حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلیے ڈیڑھ کروڑ افراد کا ڈیٹا حاصل کرلیا

اسٹاف رپورٹر  جمعـء 20 اگست 2021
وزیر خزانہ کا حکومتی کے خلاف مقدمات میں تاجروں سے عدالتوں کے باہر تصفیے کرنے کا اعلان (فوٹو : فائل)

وزیر خزانہ کا حکومتی کے خلاف مقدمات میں تاجروں سے عدالتوں کے باہر تصفیے کرنے کا اعلان (فوٹو : فائل)

 کراچی: وزیر خزانہ نے قابل ٹیکس آمدنی کے حامل ڈیڑھ کروڑ افراد کا مکمل ڈیٹا حاصل کرنے کا انکشاف کیا ہے جنہیں جلد ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جائے گا۔

یہ انکشاف انہوں نے جمعہ کو ایف پی سی سی آئی میں تاجر و صنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کو کہہ دیا کہ آپ کا اور ہمارا راستہ الگ ہوسکتا ہے لیکن منزل ایک ہے۔

آئی ایم ایف سے کہہ دیا نہ مزید ٹیکس لگائیں گے نہ پاور ٹیرف بڑھائیں گے

آئی ایم ایف پر واضح کردیا ہے کہ ہم ٹیکس نہیں بڑھائیں گے اور نہ ہی پاور ٹیرف میں اضافہ کریں گے تاہم ٹیکس نیٹ کو ضرور وسعت دیں گے اور نئے لوگوں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جائے گا۔

آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے ذریعے ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے

انہوں نے بتایا کہ ہم نے قابل ٹیکس آمدنی کے حامل ڈیڑھ کروڑ افراد کا مکمل ڈیٹا حاصل کرلیا ہے، ان افراد کو آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے ذریعے جلد ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔

ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط کے برخلاف اسٹینڈلیا

شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں ان کی شرائط کے خلاف اسٹینڈ لیا ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے ٹیکس پاور گیس ٹیرف بڑھانے کا 500 سے 700 ارب روپے کا نسخہ دیا تھا لیکن ہم مزید ٹیکس لگانا نہیں چاہتے۔

بجٹ میں جو ہوچکا اسے واپس نہیں لے سکتا

انہوں نے کہا کہ حکومت اس وقت ایک ایسے دوراہے پر ہے جس میں نہ رائٹ جاسکتے ہیں اور نہ لیفٹ، افغانستان میں تبدیلی کے بعد نہیں معلوم کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، بجٹ میں جو ہوچکا ہے اسے واپس نہیں لے سکتا لیکن جو بہتری ہم کرسکتے وہ کریں گے۔

آئندہ ایف بی آر سمیت کوئی ادارہ تاجروں کو ہراساں نہیں کرے گا

وزیر خزانہ نے کہا کہ جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا تناسب 20 فیصد تک بڑھائے بغیر 6 سے7 فیصد معاشی ترقی حاصل نہیں کرسکتے، زراعت پر توجہ دے رہے ہیں، اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی ایک وجہ عالمی مارکیٹ میں اجناس کی بلند قیمتیں ہیں، اب ایف بی آر سمیت کوئی بھی ادارہ تاجروں کو ہراساں نہیں کرے گا۔

بھارت میں ایک لیٹر پیٹرول کتنے کا ہے دیکھ لیں

انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر تیس روپے کا لیوی وزیر اعظم نے ختم کردیا، بھارت میں ایک لیٹر پیٹرول کتنے کا ہے دیکھ سکتے ہیں، پی ڈی ایل کی مد میں 600 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں ایک روپیہ بھی نہیں آیا، پاکستان فوڈ آئٹمز کا درآمدکنندہ بن گیا ہے کسی حکومت نے زراعت کی شعبے کو فوکس نہیں کیا۔

مڈل مین 400 گنا پیسے بنا رہا ہے جو مہنگائی کی وجہ ہے

شوکت ترین نے کہا کہ اس بجٹ میں زراعت کے شعبے کی ترقی کےلیے کافی رقم رکھی گئی ہے، متعدد سڑکوں کو ملانے والی بڑی شاہراہوں پر ایگری مالز بنارہے ہیں، مڈل مین 400 گنا پیسے بنا رہا ہے اور مہنگائی کی اصل وجہ مڈل مین ہی ہے جبکہ کسانوں کو کچھ نہیں ملتا لیکن مڈل میں 400 گنا کما کر عوام ہر مہنگائی کا بوجھ ڈالتا ہے،کور انفلیشن ابھی سات فیصد ہے جب تک یہ کم نہیں ہوگا تو مشکل ہوگی۔

تاجر اسمگل شدہ اشیا نہ خریدیں اور نہ فروخت کریں

انہوں نے کہا کہ اسمگلنگ کو ہر صورت روکنا ہے اس سے ملکی معشیت کو نقصان ہورہاہے، تاجر بھی اسمگلنگ کی اشیا نہ خریدیں اور نہ فروخت کریں، معمولی فائدے کے لیے یہ عمل کرنا غلط ہے۔

حکومتی مقدمات میں تاجروں سے عدالتوں کے باہر تصفیے کرنے کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ میں ود ہولڈنگ ٹیکس پر یقین نہیں رکھتا، حکومت پر دائر کردہ مقدمات ختم کرنے کے لیے تاجروں سے عدالتوں کے باہر تصفیے کیے جائیں گے، سہ ماہی بنیادوں پر تسلسل سے ایف پی سی سی آئی آکر اجلاس منعقد ہوگا، اجلاس میں نشاندہی شدہ مسائل اور ان کے حل نکالے جائیں گے، حکومت ایف پی سی سی آئی کے ساتھ شراکت دار کے طور پر ڈائیلاگ کرے گی، موجودہ حالات کے تناظر میں تعمیری تجاویز دی جائیں۔

یہ بھی پڑھیں : آئی ایم ایف پروگرام کے باعث حکومت متعدد مسائل حل نہیں کرسکی، وزیر خزانہ

اگلے دو برس تک وزیر خزانہ رہوں گا

اپنے خطاب کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اگلے دو سال تک وزیر خزانہ رہیں گے اس دوران وہ ٹیکس برائے جی ڈی پی تناسب کو 20 فیصد تک لائیں گے۔

حکومت ہماری تجاویز پر عمل نہیں کررہی، ایف پی سی سی آئی

دریں اثنا وزیر خزانہ کے ہمراہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے سنیئر نائب صدر خواجہ شاہ زیب اکرم نے کہا کہ حکومت بار بار وعدوں کے باوجود ایف پی سی سی آئی کی سفارشات اور تجاویز کو بجٹ اور پالیسی سازی میں نظر انداز کرہی ہے، مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کو ریلیف نہ دینے کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے جو کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مسلسل احتجاج کے باوجود 13 فیصد کی انتہائی بلند سطح پر برقرار ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو پالیسی ریٹ کی شرح کو کم کرنا چاہیے تاکہ ملک کے تاجروں کو سانس لینے کے لیے کچھ جگہ فراہم کی جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔