یکساں قومی نصاب: پرانا راگ، انداز نیا

ڈاکٹر شوکت علی  ہفتہ 21 اگست 2021
اس نصاب میں مختلف کیا ہے، جس کا پچھلے تین سال سے انتظار کیا جارہا تھا؟ (فوٹو: فائل)

اس نصاب میں مختلف کیا ہے، جس کا پچھلے تین سال سے انتظار کیا جارہا تھا؟ (فوٹو: فائل)

تحریک انصاف کا انتخابی منشور اور انتخابی تعلیمی پالیسی اس وقت میرے سامنے ہے۔ تعلیمی پالیسی کے صفحہ نمبر 22 پر پاکستان میں ذریعہ تعلیم کے حوالے سے پالیسی نکات موجود ہیں۔ پالیسی میں وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں آٹھویں جماعت تک تعلیم اردو یا مادری زبان میں ہوگی۔ البتہ اردو اور انگلش، لازمی مضامین کے طور پر پڑھانے کا ذکر تھا۔

اعلیٰ تعلیم (گریجویشن و پوسٹ گریجویشن) کے حوالے سے وعدہ یہ تھا کہ وقتی طور پر ذریعہ تعلیم انگلش ہوگا جسے بتدریج اردو میں منتقل کردیا جائے گا۔ پالیسی میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ جنرل اور پروفیشنل یونیورسٹیوں کے نصاب اور نصابی کتب، اردو زبان میں ڈھالی جائیں گی تاکہ اردو کو حتمی ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ کیا جاسکے۔

پالیسی کے مطابق، کلاس 9 سے کلاس 12 تک ذریعۂ تعلیم ملا جُلا رکھنے کا ذکر تھا، جسے اعلیٰ تعلیم کی تدریس اردو زبان میں شروع ہوتے ہی اردو میں منتقل کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

مندرجہ بالا پالیسی بیانات سے واضح ہوتا تھا کہ تحریک انصاف ہر سطح پر اردو کو بطور ذریعۂ تعلیم نافذ کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ لیکن یکساں قومی نصاب کی نقاب کشائی سے پتا چلا ہے کہ تحریک انصاف اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ یکساں قومی نصاب، دراصل وہی پرانی شراب ہے جسے نئی بوتل میں نیا لیبل لگا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس سے نہ تو ذریعۂ تعلیم کی رنگارنگی ختم ہوگی اور نہ ہی اس طبقاتی تقسیم میں کمی واقع ہونے کی خاص امید ہے، جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کےلیے یکساں نصاب لایا جارہا تھا۔

یکساں قومی نصاب سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو یا مادری زبان میں ابتدائی تعلیم دینے کے عالمگیر اصول کو ہمارے اربابِ اختیار نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچی جماعت سے پانچویں جماعت تک تیار کیے گئے یکساں قومی نصاب میں انگلش کے ساتھ ساتھ، ریاضی اور جنرل سائنس کی کتابیں بھی انگریزی زبان میں پڑھنا لازم کردیا گیا ہے۔ ابتدائی کلاسوں میں صرف اسلامیات اور واقفیت عامہ/ معاشرتی علوم کے دو مضامین اردو میں پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

ارباب اختیار کے دیگر بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم، انتہائی ضروری اور ناگزیر بتایا جارہا ہے۔ یکساں قومی نصاب کے خدوخال اور اخباری بیانات کو دیکھتے ہوئے ہہ بات باآسانی کہی جاسکتی ہے کہ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک، انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کا اصولی فیصلہ کیا جاچکا ہے۔

میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس نصاب میں مختلف کیا ہے، جس کا پچھلے تین سال سے انتظار کیا جارہا تھا؟ ہمارے ہاں اکثریتی پرائیویٹ اسکول، پرائمری سطح کی اسلامیات اور معاشرتی علوم وغیرہ اردو میں ہی پڑھاتے چلے آرہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ریاضی اور سائنس کے مضامین بھی اردو میں پڑھنا لازم قرار دیے جاتے، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ اور یہ ان تمام تر وعدوں کے باوجود نہیں ہوسکا جو تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے تھے۔

چلیے جیسے بھی ہے، یکساں قومی نصاب نافذ ہوچکا ہے۔ کلاس اول سے پانچویں تک کی کتابیں سرکاری سطح پر چھپ چکی ہیں۔ توقع کی جارہی تھی کہ چاہے بچہ ایلیٹ اسکول کے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھا ہو، چاہے وہ کسی سرکاری اسکول کی خستہ حال چاردیواری میں براجمان ہو، ایک ہی کتاب ہوگی جو سب پاکستانی بچوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس حوالے سے بھی صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ فوری طور پر تو سرکاری سطح پر شائع ہونے والی کتابیں ہی دستیاب ہیں، لیکن مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا۔ نجی پبلشرز کےلیے یہ سہولت رکھی گئی ہے کہ وہ نصاب کے مطابق کتابیں لکھ سکتے ہیں، شائع کرسکتے ہیں اور حکومتی منظوری کے بعد یہ کتابیں اسکولوں میں پڑھائی بھی جاسکتی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ نصاب ایک ہوگا البتہ کتابیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ اس سادگی پر غالب کا شعر ہی پڑھا جاسکتا ہے کہ

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

آپ جو بھی کہیں، جب اس فارمولے کا اطلاق ہوگا تو اس سے طبقاتی تقسیم کا وہ فرق نمایاں ہوکر لازمی سامنے آئے گا جسے ختم کرنے کے نام پر یکساں قومی نصاب کا ڈول ڈالا گیا تھا۔ نجی پبلشرز کی طرف سے چھپنے والی کتابیں، پیش کاری اور قیمت کے لحاظ سے بہت مختلف ہوں گی۔ اور یہی کھچڑی ہمارے ہاں پہلے بھی پکی ہوئی تھی جسے ناپسندیدہ قرار دے کر یکساں نصاب کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ اب آنے والے دنوں میں پھر سے کتابوں کے انتخاب کی دوڑ لگے گی اور پرائیویٹ اسکول انہی برانڈڈ کتابوں کی آڑ میں بھاری فیسیں وصول کریں گے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ برانڈڈ کتابیں بہتر ہوں گی، میں عرض کررہا ہوں کہ برانڈڈ کتابیں سرکاری کتابوں سے بہت مختلف ہوں گی۔ اور دراصل یہی وہ ’’مختلف‘‘ ہے جو ہمارے ملک میں ایک طبقے کی نفسیاتی ضرورت رہا ہے۔ چونکہ وہ طبقہ بااثر بھی ہے، اس لیے یکساں قومی نصاب کا دوسرا مقصد بھی فوت ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

آیئے اب جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یکساں قومی نصاب، دینی مدارس میں کیا تبدیلی لے کر آیا ہے؟ دینی مدارس کے تعلیمی نظام سے متعلق چونکہ آگاہی کم ہے اس لیے پہلے اس پر مختصراً بات کرلیتے ہیں۔

دینی مدارس، درسِ نظامی کی قدیم روایت پر قائم ہیں۔ وفاق المدارس پاکستان کا سب سے بڑا دینی تعلیمی بورڈ ہے، جس کے تحت 21 ہزار مدارس ہیں، جن میں 28 لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں۔ درسِ نظامی کا تعلیمی پروگرام مختلف درجات پر مبنی ہے، جس میں درجہ ابتدائیہ، درجہ متوسطہ، درجہ عامہ، درجہ خاصہ، درجہ عالیہ اور درجہ عالمیہ شامل ہیں۔ درجہ ابتدائیہ پرائمری، درجہ متوسطہ مڈل، درجہ عامہ میٹرک، درجہ خاصہ ایف اے، درجہ عالیہ بی اے اور درجہ عالمیہ ایم اے کے برابر تسلیم کیے گئے ہیں۔

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن پاکستان (موجودہ ہائر ایجوکیشن کمیشن) 1982 سے وفاق المدارس سے جاری کی جانے والی ڈگری شہادۃ العالمیہ کو ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے مساوی تسلیم کرتا ہے۔

وفاق المدارس کے نصاب پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ ماضی میں بھی سائنس، ریاضی، اردو، انگریزی اور مطالعہ پاکستان جیسے مضامین دینی مدارس کے نصاب میں شامل رہے ہیں۔ اور دینی مدارس کے طلبا انٹر بورڈ اور ہائر ایجوکیشن سے ہر سطح کی مساوی اسناد بھی حاصل کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس طرح یہ کہنا کہ دینی مدارس میں جدید مضامین پڑھانے کا سہرا حالیہ یکساں قومی نصاب کے سر جاتا ہے، یہ بات کُلی طور پر درست نہیں ہے۔

مختصر یہ کہ یکساں قومی نصاب کا ڈھانچہ بنانے والے صاحب اختیار، ذریعہ تعلیم کی دو رنگی اور امیر غریب کےلیے الگ الگ نظام کو برقرار رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اس کامیابی پر انہیں مبارک باد پیش کی جانی چاہیے۔ اور جہاں تک بات ہے اردو ذریعہ تعلیم اور یکسانیت کی، تو اس کےلیے میں اور آپ دعا ہی کر سکتے ہیں۔ آیئے اس ملک میں موثر اور یکساں نظام تعلیم کےلیے ہم سب مل کر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر شوکت علی

ڈاکٹر شوکت علی

بلاگر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور شعبہ زرعی توسیع و تعلیم میں پی ایچ ڈی ہیں۔ شاعری کی ایک کتاب کے علاوہ اپنے شعبے میں دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ زرعی یونیورسٹی کے سہ ماہی میگزین زرعی ڈائجسٹ کے ایڈیٹر اور ایف ایم ریڈیو میں بطور انچارج کام کرچکے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی انہیں گولڈ میڈل، رول آف آنر اور یونیورسٹی کلر جیسے اعزازات سے نواز چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔