قرب قیامت کے کائناتی آثار

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  منگل 28 جنوری 2014
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

ہماری دودھیا کہکشاں کے اردگرد 100 سے زائد ستاروں کے جھرمٹ ہیں جو اس کے گرد ہمہ وقت حالت طواف میں رہتے ہیں۔ ہر جھرمٹ دراصل ہزاروں ستاروں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے گزشتہ 35 برسوں سے سائنسدان یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان جھرمٹوں کا اس دودھیا کہکشاں سے کیا تعلق ہے؟ اس سلسلے میں مختلف نظریات پیش کیے جاچکے ہیں ان میں سے ایک نظریہ سب سے زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ابتدا میں جب گیسوں کا گردش کرتا ہوا ایک عظیم کرہ خود اپنے ہی دباؤ کی وجہ سے تباہ ہوا تو اس کھوکھلے گیسی کرے نے ایک چپٹی پلیٹ کی صورت اختیار کرلی۔ اس کے ساتھ ہی گیس کے کچھ بادلوں نے اتنی ولاسٹی حاصل کرلی کہ وہ اس کہکشانی کرے سے فرار ہوسکیں اور نتیجتاً گیسوں کے ان مجموعوں سے یہ جھرمٹ وجود میں آئے، جن میں سے ہر ایک میں اب کئی ہزار ستارے ایک گچھے کی شکل میں اکٹھے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح انگوروں کے خوشے میں انگور پیوست ہوتے ہیں۔ جھرمٹ بننے کے اس تمام عمل میں پچیس کروڑ سال لگے۔ اس نظریے کے مطابق یہ تصور کرلیا گیا تھا کہ تمام جھرمٹوں اور ان میں موجود ستاروں کی عمریں تقریباً یکساں ہونی چاہئیں۔

حال ہی میں بعض ماہرین فلکیات نے اپنے حاصل کردہ اعداد و شمار کی مدد سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ان ’’کلسٹرز‘‘ میں موجود ستاروں اور خود ان جھرمٹوں کے درمیان عمروں کا ایک بڑا واضح فرق موجود ہے۔ انھوں نے ابتدائی تین جھرمٹوں کے مشاہدے کے دوران ان میں موجود ستاروں کی عمروں کا تخمینہ لگا کر یہ بتایا کہ ہر جھرمٹ میں موجود ستارے ایسے بھی ہیں جو ابھی بن رہے ہیں جو نوجوان ہیں جب کہ ادھیڑ عمر اور قریب المرگ ستارے بھی ان جھرمٹوں میں موجود ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ اگر جھرمٹوں کا تمام مادہ ایک ہی وقت میں کہکشانی بادل سے الگ ہوا تھا تو ان میں موجود ستاروں کی عمریں کم و بیش ایک جیسی ہونی چاہئیں تھیں تاہم ایسا نہیں ہے۔ جھرمٹوں کی عمر کا تخمینہ انھوں نے ہر کلسٹر میں موجود ضعیف ترین ستارے کی عمر سے لگاکر بتایا کہ پہلے کلسٹر کی عمر دس تا گیارہ ارب سال، دوسرے کی تیرہ ارب سال اور تیسرے کی سترہ ارب سال ہے۔اسی طرح ان جھرمٹوں کی عمروں کے درمیان فرق تین ارب سال سے لے کر سات ارب سال تک ہے جو بہت زیادہ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تمام جھرمٹ دراصل ایک ہی وقت کی پیداوار نہیں ہیں لہٰذا جھرمٹوں کے بارے میں اس حالیہ جدید تحقیق نے ماہرین فلکیات کو ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے، اس سلسلے میں مزید تحقیق جاری ہے۔ امید ہے کہ بہت جلد مزید نئے انکشافات سامنے آئیں گے جو ان جھرمٹوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کریں گے۔

ان ہی جھرمٹوں کے اسرار سے پردہ اٹھاتے ہوئے نصف صدی قبل ایڈون ہبل نے ہمیں ایک ایسی کائنات کا باشندہ قرار دیا، جس میں اربوں کہکشائیں تیز رفتاری سے بھاگتی چلی جا رہی ہیں، کہکشاؤں کے یوں بھاگنے کے عمل کی ابتدا وقت کے پیمانے میں ’’بگ بینگ کا لمحہ‘‘ ہے اور جہاں سے بھی یہ کہکشائیں چلی آ رہی ہیں وہ ’’بگ بینگ کا مقام‘‘ ہے۔

سائنس دان اس امر پر غور کر رہے ہیں کہ کیا یہ بھاگ دوڑ ہمیشہ جاری رہے گی؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہماری زندگیوں میں نہ سہی، مستقبل میں کہکشاؤں کی قوت تجازب اس بھاگ دوڑ کو پہلے تو دھیما کردے، پھر روک دے اور پھر کہکشائیں دور بھاگنے کے بجائے ایک دوسرے کی طرف بڑھنے لگیں۔ حتیٰ کہ سب کہکشائیں ٹکرا جائیں؟ کیا ایسا ٹکراؤ ہی وہ قیامت ہوگی جو آسمانی صحیفوں میں بیان کی گئی ہے؟ کہکشاؤں کی یہ دوڑ تھمے گی یا نہیں؟ اس سوال کو سمجھنے کے لیے سب سے اہم بات یہ معلوم کرنا ہے کہ کہکشاؤں کی صورت میں جو کائناتی مادہ وجود رکھتا ہے، وہ کس قدر ہے؟ اگر اس کی کثافت اتنی زیادہ ہے کہ وہ دور جانے والی کہکشاؤں پر قوت تجازب استعمال کر سکے تو یہ بات واضح ہے کہ کہکشائیں ضرور ٹکرائیں گی، اب کیا معلوم کہ کہکشاؤں کا یہ ناگزیر ٹکراؤ ہی قیامت ہوگا یا اس سے پہلے ہی کوئی اور قیامت ٹوٹ پڑے گی؟

دس برس پہلے سائنس دان یہ سمجھنے لگے تھے کہ ان کے پاس اس سوال کا ایک واضح اور ناقابل تردید جواب موجود ہے، یعنی انھیں معلوم ہے کہ کائنات میں کہکشاؤں کی ٹھیک ٹھیک تعداد کیا ہے؟ انھیں معلوم ہے کہ کسی ایک کہکشاں کی رفتار کیا ہے؟ اور وہ جانتے ہیں کہ ایک کہکشاں سے دوسری کا فاصلہ کس قدر ہے؟ مگر اب یہ خوش فہمی دور ہوچکی ہے۔

پرسٹن یونیورسٹی کے ماہر فلکیات رچرڈ گوٹ نے اپنے مقالے میں لکھا ہے ’’بگ بینگ کے موقعے پر جس قدر کائناتی مادہ پھیلا، وہ اس قدر قلیل مقدار میں ہے کہ اس پھولے ہوئے غبارے کو پھر سے سکیڑ نہیں سکتا۔‘‘

اسی دوران فلکیاتی مشاہدات سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ کائناتی اجسام بالخصوص کہکشائیں جس طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں، نظریاتی طور پر انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، کسی قسم کی بھاری اور نظر نہ آنے والی اشیا ان کے نظریاتی عمل کو متاثر کر رہی ہیں۔

چند سال پہلے ماہر فلکیات، ایلن گوٹھ نے کائنات کی پیدائش کے نظریے پر نظر ثانی کی تھی۔ دیگر باتوں کے ساتھ اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ہماری یہ کائنات فی الوقت ارتکاز اور انتشار کے درمیانی نقطے تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکالا گیا کہ ستاروں اور کہکشاؤں میں دس فیصد نہیں بلکہ سو فیصد نظر نہ آنے والا حصہ موجود ہے۔

سائنس دانوں کا قابل مشاہدہ اور قابل مشاہدہ کائنات کے تناسب ہی پر اتفاق نہیں، اس کی تشکیل کس قسم کے بنیادی ذرات سے ہوئی ہے؟ یہ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ مسئلہ ہے، کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کائنات میں سائے موجود ہیں۔ یہ سائے ایسے ہیں کہ نہ تو ان کو کبھی دیکھا جاسکتا ہے اور نہ چھوا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود یہ قوت تجازب رکھتے ہیں۔

گوٹھ کا کہنا ہے کہ ’’ہماری کائنات ارتکاز اور انتشار کے پل صراط پر پہنچ چکی ہے، ہم نہیں جانتے کہ آنے والا وقت ہمیں کس جانب گرائے گا۔ انتشار کی طرف گرنے کا مطلب ہوگا کہ ابھی کائنات اور وسیع ہوگی اور ارتکاز کی طرف گرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سب کچھ مٹ جانا ہے‘‘۔

سائنس دانوں کے لیے یہ کائناتی مسائل بڑی دلچسپی کے حامل اور یہ کہکشانی طرز عمل تشویش کا باعث ہیں اور سائنس دان کائنات کے اختتامی وقت کے بارے میں مسلسل تحقیق کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے سے متضاد نظریات پیش کر رہے ہیں تاہم خیال ہے کہ جلد ہی وہ کسی نقطے پر متفق ہوجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔