افغانستان کی تجارتی گزرگاہیں

ظفر سجاد  اتوار 22 اگست 2021
وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی دینے اور تجارت سے افغانستان خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ فوٹو : فائل

وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی دینے اور تجارت سے افغانستان خوشحالی کے نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ فوٹو : فائل

یہ اللہ تعالیٰ کا خاص نظام ہے کہ وہ غیر اہم اشیاء اور غیر اہم مقامات کو بھی انتہائی اہم بنادیتا ہے، بعض اوقات کوئی غیر اہم خطہ مرکزی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔

اسلام سے پہلے عرب ایک غیر اہم خطہ تھا، صرف شہر مکہ کو خانہ خدا کی وجہ سے اہمیت حاصل تھی ۔ جب حضور پُرنُور ﷺ مکہ میں پیدا ہوئے اور چالیس سال کی عمر میں نبّوت سے سرفراز ہوئے تو صرف 23 سال کے عرصہ میں عرب دنیا بھر میں مرکزی حیثیت حاصل کر گیا۔خطہ عرب کی اہمیت میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔

تاریخ کا تواتر موجود ہے مگر جب عرب ممالک اور ریاستوں سے تیل دریافت ہوا تو عرب کی حیثیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا، اس سیال سونے کی وجہ سے عرب ریاستوں کی قسمت ہی بدل گئی، اس وقت پورے عرب کو خاص اہمیت حاصل ہے مگر متحدہ عرب امارات نے صرف تیل کی دولت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے تجارت کی اہمیت کو خاص طور محسوس کیا اور دبئی کو اوپن فری سٹیِ کا درجہ دے کر اُسے دنیا بھر کا تجارتی حَب بنا دیا ہے،دبئی کی جو اہمیت ہے سب کے سامنے ہے، فضائی اور بحری ٹریفک کا دبئی کی جانب شدید رش ہوتا ہے۔

دبئی ائرپورٹ پر تاجروں اور مسافروں کا اس قدر رش ہوتا ہے کہ جیسے میلہ لگا ہوا ہو ۔ تجارتی حَب ہونے کی وجہ سے دبئی کی زمینوں اور پراپرٹی کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اب دنیا کے امیر ترین لوگ ہی یہاں جائیداد خرید سکتے ہیں یا جائیداد بنا سکتے ہیں ۔ د نیا بھر کی تقریباً تمام اقوام اَس چھوٹی سی جگہ دبئی میں بزنس کر رہی ہیں۔

اگر نگاہ عمیق سے دیکھا جائے تو فوراً واضح ہوتا ہے کہ اگر اس وقت تجارتی گزر گاہوں کے حوالے سے کرہ ّ ارض پر دو ممالک اہم ہیں تو وہ پاکستان اور افغانستان ہیں، افغانستان اور پاکستان دنیا کی دو تہذیبوں کے درمیان ایک پُل ہیں ۔

پاکستان اور افغانستان دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے، افغانستان وسط ایشائی ریاستوں اور روس کے مابین گرم پانیوں کی جانب پہنچنے کیلئے واحد زمینی راستہ ہے، مگر ان ممالک کیلئے افغانستان کی یہ راہداری عموماً بند ہی رہتی ہے ، روس کو راستہ نہ دینے کا نتیجہ افغان وار کی شکل میں نکلا تھا اور روس ٹکڑوں میں بٹ گیا، روس کی شکست کے بعد جب افغانستان وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کو اپنے علاقے سے گز رنے کی اجازت دینے میں نیم رضا مند ہوا تو امریکہ اور یورپ ایک دم سیدھے ہوگئے، اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی نیٹو اور ایسا ف ممالک کا فوجی آپر یشن ختم نہ ہوا ۔

اب امریکہ اور اتحادی فوجیوں کی بڑ ی تعداد واپس جا چکی ہیں، افغانستان کو پھر سنہری موقع ملا ہے کہ وہ پوری دنیا کو اپنی اہمیت کا احساس دلائے، افغانیوں کی تقدیر بدل سکتی ہے مگر لگ تو یہی رہا ہے کہ شائد وہ اس سنہری موقع سے فائدہ نہ اٹھا پائیں ، افغانستان میں دوبارہ بدامنی کے بادل گہرے ہو رہے ہیں۔ طالبان بڑے علاقے پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں حکومت یہ قبضہ چھڑوانے کی کوشش میں ہے۔ دونوں طرف افغان ہی مر رہے ہیں ، بدامنی میں اضافے کی وجہ سے وہ ممالک پھر مایوس ہو رہے ہیں کہ جو افغانستان کا زمینی راستہ استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔

کسی ملک کا زمینی راستہ استعمال کرنے سے اُس ملک میں خوشحالی اور ترقی آتی ہے اور اہمیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے ، مگر افغانستان کی حکومت اور عوام کو شائد اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی زمین سے کس قدر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔

افغانستان کا جائے وقوع ہندوکش اور دریائے سندھ کا درمیانی علاقہ ہے، پہلے اس کا نام افغانان تھا، 1800 ء میں اُسے افغانستان کا نام دیا گیا۔ ایشیائی ریاستوں سے کئی حکمران افغانستان کے راستے دہلی تک پہنچے۔

1504 ء میں ظہیرالدین بابر ازبکستان سے علاقے فتح کرتا ہوا کابل پہنچ گیا، اُس نے کابل کو اپنا فوجی ہیڈ کوارٹر بنایا ۔ 1526ء میں اُس نے کابل سے دہلی کی جانب لشکر کشی کی اور ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا اور مغل سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ 1778ء میں افغانستان، قندھار، غزنی، کابل ، خراسان اور دریائے سندھ کے درمیان کے کچھ علاقے پر مشتمل تھا ۔ افغانستان کی تاریخ بہت پُرانی ہے ۔ آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے اس خطے سے علم و رشدکے جو چراغ روشن ہوئے انھوں نے پورے برصغیر کو اسلام کی روشنی سے منور کر دیا ۔ اس خطے سے آ نے والے اولیاء کرام، بزرگان ِدین اور علماء نے برصغیر میں اسلام پھیلایا ۔

1880 ء میں افغانستان آزاد ہوا ، اس وقت کی سرحدیں پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں ، تاجکستان ، ترکمانستان اور ازبکستان کے ساتھ ملتی ہیں ، افغانستان میں پختونوں اور فارسی بولنے والوں کی بڑ ی تعداد رہتی ہے ۔ افغانستان کے مغرب میں ایرانی شیعہ کی بڑی تعداد رہتی ہے، مشرق میں سُنی مغل کی اکثریت ہے۔ دوسری قومیں بھی رہتی ہیں ۔

موجودہ اٖفغانستان کا زیادہ حصہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے ، بندرگاہ نہ ہونے کی وجہ سے اہم ترین محل وقوع ہونے کے باوجود افغانستان میں ترقی کی رفتا ر نہ ہونے کے برابر ہے۔ پہلے ہی پسماندگی کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے مگر افغان وار اور نائن الیون کے بعد امریکہ اور اتحادی فوجیوں کی موجودگی اور خانہ جنگی کی وجہ سے پسماندگی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔

پوری دنیا کو افغانستان کی تجارتی گز رگاہوں کی اہمیت کا علم ہے۔ انھیں اس بات کا بھی علم ہے کہ اگر افغانستان کے راستے باقی دنیا کیلئے کھل جائیں تو دنیا کا ایک نیا کلچر معرض وجود میں آ ئے گا، ایک بڑ ی تبدیلی دنیا میں رونما ہوگی، کیونکہ روس اور وسط ایشیائی ریاستوں سمیت کئی ممالک ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے، ان کا آ پس میں گہرا میل جول اور روابط قائم ہونگے، ثقافتی اور سماجی تبدیلیاں ہونگی ، مگر اس رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانوں کی بنیاد پرستی ہے۔

افغانستان کا ایک بڑا طبقہ سمجھتا ہے یا اُسے باور کروا دیا گیا ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں اور روسیوں کی آزادانہ نقل و حرکت سے افغانستان میں لا دینیت پھیلے گی، اگر دیکھا جائے تو یہ تصور ہی غلط ہے۔ ایمان اور عقیدہ کبھی بھی اتنا کمزور نہیں ہوا کہ وہ دوسرے ادّیان یا عقائد کی وجہ سے بالکل بدل جائے۔ اسلام کا تو معاملہ ہی دوسرا ہے، اگر اپنی زندگیوں کو دین اسلام کے مطا بق ڈھال لیا جائے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دوسرے عقائد کے لوگ اسلام سے متاثر نہ ہوں، کیونکہ اسلام کا پہلا اُصول ہی انسانوں سے محبت کا ہے ، فرائض کے بعد مسلمانو ں پر احترام انسانیت لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اسلام کا جذ بہ احساس ، فلسفہ قر بانی ، دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا اور معاشرے میں بہترین کردار سر انجام دینا ہی اسلام کی روح ہے۔ اسلام کا بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو راضی اور خوش کرنے کیلئے حقوق العباد کی پاسداری کریں۔

حرام وحلال کا خیال رکھیں اپنے جذبات ، اپنے خیالات ، اپنا لباس اور اپنی زندگیاں پاکیزہ رکھیں ۔ کسی کو دکھ نہ دیں، کسی کا حق نہ ماریں، اپنی خواہشیات کی تکمیل کیلئے کسی دوسرے کے ساتھ ناانصافی ، زیادتی اور ظلم نہ کریں۔ اسلام ہمیں دوسروں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے، سوشلزم سے ہزار گُنا زیادہ اسلام انسانی مساوات کا درس دیتا ہے۔ زکواۃ ، صدقات ،فطرانہ اور خیرات کے ذریعے اپنی دو لت تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے ، اسلام روحانی ، ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسلام کی متاثر کُن تعلیمات ہر ایک کو متاثر کرتی ہیں۔

افغانستا ن میں روس اور وسط ایشائی ریاستوں کے باشندوں کی نقل وحرکت اور تجارتی راستے استعمال کرنے سے لا دینیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، افغانستان میں خوشحالی بھی ہوگی اور تعلیم وترقی میں بھی اضافہ ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی زندگیاں آسان اور بہتر بنانے کیلئے جو سہولیات پید ا کی ہیں اُن سے عام افغان بھی استفادہ حاصل کر سکیں گے۔

اس وقت کوئی بندرگاہ نہ ہونے اور تجارتی راہداریاں استعمال نہ کرنے کی وجہ سے افغان باشندے ایک محدود قسم کی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہیں، افیون اور پوست کی پیداوار ہی لاتعداد افغانوں کا ذریعہ آمدنی ہے۔ اس کے علاوہ منشیات کی بہت بڑی مقدار افغانستان میں ہی تیار ہوتی ہے جو پاکستان سمیت آس پاس کے ممالک میں با آسانی ترسیل ہوتی ہے، بلکہ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والی منشیات کی بڑی مقدار افغانستان میں ہی تیار ہوتی ہے۔

اسلحہ بھی بہت بڑی تعداد میں افغانستان میں ہی تیار کیا جاتاہے اور ناجائز طور پر آس پاس کے ممالک میں فروخت کیا جاتا ہے ، اسمگلنگ بھی ایک طبقے کا ذریعہ آمدن سمجھا جاتا ہے۔ بردہ فروشی اور کئی قبیح جرائم بھی آ ہستہ آ ہستہ سرائیت کر رہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندرگاہ نہیں ہے۔ زراعت کا رقبہ بھی محدود ہے ۔ کارخانوں اور فیکٹریوں کی تعداد محدود ہے۔ یونیورسٹیاں اور کالجزبھی محدود ہیں ۔

اس علاقے کے لوگ بہادر ، جفاکش ، محنتی اور ذ ہین ہیں اگر یہاں کے باشندوں کو موافق حالات مل جائیں تو یہاں کی قسمت بھی بدل سکتی ہے ، اسلام کی تبلیغ و ترویج کے مزید مواقع پیدا ہونگے، اور دنیا بھر میں اسلام کے حوالے سے ہونے والا بنیاد پرستی کا تصور بھی زائل ہو جائے گا، سب سے بڑا فائدہ پاکستان کو پہنچے گا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت خیبر پختونخوا کے باشندوں کی بڑی تعداد کی زندگیوں میں واضح مثبت تبدیلی ہو گی ، کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے پختون عوام کی روایات اور ثقافت ایک دوسرے میں پیوست ہے، دونوں حصوں کے پختونوں نے تقریباً ایک جیسا طرز زندگی اپنایا ہوا ہے اور سوچ میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے، لا دینیت سے دونوں حصوں کے پختون خو فزدہ ہیں ۔

افغان عوام کو متحد ہونا پڑے گا

افغانستا ن کے راہنماؤں اور دانشور وں کو اپنی عوام کی سوچ بدلناہوگی، امریکہ ، بھارت اور یورپی ممالک بالکل اس حق میں نہیں ہیں کہ روس ، وسط ایشیائی ریاستوں اور دوسرے ممالک کو افغانستان کے ذریعے گرم پانیوں کے ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت کا موقع ملے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں یہاں قدرتی وسائل کی بھی کمی نہیں ہے، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں بھی یہ ممالک عبور رکھتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان ایک کثیر تعداد آ بادی والے ممالک ہیں ۔

امریکہ اور یورپ کو اچھی طرح علم ہے کہ اگر روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کو تجارت کو موقع مل گیا اور ان ممالک کو مالی فراغت اور خوشحالی حاصل ہوئی تو شائد طاقت کا توازن ایکدم بدل جائے۔ امریکہ کی بالادستی ختم ہو جائے گی، وسط ایشیائی ریاستیں اور روس تجارت کے میدان میں اجارہ داری حاصل کر لیں گے ۔

طاقت کا توازن تبدیل ہونے کے ساتھ پاکستان اور افغانستان میں بھی ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا، افغانستان میں خانہ جنگی کی وجہ سے ’’تاپی ‘‘ گیس منصوبہ بھی التواء میں ہے ،’’ تاپی ‘‘ گیس منصوبہ میں، تاجکستان ، افغانستان اور پاکستان اسٹیک ہولڈر ہیں۔

تاجکستان میں قدرتی گیس کے وافر مقدار میں ذخیر ے ہیں ، حکومت پاکستان کے ساتھ معاہدہ طے پا چکا ہے ، مگر یہ پائپ لائینز افغانستان سے گذرنی ہے اور افغانستان میں شورش برپا ہے، گیس پائپ لائن کے ساتھ ساتھ وہاں پیدا ہونے والی بجلی کی تر سیل بھی ہو سکتی ہے ، پائپ لائن کے ساتھ سڑک بھی تعمیر ہو سکتی ہے ، بجلی کے پول بھی ساتھ لگائے جا سکتے ہیں ، اس سڑک کے ذ ریعے تمام ممالک سے تجارت کے راستے کھل جائیں گے اور اس کا بڑا فائدہ افغانستان کو پہنچے گا ، افغانیوں کی آ مدنی کا انحصار ، افیون اور پوست کی کاشت ، منشیات کی تیاری اور اسمگلنگ پر نہیں رہے گا ۔

افغانستان مہذب دنیا کا اہم ترین ملک بن جائے گا مگر شائد افغان راہنماؤں اور عوام کو اس کا ادراک ہی نہیں ہے ۔ وہ دُور دراز کے ممالک کے ریموٹ کنٹرول پر چل رہے ہیں، بھارت، امریکہ اور یورپی ممالک اس صورتحال پر خاصے مطمئین نظرآ تے ہیں ، مگر نقصان دو مسلم ممالک افغانستان اور پاکستان کو ہے، کاش کہ افغانستان میں تمام متحارب قوتوں کو اس بات کا احساس ہو جائے، امریکی انخلا کے بعد وہ اپنے آ پ کو کیش کرانے کا یہ سنہری موقعہ کھو نہ دیں ۔ !!!

پاکستان پر طالبان کی پُشت پناہی کا الزام مضحکہ خیز ہے
بھارت اور کچھ غیر ملکی قوتیں پاکستان پر یہ الزام لگا رہی ہیں کہ پاکستان طالبان کی پُشت پناہی کر رہا ہے ۔ یہ الزام ہی مضحکہ خیز ہے، جب افغانستان میں امن قائم ہوگا تو بیرونی دنیا افغانستا ن کے ذریعے آزادانہ اور محفوظ تجارت کر سکے گی اور پاکستان میں موجود تیس لاکھ مہاجرین اپنے ملک واپس جائیں گے ۔

پاکستان اس امر سے اچھی طرح آ گاہ ہے کہ مسلح گروہوں کی حکومت کبھی بھی پڑوسیوں کیلئے اطمینان کا باعث نہیں ہوتی ، نہ ہی اُن کی پالیسیوں میں استحکام ہوتا ہے ، جب افغانستان میں مُلا عمر کی حکومت قا ئم ہوئی تو طالبان کی انتہا پسندانہ پالیسیوں نے دنیا کے سامنے کچھ اچھا تاثر پیش نہیں کیا تھا ۔ طالبان کو اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔