم کو اپنی حکومت کی اولیں ترجیح قرار دیں۔ کیونکہ آج وطن دشمن طاقتوں نے نصاب و کتاب کے ذریعے میزائل ، بم اور ڈرونز کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ جن کے اثرات موجودہ دہشت گردی کے مقابلے میں کہیں بڑھ کر ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔