- نکاح نامے میں کوئی ابہام یا شک ہوا تو اس فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
- نند کو تحفہ دینے کا سوچنے پر ناراض بیوی نے شوہر کو قتل کردیا
- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
- 'امن کی سرحد' کو 'خوشحالی کی سرحد' میں تبدیل کریں گے، پاک ایران مشترکہ اعلامیہ
- وزیراعظم کا کراچی کے لیے 150 بسیں دینے کا اعلان
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم کو دھچکا، شاہین کی 3 درجہ ترقی
- عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ
- سویلین کا ٹرائل؛ لارجر بینچ کیلیے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا گیا
- رائیونڈ؛ سفاک ملزمان کا تین سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد، چھری کے وار سے شدید زخمی
- پنجاب؛ بےگھر لوگوں کی ہاؤسنگ اسکیم کیلیے سرکاری زمین کی نشاندہی کرلی گئی
- انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پی ایچ ایف کے دونوں دھڑوں سے رابطہ کرلیا
- بلوچ لاپتہ افراد کیس؛ پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
- چوتھا ٹی20؛ رضوان کی پلئینگ الیون میں شرکت مشکوک
- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
تجربہ گاہ میں تیار کردہ ’چھوٹے انسانی دماغ‘ میں ’آنکھیں‘ بھی نکل آئیں
برلن: یورپی ماہرین نے انسانی خلیاتِ ساق (اسٹیم سیلز) کی مدد سے تجربہ گاہ میں تیار کیے گئے ’ننھے منے دماغ‘ پر ’چھوٹی چھوٹی آنکھیں‘ اُگانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس پیش رفت کی بدولت ہمیں رحمِ مادر میں بچے کی نشوونما کے ابتدائی مراحل سمجھنے میں مدد ملے گی اور ممکنہ طور پر آنکھوں کا بہتر علاج بھی ممکن ہوسکے گا۔
کامیابی کا پس منظر
ان تجربات کےلیے انسان سے جسمانی خلیات (somatic cells) لے کر، کچھ مخصوص مراحل سے گزارنے کے بعد، ان سے ’’پلوری پوٹینٹ‘‘ قسم کے خلیاتِ ساق حاصل کیے گئے جو کسی جسمانی بافت (ٹشو) کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
اسی بناء پر انہیں ’’ہیومن انڈیوسڈ پلوری پوٹینٹ اسٹیم سیلز‘‘ (Human iPSCs) یا ’’انسان سے ماخوذ کثیر استعدادی خلیاتِ ساق‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
سب سے پہلے انسانی جسمانی خلیوں سے پلوری پوٹینٹ اسٹیم سیلز حاصل کیے گئے جنہیں ایک پیٹری ڈش میں رکھا گیا۔
پیٹری ڈش میں ایسا ماحول رکھا گیا کہ وہ اپنی تعداد بڑھا کر بتدریج ایک خلوی گیند (سیلولر بال) کی شکل اختیار کرسکیں۔
اس طرح تجربہ شروع ہونے کے دسویں دن ایک ایسی خلوی گیند وجود میں آگئی جس میں اعصابی خلیاتِ ساق (nerve stem cells) موجود تھے۔ یہ گیند ’’نیورو اسفیئر‘‘ (neurosphere) بھی کہلاتی ہے۔
بتاتے چلیں کہ یہی وہ خلیے بھی ہیں جو نشوونما کے متعدد مرحلوں سے گزرنے کے بعد نہ صرف دماغ بلکہ پورے جسم میں پھیلے ہوئے اعصابی نظام سے متعلق خلیوں کو جنم دیتے ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیے: امریکی سائنسدانوں نے مصنوعی انسانی دماغ تیار کرلیا
اعصابی خلیاتِ ساق کی اس گیند نے اپنی نشوونما جاری رکھی جس دوران اس میں مزید خلیے بنتے رہے؛ اور یہ آہستہ آہستہ کرکے بڑی بھی ہوتی گئی۔
تجربے کے 30 ویں دن یہ گیند ’’دماغ نما عضو‘‘ (Brain-like organoid) کی شکل اختیار کرچکی تھی جس کے ایک طرف آنکھوں جیسی ساختیں بھی بننے لگی تھیں۔
60 ویں دن تک خلوی گیند کے ساتھ ساتھ یہ آنکھیں بھی مزید بڑی اور نمایاں ہوچکی تھیں جبکہ ان میں ایسے خلیے بھی بن چکے تھے جو روشنی کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
آسان الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ننھے منے ’’دماغ جیسے عضو‘‘ پر ایسی ’’آنکھیں‘‘ بن گئیں جو ’’دیکھنے‘‘ کی بنیادی صلاحیت بھی رکھتی تھیں۔
تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا یہ ننھا منا دماغ اس کے بعد تلف کردیا گیا، کیونکہ طبّی تحقیق کی اخلاقیات اور اس حوالے سے موجود بین الاقوامی قوانین کی رُو سے یہ تجربات اس سے آگے بڑھائے نہیں جاسکتے تھے۔
یہ تحقیق ’’سیل اسٹیم سیل‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے جس کے مرکزی مصنف، جے گوپالاکرشن ہیں جو ڈوسلڈورف اسپتال، جرمنی سے بطور ماہرِ عصبیات (نیورو سائنٹسٹ) وابستہ ہیں۔
ڈاکٹر گوپالاکرشن کا خیال ہے کہ چھوٹے چھوٹے دماغ بنا کر ہمیں حمل کے دوران دماغ اور آنکھ میں دو طرفہ عمل (انٹریکشن) کو سمجھ کر ایسا علاج وضع کرنے میں آسانی ہوگی جو کسی مریض کی مخصوص اور انفرادی ضرورت کے عین مطابق ہو۔
امید کی جاسکتی ہے کہ یہ منزل بھی آجائے گی لیکن شاید اس تک پہنچنے میں کئی سال بلکہ کئی عشرے لگ جائیں کیونکہ ابھی تجربہ گاہ میں دماغ سمیت دیگر چھوٹے اعضاء تیار کرنا بہت وقت طلب اور مشکل کام ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔