سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 22 اگست 2021
’بازی گریوں‘ کے سلسلے تو بہت دراز ہیں۔۔۔  ۔  فوٹو : فائل

’بازی گریوں‘ کے سلسلے تو بہت دراز ہیں۔۔۔ ۔ فوٹو : فائل

’بازی گریوں‘ کے سلسلے تو بہت دراز ہیں۔۔۔
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

’بازی گر کے سات حصے، پیپر بیک، اوریجنل ایڈیشن، بالکل نئی حالت میں دست یاب۔۔۔! ابھی گھر بیٹھے حاصل کریں۔۔۔ رابطہ فلاں فلاں نمبر۔۔۔‘

ابھی ہم نے ’’بازی گر‘‘ سے کی جانے والی ’بازی گری‘ پر شکیل عادل زادہ کی وضاحت ’ایکسپریس‘ میں شایع ہی کی تھی کہ مندرجہ بالا ’پیش کش‘ کی حامل ایک اور ’دغا بازی‘ سامنے آگئی، اس میں اگرچہ جعل سازی سے ’بازی گر‘ ازخود تو نہیں لکھا گیا، لیکن شکیل بھائی کے لکھے گئے ’بازی گر‘ کی غیر قانونی اشاعت کی گئی ہے۔۔۔

اس حوالے سے ہماری شکیل عادل زادہ سے گفتگو ہوئی، تو انھوں نے کچھ ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’بازی گر‘ دراصل ’سسپنس ڈائجسٹ‘ کے بانی معراج رسول کے بھائی اعجاز رسول نے کتابی شکل میں اشاعت کے لیے اِن سے لیا تھا اور اس کی انھیں باقاعدہ ادائی بھی کی تھی، لیکن چوں کہ ان کے تعلقات بہت بے تکلفانہ تھے۔

اس لیے دونوں میں سے کسی نے بھی کاغذی لکھت کی کوئی حاجت ہی محسوس نہ کی۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ اعجاز رسول دنیا سے چلے گئے اور کچھ عرصے ان کی صاحب زادی عنبرین اعجاز نے اپنے والد کا ادارہ ’’کتابیات پبلی کیشنز‘‘ چلایا جو ’سسپنس ڈائجسٹ‘ سے منسلک ضرور تھا، لیکن یک سر الگ ادارہ تھا، پھر انھوں نے سات، آٹھ برس قبل یہ ادارہ مکمل طور پر بند کر دیا، جس کے بعد یہ اطلاعات سنی گئیں کہ انھوں نے اپنی مطبوعات کے حقوق کسی دوسرے ناشر کو فروخت کر دیے ہیں۔

ہم نے ’بی اے‘ کے زمانے میں اپنے کیرئیر کی شروعات ’’کتابیات‘‘ سے ہی کی تھی، چناں چہ احوالِ حقیقی جاننے کی غرض سے عنبرین اعجاز سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس امر کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ نہ انھوں نے اپنا ادارہ فروخت کیا اور نہ ہی مطبوعات کے حقوق کسی اور کو دیے۔۔۔! تاہم اب وہ طباعت واشاعت کا کام نہیں کر رہیں، جس کے سبب ان کے ادارے سے شایع ہونے والی بے شمار سلسلہ وار کتابیں دوسرے ناشر شایع کر رہے ہیں، جو کہ یقیناً افسوس ناک امر ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر ’حقوقِ دانش‘ کے قوانین کا منہ چڑا رہے ہیں۔

’بازی گر‘ کے مذکورہ بالا سات حصوں سے متعلق شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ یہ وہ حصے ہیں، جو ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ میں قسط وار شایع ہو چکے ہیں، اِن سات حصوں کے بعد کے کچھ صفحات اور اب گذشتہ کچھ عرصے سے جو انھوں نے ’بازی گر‘ کو مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے، اس کے اتنے صفحات ہوگئے ہیں کہ بہ آسانی آٹھواں حصہ شایع کیا جا سکتا ہے، لیکن اب وہ اس سلسلے کو مکمل کر کے ہی شایع کرائیں گے۔۔۔ دراصل لکھنے میں برسوں کا تعطل آنے کے سبب انھیں پچھلی اقساط دوبارہ پڑھنی پڑھ رہی ہیں۔

تاکہ وہ اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے اس قصے کو اختتام تک لے جا سکیں، یہی وجہ ہے کہ اس میں وقت صرف ہو رہا ہے اور قارئین ’بازی گر کی جلد تکمیل‘ کا سن کر بھی چڑچڑا جاتے ہیں کہ ہم تو کب سے سن رہے ہیں کہ آخری قسط آرہی ہے، لیکن آ نہیں رہی۔۔۔! شکیل بھائی کو اپنے قارئین کی اِس بے چینی کا پورا اندازہ ہے اور ان کی آج کل ساری مصروفیات ’بازی گر‘ کے ہی حوالے سے ہیں، وہ نہایت پرعزم ہیں کہ وہ رواں برس دسمبر تک ضرور بالضرور اِسے مکمل کر لیں گے۔۔۔

۔۔۔

’’معاشرتی پروازیں‘‘
امجد محمود چشتی، میاں چنوں
جہاںہر ملک میںہوائی سفر کے لیے ’ائیر لائن‘ ہوتی ہیں، وہیں سماجی سطح پر چند عناصر اپنے اپنے رنگ ڈھنگ میں متوازی ’’ہوائی‘‘ سروس مہیا کرتے ہیں۔۔۔ ان کے لیے سنسان گلی کوچے ہوائی اڈوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ عرفِ عام میں انھیں نشئی اور اس طرح کے دیگر اعزازی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ جیسے وطن عزیز کی قومی ہوائی سروس ’پی آئی اے‘ اور سوشل ائیر لائن ’’پی آئے ہیں‘‘ ہے۔ کہیں محوِ پرواز تو کہیں نیم پرواز۔۔۔! نشہ آور اشیا سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ ایک عالم دین منشیات کے نقصانات بیان کرتے ہوئے فتویٰ دے رہا تھا کہ جس شخص کا پائوں بھی افیون کو چھو گیا وہ شخص جنت میں نہیں جا سکتا۔ اِ ک نشئی بھی موجود تھا فوراً بولا ’’وہ شخص کیسے جنت میں جائے گا، جو افیون جیسی ’’متبرک‘‘ چیز پر پائوں رکھے۔‘‘ جب کہ ذوقؔ تو ایمان کو اس قدر کمزور سمجھتے ہی نہ تھے کہ ڈیڑھ چلّو پانی میں بہہ جائے۔ حتٰی کہ اک صاحب جنت کی فضا راس نہ آنے پر ساقی سے مے خانے کا دروازہ کھلا رکھنے کی استدعا کرتے گئے۔ نشئی حضرات اپنے گھر بار، بچوں، عزیزواقارب سے بے نیاز ہوتے ہیں۔

اپنے ذوق کی تسکین کے لیے گھر کا سارا سامان وقف کر دیتے ہیں۔ گھر میں لوازمات نہ رہیں، تو دوسرے لوگوں اور سرکاری املاک مثلاً سائن بورڈ اور گٹروں کے ڈھکنے وغیرہ چرا کر فروخت کرتے ہیں، تاکہ ’دو وقت کا نشہ‘ مل سکے۔ ’باغِ بہشت‘ کی سیر کرتے ہیں۔ انسان مختلف جانوروں کو بھی نشے کا عادی بنا کر تماشا دیکھتا ہے۔ مرغوں اور بکروں کو چرس کا عادی بنایا جاتا ہے۔

نشئی حضرات ہمہ وقت عرش کے مکین رہتے ہیں۔ عام جہازوں کی کیا مجال ہے کہ ان کے مقابل آئیں۔ یہ ’’شاہین‘‘ کبھی سمرقند، تو کبھی بخارا میں اڑان لیتے ہیں۔ جب ’سفوف‘ کے اثرات جاتے رہتے ہیں، تو پھر کسی گلی محلے یا فٹ پاتھ پہ اوندھے سیدھے آڑے ترچھے پڑے پائے جاتے ہیں۔

اس پرواز کی دوبارہ تیاری کے لیے گھر کے برتن تک ارزاں فروخت کر دیتے ہیں اور منشیات فروشوں کے دروازے پر نئی پرواز کی ایندھن کے حصول کی خاطر مضطرب نظر آتے ہیں۔ اکثر مدہوش و نحیف حضرات شہر کے گلی کوچوں میں بیٹھ کر انجیکشن کے ذریعے پرواز کے ایندھن کی فراہمی یقینی بناتے ہیں۔ یہ عمل عموماً سگریٹ نوشی سے شروع ہوتا ہے۔ فلموں کے ہیرو کی نقل کرتے کرتے نوجوان ’اسموکر‘ بن جاتا ہے۔ عوامی مقامات، اجتماعات، سرکاری دفاتر ہر جگہ دھواں دھار سگریٹ نوشی ہوتی ہے۔

بقول یوسفی ’’سگریٹ کے ایک سرے پر آگ اور د وسرے پر احمق ہوتا ہے۔‘‘ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی قسمت میں لکھنے والے نے چوں کہ پینا لکھ دیا ہے، تو ہم اس کے لکھے کو غلط کیسے کر دیں۔ یہاں ’’پینے‘‘ کی اصطلاح زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے، گویا اس ضمن میں مائع، ٹھوس اور گیس ہر چیز کے لیے ’’پینے‘‘ کا فعل ہی مستعمل ہے۔ ہمارے اک معروف قوال نہ پینے والوں کو ’ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں‘ کا طعنہ مارا کرتے تھے اور بضد تھے کہ نشہ ’مشروب‘ کا نہیں، بلکہ انسان کا خاصہ ہے ورنہ بوتل بھی ناچتی۔ ایک ’صاحبِِ پرواز‘ شخص نے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ یہاں تو بہت سے احباب لوگوں کا خون پیے جا رہے ہیں، ہم تو محض ’پیتے‘ ہیں۔

۔۔۔

تجھ پر گزرے نہ۔۔۔
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
پیاری نمرتا! کیوں نراشا ہو۔۔۔؟
کیا تم مجھے کہا نہ کرتی تھی؟
تم تو ایک دھوکا ہو
تم تو ایک فریبی ہو
تم تو ایک پاگل ہو
تم ایک بھٹکے شخص ہو
تم ایک بہکے شخص ہو
تم ایک بدتہذیب شخص ہو
تو نمرتا! غم کس کا بات ہے؟
اب یہ وقت اداس ہونے کا نہیں
بلکہ تقدیر کے اِس فیصلے کو بخوشی قبول کر کے دعائے بَدرِیطوس پڑھنے کا ہے
پتا ہے ناں دعائے بَدرِیطوس کا؟
جب دو لوگ جدا ہوتے ہیں تب
دعائے بَدرِیطوس پڑھی جاتی ہے
چلو اب میں تمھارے لیے دعا پڑھتا ہوں
اے خدا۔۔۔ تو نمرتا کو سلامت رکھ
اس کی ہر خوشی، مسرت، خواہش غم کا خیال رکھ۔۔
اے خدا۔۔۔ تو اسے خوش رکھ
دعا مکمل ہوئی تو
کہنے لگی ’’ اپنے لیے کیا مانگا۔۔۔؟
میں نے کہا ’’فقط تمھاری خوشیاں۔۔۔
اور ساتھ خداوند سے التجا بھی کی ہے
تجھ پر گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی!

۔۔۔

’نواب بدھن کا کمرا‘
ملا واحدی
نظام المشائخ کے اجرا کے بعد سب سے پہلے مولانا شبلی نعمانی ہمارے ہاں تشریف لائے تھے اور تقریباً مہینا بھر ٹھیرے تھے۔ خواجہ حسن نظامی کو مولانا شبلی نے کسی خط میں لکھا تھا کہ کام کرتے کرتے تھک گیا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ مہینا بھر کے لیے کہیں باہر چلا جائوں۔ خواجہ صاحب نے جواب دیا کہ یہاں تشریف لے آئیے، سکون کا پورا بندوبست کر دیا جائے گا۔

مولانا نے یہ تجویز بہ ایں شرط منظور فرمائی کہ آپ صرف قیام کا انتظام کریں، طعام کا انتظام میرا باورچی کرے گا۔ خواجہ صاحب نے نواب بدھن کی پوری محل سرا مولانا کے سپرد کر دی، جہاں وہ باورچی سے آگ ضرور سلگواتے تھے اور چپاتیاں پکواتے تھے، باقی سالن اپنے ہاتھ سے پکاتے تھے۔ یہ نظام المشائخ کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا۔ نظام المشائخ کا دفتر ابھی نواب بدھن کے مردانہ مکان میں تھا، جو ’نواب بدھن کا کمرا‘ کہلاتا تھا۔

۔۔۔

آواز کیا ہے۔۔۔؟
سید فہد حسین شاہ حسینی
آواز بھی کیا عجب شے ہے جو فقط کانوں کو چھو کر گزر جائے، تو احساس مچلتے جاتے ہیں، حواسوں پر اثر کرتی ہے۔ کچھ آوازیں وہ بھی ہیں جو سماعتوں کو کچھ لمحوں کے لیے مسرور کر دیتی اور لبھاتی ہیں، کوئل جب نغمے گنگناتی ہے، باغوں میں سردی کی صبح، تیتر جب بولتا ہے، مینا جب خوش ہو کر گاتی ہے، بلبل جب آپس میں باتیں کرتی ہیں، چڑیا جب شام کو گھر لوٹ کر اپنے بچوں سے باتیں کرتی ہیں۔۔۔ تو ان سب آوازوں کو محفوظ کر لینے کو جی کرتا ہے۔ مگر کچھ آوازیں ایسی بھی ہیں جو اس سے مختلف تاثر رکھتی ہیں، کچھ وحشت سے بھرپور ہوتی ہیں، کبھی اندھیرے میں کسی ویران قصبے سے گزرتے ہوئے مینڈک کی ٹر ٹر تو کبھی چھپکلی کی آواز کو سنتے ہوئے جو سناٹا سا محسوس ہوتا ہے۔

آواز سماعتوں سے ٹکرا کر گزر جاتی ہے، مگر اس کی تاثیر صدیوں تک رہ جاتی ہے، آواز پھیپھڑوں کی ہوا کے تحرک سے گلے سے لگ کر منہ میں آکر زباں کی منتظر ہوتی ہے، تب زباں آواز کو نقشہ دیتے ہوئے لفظ تعمیر کرتی ہے۔ وہی زبان پر طاری ہوتا ہے، مگر جب بھی کسی کی کیفیت آواز حق ہو کر بلند ہو جاتی ہے، تو صاحب اختیاروں کی کرسیوں محلوں کے دروازوں قاضیوں اور صاحب اختیاروں کے حواس کو جنجھوڑ دیتی ہے۔ تاریخ اگر رشک کرتی ہے، خود پر تو فقط اْس آوازِ حق اور علمِ بقائے انسانیت پر، کیوں کہ سچی اور کھری آواز کی لہریں صدیوں تک سنائی دیتی ہیں، مگر جو آوازیں اْلجھنوں، رویوں محرومیوں ذلتوں ناانصافیوں ظلمتوں کے بعد نکلتی ہیں۔

وہ محلوں کی دیواروں کو عبور کرتے ہوئے بادشاہوں کے دربار تک پہنچ جاتی ہیں اور ان کے سکون چھین لیتی ہیں۔۔۔ اگر وہ آواز ظلم و بربریت و ناانصافیوں کے خلاف اٹھتی ہیں، تو صاحب اقتداروں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دیتی ہیں، لیکن یہ آواز اگر دب جائے، تو آہ بن جاتی ہے ، پھر تخت اْلٹ جاتے ہیں۔

تاج بکھر جاتے ہیں، وحشت و درندگی کی رات ہو جاتی ہے۔ جہاں جہاں روز ظلم کی ایک نئی داستان رقم ہوتی ہو، جہاں کسی شے میں کوئی انصاف نہ ہو اور جینا محال ہو جھوٹ کا بازار گرم ہو اس وقت کوئی اگر آوازِ حق بلند کرے اور اپنے حقوق کی بات کرے تو اس کو ڈرایا، دھمکایا جاتا ہے۔ یہ ان کا سکون تباہ کر دیتی ہے۔ یہ آواز ان کو کہتی ہے تم لٹیرے ہو، مجرم ہو! کوئی اس آواز کو دبا نہیں سکتا، جتنا دبانا چاہو گے، اتنا شور بڑھے گا، جب خدائی کے دعوے دار فرعون ونمرود نہیں بچے تو اور کون بچ سکے گا۔

۔۔۔

صد لفظی کتھا
نصف!
رضوان طاہر مبین
منہ زور منہگائی نے ثمر کی کمر توڑ دی۔۔۔
تنخواہ بڑھنے کی بھی کوئی امید نہ تھی۔۔۔!
ثمر کے والد کا آپریشن تھا، اس نے اور اس کی بیوی نے ایک وقت کا فاقہ کرنا شروع کر دیا۔
شادی بیاہ میں جانا چھوڑا، عید پر بھی پچھلے سال کے کپڑے پہنے۔
بیٹی بیمار ہوئی، تو ایک وقت کا کھانا بھی نصف کر لیا۔
جیسے تیسے اخراجات آدھے ہو گئے۔
اب وہ مطمئن تھا کہ والد کے آپریشن کے لیے پیسے پورے ہو جائیں گے،
دفتر پہنچا تو پتا چلا کہ تمام ملازمین کی تنخواہیں نصف کر دی گئی ہیں۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔