معاشی ایجنڈا کیا ہے، کہاں ہے؟

ایڈیٹوریل  پير 27 جنوری 2014
بحرانوں کی ماں ’’توانائی‘‘نے اپنے اندر چھپے کئی دردانگیز معاشی اور سماجی مسائل کے نئے در کھول دیے فوٹو: فائل

بحرانوں کی ماں ’’توانائی‘‘نے اپنے اندر چھپے کئی دردانگیز معاشی اور سماجی مسائل کے نئے در کھول دیے فوٹو: فائل

عہد حاصر میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر سیاسی اور جمہوری معاشرت کو جانچنے کا پیمانہ ان ملکوں کی اقتصادی اور صنعتی ترقی و پیداواری طاقت و استعداد ہے جب کہ ایٹمی ہتھیاروں کے انبار سرحدی نگہبانی کے لیے ہی اپنی افادیت رکھتے ہیں۔ ملکی معاشی صورتحال اور عوام کے فلاح وبہبود سے متعلق ایجنڈا ان جمہوریتوں کا بنیادی آدرش و ہدف ہوتا ہے ۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران مسلم لیگ ن کی حکومت نے متعدد معاشی ایجنڈے پیش کیے ہیں،اور اصلاحاتی پیکیجز کا ایک کے بعد ایک اعلان ہوتا رہتا ہے ، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے عالمی مالیاتی ادارے خاصے خوش گمان بتائے جاتے ہیں اس لیے معاشی مبصرین بھی اس انتظار میں تھے کہ حکومت کچھ اور نہیں تو غربت ، مہنگائی اور کرپشن کے ستائے اس ملک کی اپنے دو سابقہ دورانیوںکے مثبت اور نتیجہ خیز معاشی اور مالیاتی تجربات کی روشنی میں کایا پلٹ دے گی، چنانچہ اس حوالے سے ابتدائی سو دن کی کارکردگی بھی گزر گئی، کسی طرف سے کسی اقتصادی برف کے پگھلنے کی نوید نہیں ملی ، البتہ بحرانوں کی ماں ’’توانائی‘‘نے اپنے اندر چھپے کئی دردانگیز معاشی اور سماجی مسائل کے نئے در کھول دیے ۔

عوام کی معاشی کسمپرسی کم ہوتی اور حکومت کے اقتصادی ایجنڈے میں عام آدمی کی اہمیت اور اس کی ترجیح کا اصول تسلیم کیا جاتا ، بجلی، روزگار، علاج معالجہ اور جرائم کے بڑھتے ہوئے معاملہ کو کنٹرول کرنے پر توجہ دی جاتی تو بڑی تبدیلی کی خوش آیند شروعات اسی انداز سے ممکن ہوسکتی تھی جس کا تجربہ بھارت میں وزیر اعلیٰ اروند کجریوال کی صوبائی حکومت نے چند دنوں میں کردکھایا، یہ معجزہ نہیں ہے بلکہ معیشت کی عملیت پسندانہ حکمت عملی اور عوامی اقتصادی ایجنڈے پر صدق دل سے عمل کرنے کی وہ بے لوث چارہ گری ہے جس کی پاکستانی معیشت کو ضرورت ہے۔ وزیراعظم خود ایک معاشی ایمپائر کے منتظم اعلیٰ ہیں، ان کی کابینہ سے معاشی اعجاز مسیحائی کی امیدرکھنے والے اہل وطن ابھی تک اقتصادی جادو گری کی تمنا لیے بیٹھے ہیں، تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ اقتصادی بریک تھرو اوربجٹ کے فیوض و برکات اور دیگر معاشی ثمرات کے ٹریکل ڈائون اثرات کا دور دور تک پتا نہیں ۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ملک میں جمہوری عمل کا آغاز اور اس کا تسلسل ایک اہم قدم ہے ، معاشی اقدامات ہو بھی رہے ہیں ،کئی منصوبوں پر عمل درآمد کا شور بھی ہے ، عالمی معاہدوں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی پاکستان میں آمد اور ملکی معیشت کے مستقبل سے مستقل ناامیدی کی کوئی وجہ بھی نہیں ،مگر ترجیحات تبدیل ہوں گی تو بہت کچھ ہوسکتا ہے ۔

ایشین ٹائیگر بننے کی پاکستانی معیشت میں بے پایاں صلاحیت ہے،جس کا اشارہ عالمی ماہر اقتصادیات جم اونیل کچھ روز قبل دے چکے ہیں ۔ان کی پیشگوئی ہے کہ 2050 ء میں پاکستان 18 بڑے حجم والی معیشتوں کی فہرست میں آسکتا ہے۔لیکن اس کے لیے مہاتیر محمد اور لی کو ان جیسی حسن تدبیر درکار ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال 2025 ء میں ،معاشی بریک تھرو کی بات کررہے ہیں ، استنبول تک فریٹ ٹرین چلانے کی باتیں ، شیخ چلی کے قصے ہیں، ملکی معاشی شعبے میں بڑھوتری یا صنعتی گہرائی،وسعت اور پیداواریت آئے دن کی ہڑتالوں، بدامنی، سماجی انتشار اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نہیں آئیگی اس کے لیے حکومت کو ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ امن و استحکام ، انصاف کی فراہمی ، کرپشن اوراقربا پروری و شاہ خرچیوں کا سدباب پہلے اشرافیائی سطح پر کرنا پڑیگا ،بیوروکریسی کا احتساب یقینی بنانا ہوگا۔حریفوں سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی مفاہمانہ حکمت عملی اپنانا ہوگی،اور پھر عوام کے دکھ درد کا احساس کرنے ، انھیں ریلیف مہیا کرنے کے لیے وزرا، مشیروں اور پارٹی کارکنوں کوعوامی مسائل کے حل کے لیے انتھک جدوجہد کرنی ہوگی۔ ایک طرف توانائی بحران ہے جس کے باعث بجلی، سی این جی سمیت گیس کی قلت ہے، توانائی سے منسلک ملکی پیداوار کے اہم صنعتی شعبے شدید تعطل اور بندشوں کا شکار ہیں، ایک عظیم انفرااسٹرکچر کی بنیاد ڈالنے کی ضرورت ہے ، زرعی معیشت انقلابی تبدیلیوں کو ترس رہی ہے۔

ایک اطلاع ہے کہ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مذاکرات یکم فروری 2014کو دبئی میں شروع ہوں گے، مذاکرات میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران حکومت کی اقتصادی کارکردگی اور آئی ایم ایف کے مقررکردہ ششماہی اہداف کے حصول کا جائزہ لیا جائے گا۔ واضح رہے کہ سہ ماہی مذاکرات کے لیے آئی ایم ایف کے وفد نے 28جنوری کو اسلام آباد آنا تھا مگر سیکیورٹی خطرات و دیگر وجوہات کی بناء پر وفد نے اسلام آباد آنے سے انکار کر دیا تھا۔ادھر انتہائی قیمتی اثاثوںکے بیشتر حصص انٹرنیشنل فنانشل کارپوریشن اور دیگر سرمایہ کاروں کو فروخت کرنے کی تیاریوں سے حکومت کا نجکاری کا ایجنڈا سامنے آ گیا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے چیئرمین انور بیگ کو یقین دلایا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مستحق افراد کی مالی امداد کی فراہمی کو جاری رکھنے، پروگرام کو مزید بہتر بنانے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی ۔ سیکریٹری آبپاشی سندھ نے سکھر بیراج کی تاریخی حیثیت یاد دلائی ہے ان کا کہنا ہے کہ مخدوش بند کی ٹیکنیکل اسٹڈی ہوچکی ہے ، حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں، ملکی و غیر ملکی آبپاشی ماہرین کی نگرانی میں سکھر بیراج کی ازسرنو بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔

روہڑی کینال کے دونوں کناروں کو اچھے انداز میں مضبوط کیا گیا ہے اور اب یہ 100سال تک چلنے کی قوت رکھتا ہے ۔لیکن مجموعی اعتبار سے توانائی کا شعبہ ابھی تک کاغذی منصوبوں اور برقی چمک دمک رکھنے والے خوشنما بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔حکومت نے رواں مالی سال میں بجلی کی پیداوار اور پانی کے ذخائر کے لیے داسو ہائیڈرو پراجیکٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بجلی کی غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن فرنٹ (پیاف) نے اعلیٰ حکام سے درخواست کی ہے کہ ملک کے تمام صنعتی زونز اور تجارتی و کاروبار مراکز میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کیے جائیں کیونکہ توانائی مسائل کی وجہ سے تجارت وصنعت کی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں بجلی کا مجموعی شارٹ فال تقریباً3000میگاواٹ تک ریکارڈ کیا گیا جس کی وجہ سے صارفین کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔کراچی ، اندرون سندھ ، خیبر پختونخوا، بلوچستان کے کئی شہروں میں لوڈ شیڈنگ سے معمولات زندگی درہم برہم ہیں ۔اتوار کو بھی بدترین لوڈ شیڈنگ کی گئی ۔

وفاقی حکومت نے ملک میں ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کے مروجہ فارمولے کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے اس کے تعین کا نیا طریقہ کار وضع کرنیکا فیصلہ کیا ہے ، جدید علاج کی سہولتوں کی فراہمی ہر جمہوری حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے، بھارت اور بنگلہ دیش میں سستی دوائوں کا نیٹ ورک موجود ہے۔آخر یہ تضاد کیوں؟

بلاشبہ ایک منجمد اور فرسودہ معاشی نظام کو بڑے شیک اپ کی ضرورت ہے۔ ملک کے ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی آٹھ ماہ کی کارکردگی پیپلزپارٹی کے دور سے بدتر ثابت ہوئی ہے ۔ حکومت کو ابھی اپنی میعاد مکمل کرنے کو ’’اک جمہوری عمر پڑی ہے‘‘ لوگ حقیقی و معنوی سماجی اور معاشی ریلیف چاہتے ہیں۔وہ انھیں کب ملے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔