زباں فہمی؛ گُل مُہر، گُل مِہریا گُل مور

سہیل احمد صدیقی  اتوار 22 اگست 2021
خطہ بنگال کے (بنگلا اور اردو) ادب میں اس کا ذکر خوب ملتا ہے ۔  فوٹو : فائل

خطہ بنگال کے (بنگلا اور اردو) ادب میں اس کا ذکر خوب ملتا ہے ۔ فوٹو : فائل

سلسلہ  نمبر: 111

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گُل سے میرؔ

بلبل پکاری دیکھ کے ، صاحب! پرے پرے

میرؔ صاحب نے یہ شعر کس کیفیت اور کس پس منظر میں کہا، ہمیں اس سے بحث نہیں، مگر یوں لگتا ہے کہ اگر وہ کہیںسُرخ گُل مُہرکا پھولوں سے لدا ہوا درخت دیکھ لیتے تو یقیناً ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہو جاتے کہ یہ مشہورِزمانہ شعر وارد ہوتا۔

{اُن کی یہ پوری غزل ہی بہت عمدہ ہے:

موسم ہے، نکلے شاخوں سے پتّے ہَرے ہَرے

پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے

آگے کسی کے کیا کریں دست ِ طمع دراز

وہ ہاتھ سوگیا ہے ، سرہانے دَھرے دَھرے

کیا سمجھے اُس کے رُتبہ ٔ عالی کو اہلِ خاک

پھِرتے ہیں جُوں سپہر بہت ہم وَرے وَرے

مرتا تھا مَیں تو ، باز رکھا ، مرنے سے مجھے

یہ کہہ کے، کوئی ایساکرے ہے، اَرے اَرے

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گُل سے میرؔ

بلبل پکاری دیکھ کے ، صاحب! پرے پرے}

اَب کہیں ناواقفین یہ نا سوچ رہے ہوں کہ ہم نے سُرخ گُل مُہر کیوں کہا۔ صاحبو! جاننے والے جانتے ہیں کہ آتشیں سُرخ، نارنجی وزردگُل مہر کی بعض اقسام میں پیلے رنگ کے پھول بھی آتے ہیں۔ شُنیِد تو یہی ہے کہ نارنجی وزرد پھولوں اور چھوٹے قد والا پیڑ، چینی قسم کا ہے۔ اب ہم کتابی اور ’آن لائن‘ مواد سے مدد لے کر اس کی تحقیق بھی کریں گے۔

کیوں کہ ضروری تو نہیں کہ ہر پستہ قامت کو چینی سمجھا جائے یا چینی کہلانے والا ہرکوئی ’’چینی‘‘ ہی ہو۔ مثال کے طور پر ہمارے یہاں جس پالتو پرندے کو ’’چینی مرغی‘‘ کہا جاتا ہے، وہ درحقیقت ’’گِنی فَول‘‘ [Guineafowl] ہے اور اس کا تعلق برّ اعظم افریقہ سے ہے (یہ لفظ ان ہجوں میںاردو نے عربی سے اپنایا تھا ;افریقا لکھنے کا جدید رواج بلاسبب ،لسانی قیاس یا اجتہاد ہے)۔ ویسے ایک بہت ہی بے تُکی سی بات یاد آگئی۔

بچوں کی چالو عوامی بولی [Slang] میں چھوٹی آنکھوں والے یا چینیوں جیسی شکل والے کسی بچے یا شخص کو مزاحاً ’’چینی مرغی‘‘ کہا جاتا ہے۔ شاید بہت سے قارئین کرام کو یہ جان کر حیرت ہو کہ خطہ بنگال و اُڑیسہ (موجودہ اُڈیشا، بھارت) میں یہی حسین پھول ’’کرشنا چُوڑا‘‘ کہلاتا ہے ۔ یہا ں ایک اور دل چسپ انکشاف بھی دیکھیے۔زردرنگ کے گل مُہر کو اردو میں کوئی الگ نام نہیں دیا گیا، مگر بنگلا میں اسے ’’رادھا چُوڑا‘‘ کہتے ہیں۔

بھدرک، اُڑیسہ میں مقیم میرے عزیز شاعر دوست ، منیر اَرمان نسیمی نے بھی واٹس ایپ پرگفتگوکرتے ہوئے، اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دیگر مقامات کے برعکس، ہم اسے ’ ’کرشنا چُوڑا‘‘کہتے ہیں۔ بنگلا دیش میںیہ پیڑ، راستوں کی تزئین کے لیے جا بجا لگایا جاتا ہے اور مختلف نوعیت کے تعمیراتی اُمورمیں اس کی لکڑی استعمال ہوتی ہے۔

ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ مشرقی افریقہ کے ملک، مڈغاسکرسے تعلق رکھنے والا، یہ درخت دنیا بھر میں علاقوں اور خطوں کے فرق سے، سال کے مختلف حصوں میں لگایا جاتا ہے، مگر پاکستان اور بنگلا دیش میں اس کے لیے اپریل تا مئی کا وقت مقرر ہے۔ یہاں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ گُل مہر کا قد پندرہ تا چالیس فٹ طویل ہو سکتا ہے اور ماسوائے خشک علاقوں کے (جہاں بارش بہت کم ہو یا نہ ہوتی ہو، قحط کا عالَم ہو)، یہ سدا بہار، رونق دکھاتا ہے۔ افریقی ملک ری یونین [La Réunion ] (فرینچ تلفظ : غے یُونیوں) میں یہ حسین درخت اپنی بہار سے سالِ نَو کی آمد کا اعلان کرتا ہے۔

برما (میاں مار، نا کہ میانمار) میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے۔علاوہ اَزیں، وہاں ایک میلے Thingyan Festival کے آغاز کا اعلان بھی اس کے جوبن پر آنے سے ہوتا ہے۔ فلپائن یا فلی پینز [Philippines] میں اس کے پھولوں کی آمد سے موسم بہار شروع ہوتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین اور تائیوان (جمہوریہ چین) میں متعدد مقامات پر اس درخت کو سرکاری پیڑ کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ جزائر غرب الہند، امریکاز، یورپ، آسٹریلیا، غرضیکہ ہر جگہ، گل مہر بہار دکھاتا ہے اور خوب دکھاتا ہے۔Northern Mariana Islands اور امریکی جزیرے Key West کا سرکاری درخت بھی یہی ہے۔ اس کا پھول Saint Kitts and Nevis اور ملائیشیا کا سرکاری پھول ہے۔

ویت نام میں اس پر بہار آتی ہے، تو تعلیمی سال ختم ہوتا ہے، لہٰذا اسے ’’شاگردوں کا پھول‘‘ کہتے ہیں، جب کہ ویت نام کے بڑے صنعتی شہر Hai Phòng کو ’’شہر ِ سُرخ گل مہر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی ریاست کیرالہ (درست تلفظ: کیر، لا) میں اسے ایک عیسائی مذہبی روایت سے منسلک کرتے ہوئے kaalvarippoo یعنی کال وَری یا گل گوتھا کا پھول کہتے ہیں۔ تفصیل ’وِکی پیڈیا‘ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مزید بَرآں، امریکا کا مشہور نغمہ Poinciana بھی اسی پھول سے نسبت رکھتا ہے اور اس کا ماخذ، کیوبا کا لوک گیت ہے۔ یہ درخت اور اس کے اجزاء محض حسن فطرت کا شاہ کار ہی نہیں، بلکہ اس سے مختلف بیماریوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے ۔اس کے پتے ذیابیطس کے علاج میں مفید ہیں۔

[Gulmohar has divergent medicinal properties like antibacterial, antifungal, anti-inflammatory, antimalarial, antimicrobial, antioxidant, cardio-protective, gastro-protective, and wound healing activity. Leaves have anti-diabetic properties, using its methanol extract significantly lowers the blood glucose levels.06-Nov-2020]

ایک سائنس داں Nidhi Suhane نے ایک پورا تحقیقی مقالہ اسی پھول اور درخت کے طبی فوائد پر تحریرکیا، جو ’آن لائن‘ دست یاب ہے۔

خطہ بنگال کے (بنگلا اور اردو) ادب میں اس کا ذکر خوب ملتا ہے۔ ماضی میں یہ خاکسار جن کتب کا مطالعہ کرنے کے باوجود، تبصرہ نہ لکھ سکا اور ان میں شامل بعض کتب کے مصنفین، مؤلفین، مرتبین، ناشرین ومترجمین سے شرمندہ ہوا، ان میںہمارے بزرگ معاصر محترم شام بارک پوری کی بھیجی ہوئی دوکتب بشمول ’’کرشنا چوڑا کے سائے میں‘‘ بھی تھی۔ {شام بارک پوری سابق متحدہ پاکستان بشمول مشرقی پاکستان کے ممتاز اُدباء میں شامل تھے ۔شام صاحب کا اصلی نام شاہ محمد تھا، بقول پروفیسر غلام ربانی، شاید انھوں نے لفظ ’’شاہ‘‘ سے شا اور اسم ’’محمد‘‘ سے میم لے کر قلمی نام’’ شام‘‘ اختیار کیا ہوگا۔وہ یکم نومبر 1944؁ء کو، چوبیس پرگنہ، ریاست مغربی بنگال (بھارت) کے ایک گاؤں بارِک پورمیں پیدا ہوئے۔

بقول محترم شمیم زمانوی صاحب، یہ درحقیقت، انگریزی لفظ Barrack کی متبدل اردو شکل ہے، بارِک۔ شام بارک پوری نے دولت کالج، کھُلنا سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد، لاہورکا رُخ کیا، جہاں انھوں نے گورنمنٹ کالج سے ’بی اے‘ اور پھر جامعہ پنجاب سے ’ایم اے‘ کیا اور ایک عرصے تک لاہور میں ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ ان کو اپنے دور کے کئی ممتاز اہل قلم کی صحبت حاصل ہوئی اور اُن کی نگارشات، برصغیر پاک وہند کے معتبر ادبی جرائد کی زینت بنیں۔ اُن کی پہلی کہانی، بچوں کے مقبول رسالے ’ہمدردنونہال‘ میں اُس وقت شایع ہوئی، جب وہ پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔

یہ 1956ء کی بات ہے۔ شام بارک پوری صاحب کے پانچ مجموعہ ہائے افسانہ بعنوان پدماکی موجیں، میگھنا کی لہریں، جمنا کے دھارے، سورج مکھی اور رجنی گندھا، ایک ناول کرشنا چوڑا کے سائے میں اور ایک ناولٹ آتش ِچنار شایع ہوئے (بنگلا دیش میں اردواز محترم احمد الیاس)۔ اُن کا انتقال پانچ دسمبر 2001ء کو کھُلنا، بنگلا دیش میں ہوا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کہیں کہا تھا: ’’شام بارک پوری اُن ادیبوں میں سے ہیں جو بنگلا دیش میں اردو کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔

ان کے افسانے در اصل دریچہ ہیں، جن سے بنگلا دیش کی سر سبزی اور شادانی، کھیتوں اور کھلیانوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے‘‘}۔ مئی 1981ء میں،بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا سے اولین بار شایع ہونے والی اس کتاب کا تعارف یوں درج کیا گیا تھا: ’’بنگلا دیش میں رومانی، معاشرتی اور حقیقت نگاری سے بھرپور پہلا اردو ناول‘‘۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’سورج ڈھل رہا تھا۔ ہلکی ہلکی پیاری دھوپ، زمین پر سونا بکھیرتی، شام کو حسین بنا رہی تھی۔ کرشنا چُوڑا کا درخت، شفق کی سُرخیوں میںدُھل کر اور بھی سُرخ نظر آرہا تھا۔‘‘ بنگلا دیش کے قیام کے بعد، اولین اردو سفرنامہ ’’رنگ وبو کی سرزمین‘‘ بھی ہمارے انھی بزرگ معاصر کے قلم سے منصہ شہود پر آیا تھا۔

راقم کا خیال ہے کہ یہ جو دہکتے ہوئے شعلوں جیسا لال رنگ ہے،گُل مُہر کا، اسی لیے، انگریزی میں اسے Flame tree اور Flameof the forest بھی کہا جاتا ہے، جب کہ اس کا ایک اور نام شاید ہمارے یہاں مشہور نہیں: Royal poinciana۔ اس نام کی بھی اپنی اہمیت ہے، جس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔ جنوبی ایشیا میں اسے May-flower tree بھی کہا جاتا ہے۔

Delonix regia اسی دل کش پھول کا نباتی نام [Botanical name] ہے (نباتاتی نہیں، کیوں کہ نباتات جمع ہے، نبات یعنی پودے کی اور پودوں کے علم کو علم نباتات، یا سہواً فقط نباتیات کہا جاتا ہے)، جب کہ اس کے عوامی ناموں میں سب سے زیادہ مشہور  Flamboyantہے، جس کا مطلب ہے: شوخ، جاذبِ نظر اور پُراعتماد۔ پروفیسر ڈاکٹر شان الحق حقی مرحوم کی مرتب کی ہوئی انگریزی اردو لغت (ناشر آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس) کے اندراج کے مطابق یہ معانی ہیں: ۱۔شوخ، چمکیلا، بھڑکیلا ۲۔پھول کا، گُل بوٹوں سے سجا ۳۔ بہت تیز رنگوں والا ۴۔تعمیرات: شعلوں کی طرح لہریے دار (سجاوٹ)۔ ایک اور مقام پر ہمیں اس نکتے کی تصدیق میں بزبان انگریزی یہی بیان ملا کہ شعبہ تعمیرات میں فرینچ Gothic طر ز تعمیرکی ایک قسم کو یہ نام دیا گیا ہے، جس میں لہریہ شعلے نما آرائش نمایاں ہوتی ہے۔

لو بھلا! ہم تواس کے معنی بہت محدود سمجھتے رہے، مگر جناب انگریزی لغات نے ہمارے ذہن کے بند دَریچے کھول دیے ہیں۔ محض دو لغات سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

Flamboyant adjective

*(of people or their behaviour) different, confident and exciting in a way that

attracts attention.

* a flamboyant gesture/style/personality

* He was flamboyant and temperamental on and off the stage.

brightly coloured and likely to attract attention

flamboyant clothes/designs

[https://www.oxfordlearnersdictionaries.com/

definition/english/flamboyant]

Flamboyant adjective

(PEOPLE)

* very confident in your behaviour, and liking to be noticed by other people, for example because of the way you dress, talk, etc.:

* a flamboyant gesture

* The writer’s flamboyant lifestyle was well known.

Flamboyant | AMERICAN DICTIONARY

Flamboyant adjective

* intended to be noticed, esp. by being brightly colored:

* a flamboyant gesture

* flamboyant clothes

[https://dictionary.cambridge.org/dictionary/english/flamboyant]

لسانی تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ انگریزی لفظ Flamboyant  (فرینچ زبان میں ’’جَلا ہوا‘‘) درحقیقت فرینچ سے آیا ہے (فرینچ تلفظ: فلاں بواں) اور اس کی ابتداء قدیم لفظ Flambé (فلاں بے) یعنی شعلہ سے ہوئی، جو شُدہ شُدہ یہاں تک آیا اور حقیقی معنوں میں اس سے مراد شعلے بھڑکنا اور آگ لگنا ہی تھا۔ اب یہ تفصیل ذرا ہماری پیاری زبان اور دیگر زبانوں میں رائج اسماء اور ان کی نسبت سے مستعمل مفاہیم سے ملا کر دیکھیں، یعنی اس راقم نے میرؔ کے حوالے سے اپنا قیاس یونہی نہیں لگایا تھا۔

کالم کے آخرمیں ایک لسانی شگوفہ پیش خدمت ہے۔ ہمارے بزرگ معاصر پروفیسر رئیس علوی صاحب کا خیال ہے کہ گل مہر کے میم پرپیش کی بجائے میم کے نیچے زیر پڑھنا درست ہے۔ ممکن ہے ان کے آبائی وطن بارہ بنکی (ہندوستان) میں اس حسین پھول اور درخت کا نام میم بالکسرہ ہی بولا، لکھا اور پڑھا جاتا ہو۔ ان کی ایک ہائیکو اسی تناظرمیں پیش خدمت ہے:

کب گل مہر کھلا

باغ اداس ہے،جب سے آہ!

گھر کو یار گیا

(ہائیکوانٹرنیشنل شمارہ ششم، رئیس علوی نمبر، بابت اپریل تاجون 2001ء، بانی مدیر سہیل احمد صدیقی، ناشر کینوپس)

لسانی بحث سے قطع نظر یہاں یہ توجیہ پیش کی جا سکتی ہے کہ اتنے پیارے پھول کی نسبت پیارسے ہونا بھی ناگزیر ہے۔ تو اسے مہر و محبت کے اظہار کا نشان یا علامت سمجھتے ہوئے، گل مِہر کہا جائے۔ بات کی بات ہے کہ مہر و وفا کے علاوہ ،مہر کے معانی میں سورج، شمسی (ایرانی) سال کا ساتواں مہینہ اوران کے علاوہ اتوار بھی شامل ہیں۔ اب آپ پر منحصر ہے، جیسے چاہیں، توجیہ کرلیں۔

اسی کالم میں ایک بار پہلے بھی قارئین کرام کی توجہ اس امرکی طرف مبذول کرائی تھی کہ ایک مؤقر انگریزی روزنامے کے گوشہ مکاتیب میں ایک پارسی (گجراتی نژاد) ڈاکٹر نے کراچی کو اسی خوب صورت و مفید پیڑ کی بڑے پیمانے پر کاشت کے ذریعے، ’’شہرِگل مہر‘‘ قراردینے کی اجتماعی تحریک چلائی جائے۔ خاکساراس کی تائید کرتا ہے۔ موصوف نے اپنے مخصوص لسانی پس منظر کی وجہ سے انگریزی میں بہت عمدہ خط لکھتے ہوئے، عوامی بول چال کانام، گل مور استعمال کیا تھا۔ ہمارے یہاں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ گل مور ہے، کیوں کہ اس کے تنے کسی مور پنکھ کی طرح پتے پھیلائے، ہمیں سایہ اور ہوا دیتے ہیں۔

اظہار تشکر: اس کالم میں ہمارے مرحوم معاصر شام بارک پوری کے متعلق موادمیں مفید اضافے کے لیے فوری تعاون فراہم کرنے پر، یہ راقم جامعہ ڈھاکاکے پر وفیسرغلام ربانی صاحب، مدیر ڈھاکا یونیورسٹی جرنل آف اردو اور بزرگ سخن وَر محترم شمیم زمانوی صاحب (متوطن کھُلنا، مقیم ڈھاکا) کا صمیم قلب سے شکر گزار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔