بدقسمتی سے پالیسیاں ان لوگوں کے ہاتھوں بنتی ہیں جو تعلیم کی روح سے بے خبر ہیں

تحریم قاضی / رانا نسیم  اتوار 22 اگست 2021
 بیورو کریٹک سسٹم خرابی کی اصل جڑ ہے جس میں اصلاح ناگزیر ہے، ماہر تعلیم منصف پروفیسر رشید احمد انگوی سے ایکسپریس کی خصوصی نشست کا احوال ۔  فوٹو : فائل

 بیورو کریٹک سسٹم خرابی کی اصل جڑ ہے جس میں اصلاح ناگزیر ہے، ماہر تعلیم منصف پروفیسر رشید احمد انگوی سے ایکسپریس کی خصوصی نشست کا احوال ۔ فوٹو : فائل

پروفیسر رشید احمد انگوی کا شمار مایا ناز ماہرین تعلیم، مصنفین، کالم نگاروں اور مضمون نویسوں میں ہوتا ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے بطور معلم ملک وقوم  کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ انھوں نے یکم ستمبر1946ء میں انگہ کے قاضی گھرانے میںآنکھ کھولی جو کہ ضلع خوشاب وادی سون سکیسر میں واقع ہے۔

انگہ، جامعہ محمدی(چینیوٹ)، خواجہ فرید گورنمنٹ کالج (رحیم یار خان)، ایمرسن کالج ملتان اور جامعہ پنجاب لاہور جیسے معتبر اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے مختلف مقامات پر تدریس کے فرائض سر انجام دیئے جن میں گورنمنٹ کالج فورٹ سنڈیمین(ژوب)، گورنمنٹ کالج لورالائی، گورنمنٹ کالج سبی، خواجہ فرید گورنمنٹ گالج رحیم یار خان، گورنمنٹ کالج صادق آباد، گورنمنٹ کالج لاہور، گورنمنٹ ایف سی کالج لاہور، گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار سائنس لاہور، گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ لاہور، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ، منصورہ ڈگری کالج لاہور شامل ہیں۔ان کا شمار ذوالوجی کے چوٹی کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ قلمی سرگرمیوںکے علاوہ وہ ماہ نامہ ’افکارِ معلم‘ کے ایڈیٹر کے فرائض بھی سر انجام سے رہے ہیں۔

ان کی بارہ سے زائد کتب اور متعدد کتابچے شائع ہو چکے ہیں۔ان کی مشہور تصانیف میں پاکستان کا صنم کدۂ سیاست،تلقین اقبال، ذکرو فکرِ اقبال،براہیم کی تلاش، علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات ، مطالعہ سورہ البقرہ اور ان کی میری معمار زندگی کی تلخ و شیریں یادیں شامل ہیں۔ کینسر  جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے  کے بعد بھی وہ قلمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

٭ اپنے بارے میں میں کچھ بتائیے۔تعلیمی سفر کا آغاذ کہاں سے کیا ؟

میرے نام کے ساتھ جڑا ایک لفظ ’’انگوی‘‘ میریف ذات کو مختصراً بیان کرتا ہے۔وادی سون سکیسر میںانگہ کوہستانِ نمک کے پہاڑوں میں واقع ایک خوبصورت ڈھلوانی گاؤں ہے جہاں کے ایک عالم گھرانے میں میری پیدائش ہوئی۔ہمارے گاؤں میں میرے آباؤ اجداد کا علم کے حوالے سے معتبر نام تھا اور میں نے ابتدائی تعلیم جو کہ قران کی تعلیم تھی وہ اپنے مدرسہ سے  حاصل کی۔اس کے بعد انگہ کے سرکاری سکول میں ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔

دورانِ تعلیم یہ معلوم ہوا کہ جس کمرہ جماعت اور نشتوں پہ میرے والد محترم شیخ الحدیث قاضی محمد خلیل اور احمد ندیم قاسمی بیٹھا کرتے تھے مجھے بھی ان کی نشت سنبھالنے کا شرف حاصل ہوا۔اس کے بعد والد کے ہمراہ جھنگ جا کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور مولاناذاکر جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے اورپارلیمنٹ کے بھی ممبر ہوا کرتے تھے ان کی ذات سے فیض  یاب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

پھر دسویں کے بعد کا سلسلہ رحیم یار خان میں چودھری عبدل المالک کے زیرِ سایہ شروع کیا۔ ایف ایس سی وہاں سے کی اور پھر ملتان ایمرسن کالج سے بی ایس سی کی۔اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی اور خود کو خوش قسمت  سمجھتا ہوں کے اعلٰی پائے کے اساتذہ سے علم حاصل کرنے کا شرف ملا۔

٭ کس عمر میں یہ آپ نے فیصلہ کیا کہ آپ درس و تدریس سے وابستہ رہیں گے؟

بچپن اور لڑکپن سے ہی جید علماء کی صحبت میں رہنے اور ان کے چشمہ علم سے فیض پانے کا ہی سبب تھا کہ یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی ۔

٭آپ نے پاکستان کے کئی کالجوں میں بطورِ معلم اپنے فرائض سر انجام دیئے تو اس دوران کیا سیکھنے کو ملا۔ کیا کبھی زندگی میں ایسا مقام آیا کہ آپ کو لگا ہو آپ نے اپنے لئے غلط شعبے کا انتخاب کیا؟

کبھی بھی نہیں۔میں نے جس دور میں ایف ایس سی کا انتخاب کیا اس دور میں لوگ ڈاکٹر نہیں بنتے تھے لیکن جب میں نے پڑھانا شروع کیا تومحنت کی ایک ایسی مثال قائم کی کہ لوگ کہا کرتے تھے ایک ایسا شخص ہے جو ڈاکٹر ساز ہے۔گونمنٹ کالج لاہور میں بھی پڑھانے کا تجربہ تھا تو میں رحیم یار خان کالج میں جا کر روز اپنی کلاس میں کہتا تھا مجھے اس کلاس سے چالیس ڈاکٹر چاہیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو میں کالج چھوڑ دوں گا۔

ایسا کہنے کے پیچھے راز میری اپنے طلبہ سے محبت اور قربت تھی اور مجھے معلوم تھا کہ وہ برداشت نہ کر پائیں گے کہ ہمارا استادپڑھانا ہی چھوڑ دے اور یوں ہی ہوا انھوں نے محنت کی اوراس کلاس سے چالیس سے زیادہ ڈاکٹر بنے اور جو ڈاکٹر نہ بنے وہ انجینئیر بنے اور یوںمیں نے رحیم یار خان میں ایک پروفیشنل کلاس پیدا کی ، جس کے بعد سے یہ مشہور ہوگیا کہ اگر کسی نے ڈاکٹر بننا ہے تو رشید احمد انگوی صاحب کے پاس چلا جائے۔ آج مجھے وہ کالج چھوڑے پچیس برس بیت گئے ہیں مگر جب بھی وہاں جاؤں مجھے بہت محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔جب سے بیمار ہوا ہوں روز کوئی نہ کوئی شاگرد ملنے آتا ہے۔ میرے لئے محبتوں کے چشمے رواں ہیں۔

٭آپ نے ایک طویل عرصہ درس و تدریس سے وابستگی میں گزارا ہے ، تو پاکستان میں رائج الوقت تعلیمی نظام کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں کیا یہ قوم کی معاشرتی و معاشرتی ضروریات پوری کر رہا ہے اور اگر نہیں کر رہا  تو کیسے کر سکتا ہے؟

لیکچر شپ کی ابتداء میں میں نے بہت سی تعلیمی کانفرنسوں میں شرکت کی اور میں یہ بات وثوق سے کہا کرتا تھا کہ جو قوم اپنے استاد کو ترقی نہیں دے سکتی وہ کبھی عزت نہیں پا سکتی۔میں نے دیکھا کہ اساتذہ اور بیوروکریٹس کا آپس میں جھگڑا رہا کرتا کیونکہ وہ کلاس اساتذہ کو  اپنے پیروں تلے رگیدنا چاہتی تھی جس پہ میں اپنی تقریوں میں برملا کہا کرتا تھا کہ جو قوم استاد کو عزت نہیں دے گی وہ کبھی عزت کی حق دار نہیں ہوگی۔ اور پچاس برس بعد میری یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

یہ معاشرہ استاد کو عزت دینے میں ناکام رہا ہے، اور نتیجہ کیا نکلا کہ وہ بک گئے اور بازار کا مال بن گئے۔میں نے ٹیوشن اپنی خوشی سے پڑھانا شروع نہیں کی، ایک روز ایک لڑکا مجھے آکر کہنے لگا کہ مجھے ٹیوشن پڑھا دیجئے مگر میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ جو تمہیں پڑھنا ہو وہ ویسے ہی آکر پڑھ لینا۔ پھر میری ملاقات اس لڑکے سے اس وقت ہوئی جب میری زوجہ زچگی کے دوران چند مسائل کی وجہ سے ہسپتال میں داخل تھیں ۔

ڈاکٹر صاحبہ نے جو ٹیکے دیئے وہ اس وقت بہت مہنگے تھے تو میں نے ان سے جب سوال کیا کہ گورنمنٹ نے ہمیں بطور سرکاری ملازم جو مرعات دی ہیں کیا وہ حاصل نہیں؟ تو جو جملہ ڈاکٹر نے ادا کیا وہ میری تاریخ کا ناگوار حصہ بن گیا۔وہ مجھے کہنے لگی’’ویکھو جی بیوی توھاڈی اے گورنمنٹ دی نہیں،صحت توھانوں چاہدیئے گورنمنٹ نوں نہیں‘‘۔اتفاق سے یہ جملے سن کر جب میں باہر نکلا تو وہی طالب علم مجھے ملا اور کہنے لگا سر میں نے تو آپ سے کہا تھا مجھے ٹیوشن دے دیں۔

پھر ان دنوں زوجہ کی نگہداشت کے لئے ہسپتال ہوا کرتا تھا تو میں نے اسے ہسپتال کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کر ٹیوشن دی۔پانچ چھ برس قبل لاہور میںایک محفل تھی جس میں ایک بڑا ڈاکٹر ، بڑے میڈیکل کالج کا اسٹینٹ پروفیسر تھا اپنے سارے دوستوں سے کہنے لگا ’’سنو یار سنو! اگر میں رحیم یار خان نہ گیا ہوندا تے ہسپتال دییاں سیڑھیاں تے رشید انگوی صاحب کولو سبق نہ پڑھا ہوندا تے آج میں ڈاکٹر نہ ہوندا‘‘ جس پہ اس کے باقی دوستوں نے کہا یہ صرف تمہاری ہی نہیں بہت لوگوں کی کہانی ہے۔اس لیڈی ڈاکٹر کے ایک جملے نے میرے سارے نظریات پہ کانٹا لگا دیا اور میںنے ٹیوشن کو اپنے لئے جائز سمجھا۔تو یوں اساتذہ کو جب ان کا حق نہ دیا گیا تو انھوں نے اپنا حق لے لیا۔ایجوکیشن سسٹم کی ابتری کی اصل ذمہ دار حکومت ہے۔

٭حال ہی میں حکومت نے یکساں نصابِ تعلیم کا  ایک اقدام شروع کیا ہے۔ آپ کے خیال میں یہ منصوبہ کامیاب ہوگا؟

دیکھیں پرائمری لیول پہ یکساں نظامِ تعلیم ایک خواب ہے، جو میرے جیسے لوگ مدتوں دیکھتے رہے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے پالیسیاں ان لوگوں کے ہاتھوںبنتی ہیں جو تعلیم کی روح سے بے خبر ہوتے ہیں۔بظاہر اس منصوبے کی روح اچھی ہے مگر میں وزیر تعلیم کا بیان سن کر مایوس ہوا جس میں ان کا موقف تھا کہ انگلش میڈیم میں یہ لاگو نہیں ہوگا۔اگر انگلش اور اردو میڈیم کی تخصیص ختم کر دی جاتی اور یکساں کتابیں ہوتیںتو اصل کامیابی ہوتی۔

’انگریز پاکستان سے چلا گیا انگریزی نہیں گئی، انگریز کی غلامی ختم ہوگئی انگریزی کی غلامی ختم نہیں ہوئی‘  اس تصور نے ہمارے امراء اور دیگر اپر کلاس کے ذہنوں میں یہ خناس بھر دیا کہ اگر انگریزی نہ رہی تو ہم لوگ بڑے نہیں رہیں گے۔یکساں نصاب کا زبانی دعویٰ تو صحیح ہے مگر انگلش میڈیم والوں کو یہ وہ نصاب دینا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے بیوروکریٹک سسٹم میں اصل خرابی ہے جس میںاصلاح ناگزیر ہے۔

٭آپ نے علامہ صاحب کو گہرائی سے پڑھا ہے علامہ نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب تو اپنی شاعری اور فکر میں بیان کئے ہیںکیا اس زوال سے بچاؤ یا اس کے سدباب کے لئے بھی کچھ بیان کیا؟

علامہ تو اس ملت کے نباض ہیں۔ میں اس کو یوں بیاں کرتا ہوں کہ جب ہم علامہ کے مطب میں جا کر نبض دکھاتے ہیں تو وہ کہتے ہین تیری بیماری ’غلامی‘ ہے۔

؎بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر

وہ سارا خلاصہ یہی بیان کر دیتے ہیں کہ عقل اور بصیرت غلاموں کے حصہ میں نہیں آتی۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ آج ملت قرآن وحدیث کو پڑھے اور اقبال کو پڑھے۔

٭ آپ ملکی حالات اور سیاست پہ بھی نگاہ رکھتے ہیں آپ کے خیال میں اس حکومت کی پالیسیاں عوام دوست ہیں ؟ اورکیا سابقہ ادوار میں نظام تعلیم کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے مختلف اور بہتر ہیں۔ کیا آپ اس حکومت میں اور پچھلی حکومتوں میں کوئی فرق محسوس کرتے ہیں؟

فرق محسوس ہونا بھی نہیں چاہیئے تھا کیونکہ جو چالیس برس گزرے ہیں ان میں تو نسلیں پروان چڑھ گئی ہیں۔عمران خان سے ایک غلطی ہوئی اسے اقتدار میں آنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ جیسے قائد اعظم نے کہا تھا کہ میرے پاس کھوٹے سکے ہی بچے ہیں تو عمران خان کو بھی کھوٹے سکے ہی ملے ہیں۔عمران کے اردگرد سارے بلیک میلرز ہیں وہ چاہ کہ بھی کچھ نہیں کرسکتا۔وہ چالیس برس سے قائم تسلط کو اگلے دس برس حکومت کر کے بھی ختم نہیںکر پائے گا۔ ہاں اگر نوجوان جاگ جائیں کم از کم دس ہزار نوجوان تو ملک بدل سکتا ہے۔

آپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، آپ نے ملالہ کے حوالے سے ایک کتابچہ بھی تحریر کیا، لوگوں نے اس پہ اعتراضات کئے ان کا کیا جواب دیں گے ؟

ا ن کے اعتراضات بجا ہیں، فارسی کا ایک جملہ ہے ’’فکرِ ہرکس بقدر ہمت اوست‘‘ یعنی ہر کسی کی فکر اس کی خواہش کے مطابق ہے۔جو لوگ انگریز کے طریقہ واردات سے بے خبر ہیں وہ میری تحریر کو نہیں سمجھ سکتے اس لئے کہ انھوں نے ایک چھوٹی سی بچی پکڑی ہے تاکے وہ وہ اگلے سو سال ان کی رہ سکے۔وہ جیسے جیسے بڑی ہوگی اس کو طاقت دی جائے گی یہاں تک کے اس نے ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی وزیر اعظم بننا پسند کرے گی۔اور عین ممکن ہے وہ آنے والے وقت میں وزیر اؑعظم بن بھی جائے۔

یہ بات معمولی نہیں کہ وہ بیمار ہوئی اور چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ملکہ برطانیہ کے ذاتی ہسپتال میں علاج کے لئے پہنچائی گئی اور یہ درجہ کوئی اور حاصل نہیں کر سکتا اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکہ برطانیہ خود اس کو اپنے دامن میں پال رہی ہے۔

٭ انسان زندگی میں مختلف طرح س آزمایا جاتا ہے ، اس عمر میں اللہ کی جانب سے جو آزمائش کینسر کی صورت میں آئی ہے آپ اس کے حوالے سے جان کر کیسا محسوس کرتے ہیں۔ زندگی کے حوالے سے آپ کا رویہ اب کیسا ہے؟

مجھے اللّٰہ  کی ذات سے اس بیماری کے حوالے سے کوئی شکوہ نہیں زندگی کی ستر  سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہوں اللہ نے اچھی بیوی، اولاد ، گھرا ور معاشرے میں عزت سے نوازہ ۔ اپنے نبی ﷺ کی عمر سے زائد جی چکا ہوں زندگی کی کوئی خواہش نہیں۔ لیکن میں مایوس نہیں پُر امید ہوں۔

٭ علامہ اقبال کے تصورِ خودی کو موجودہ دور کے نوجوان کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟

علامہ فرماتے ہیں

؎اپنی دنیاآپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

میں اپنے طا لب علموں کو بتاتا ہوں کہ اگر زندہ ہو تو اپنی دنیا پیدا کرو محنت سے اور اگر ایسا نہیں کرتے تو مردہ ہو۔ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ نہیں یہاں لوگوں نے بڑے بڑے کام کر رکھے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب ہیں جو اخوت کے پلیٹ فارم سے  غریبوں کوبلا سود  قرضے دے کر واپس بھی دلواتے ہیںوہ ہیں اقبال کے شاہین۔ اور اپنی کتاب ’تلقینِ اقبال میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام انتساب لکھ کر دنیا کو خصوصاً نوجوانوں کو پیغام دیا کہ یہ ہیں اقبال کے شاہین جنھوں نے اپنی دنیا خود پیدا کی۔

٭ اقبالؒ  کا اصل پیغام کیا ہے؟

ان کا اصل پیغام یہ ہے کہ حرام مت کھاؤ اور جدوجہد کرو۔

؎زندگی جہد است استحقاق نیست

یہ اس کا خلاصہ ہے کہ زندگی صرف اسی کا حق ہے جو یہ کہتا ہے میں نے محنت کی ہے۔علامہ کے نزدیک محنت اور جدوجہد کرنے والا ہی زندگی کا حق دار ہے اور جو محنت نہ کرے وہ پائے خاک سے بھی بدتر ہے۔

٭٭٭

’’قاسمی صاحب عظیم اور منکسر المزاج انسان تھے‘‘

احمد ندیم قاسمی اپنے والد کے درمیان مراسم کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ہم جماعت  ہوا کرتے تھے مگر پھر دونوں کی دنیائیں الگ ہو گئیں ان کے والد علم حدیث  کی جانب جبکہ قاسمی صاحب ملازمت،ادب اور صحافت کی دنیا میں مگن ہو گئے۔جب وہ ایم ایس سی کرنے لاہور پبجاب یونیورسٹی  آئے توقاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے اخلاقی سطح پہ بہت سپوٹ کی اور ان کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ قاسمی صاحب انگہ یعنی اپنے آبائی گاؤں میں خوشی غمی کے موقوں پہ ضرور جایا کرتے تھے۔

ندیم صاحب کی باحیثیت انسان جتنی تعریف کی جائے کم ہے وہ بہت عظیم انسان تھے۔ کبھی بڑائی ، تکبر اور غرور کو اپنے قریب تک نہیں پھٹکنے دیا۔  قاسمی صاحب کو میں نے اپنا مضمون اردو ادب کی بحالی کے حوالے سے ارسال کیا اور چھ سات ماہ گزرنے کے بعد اخبار میں قاسمی صاحب کا کالم جسکا نام اور متن میرے دیئے تھے ’مختاراںمائی کے بعد اردو مائی کی بھی سن لیں‘ چھاپ دیا اور لکھا کہ ملک کے مشہور ماہر تعلیم نے یہ مضمون بھیجا جو باوجو بیماری میں نہ چھاپ سکا۔اور وہ قاسمی صاحب کی زندگی کے آخری کالموں میں سے ایک تھا ۔

’’پسند نا پسند‘‘

پسند ناپسند کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ایف ایس سی تک کوئی فلم نہیں دیکھی پھر جب ملتا ن گیا تو روم میٹ سے گہری دوستی ہوگئی اور وہ فلموں کا رسیا تھا اور یوں مجھے بھی لت لگ گئی ۔پڑھائی میں ہم دونوں بہت اچھے تھے اور ساری کلاس یک جان دوقالب کی اس جیتی جاگتی مثال سے بھی آگاہ تھی۔

رنگیلے نے جو خود فلم بنائی وہ مجھے پسند تھی اور میں جب دوستوں کے ہمراہ بیٹھ کر کہتاکہ دیکھو کیسا فلسفہ بیان کیا ہے، اور دوسرے لڑکے مجھ پہ ہنستے تھے کہ ’اوئے ویکھو ان نوں رنگیلے دے وچ فلسفہ نظر اندا ائے‘ اور میں کہتا تھا کہ اس کہ بھاگ جاگے اور پھر وہ لیجینڈ بن گیا تو یہی سب باتیں اس فلم کے گانے میں بھی تھی۔ملکی اور غیرملکی ڈرامے دیکھنے کا اتفاق ہوا مگر کوئی پسندیدہ نہیں۔کتابوں کی پسند کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میں نے پورے کے پورے اتھر پڑھ رکھے ہیں اس لئے کسی ایک کو پسندیدہ کہنا مشکل ہے۔کشمیری لیڈرز پہ ایک کتاب کا مطالعہ کیا کتاب تو پسند کے ترازو پہ پوری نہ اتر ی مگر اس میں سے ایک بات پسند آئی اور اس پہ عمل بھی کرتا ہوں۔ کہ جیل میں کھانا کھانے کو وقت کم ملتا تھا تو کھانا جلدی کھا لیتے سو میں بھی اب کھانا جلدی کھا لیتا ہوں۔قہقہہ۔ کھیلوں میں سکواش پسند رہی اور پسندیدہ تفریحی مقام آزاد کشمیر کی سروالی چوٹی ہے۔

’’خواہش ہے اپنی زندگی میں ایک بار پھر شاہنواز سے ملوں‘‘

اپنی زندگی کا ناقابل فراموش واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ژوب بلوچستان میں گورنمنٹ کالج میںپریٹیکل کی کلاس لے رہا تھا وہاں ایک قبائلی شاگرد تھا اس نے ایسا سوال پوچھا جس سے مجھے کلاس کے ڈسپلن کے خلاف لگااور اسے کلاس سے باہر نکال دیا،کچھ وقت کے بعد وہ مے آئی کم ان پوچھنے لگا اور میں نے کہا ایک ماہ کے لئے میری نگاہ سے دور ہو جاؤ ۔اس واقعہ کی تمام تفصیلات میری کتاب میں درج ہیں ، قصہ مختصر میں اس وقت تکبر کا شکار ایک استاد بن کر شاہنواز سے ڈیل کر رہا تھا  اس کے معافی مانگنے پہ بھی اسے معاف نہ کیا تھا۔ل

یکن آج میں اس کا وکیل بن کر سوچتا ہوں کہ سوال کرنا اس کا حق تھا میں تدبر سے کام لیتا تو معاملہ بگڑتا نہ ۔بہت عرصہ بعد لاہور ٹی وی سٹیشن دوست کے ہمراہ گیا تو وہاں ایک  نوجوان لوزمات کی ٹرے اٹھائے مسکراتا ہوا میری جانب چلا آیا اور میرے پاس بیٹھ کر کہنے لگا ’سر آپ سچ پہ تھے اور میں غلط تھا وہ شاہنواز تھا‘ اور بتانے لگا کہ وہ کسی اؑعلٰی عہدے دار کا دوست تھا اور کسی بھی خدمت کا موقع فراہم کرنے کی درخوست کرنے لگا جس پہ مجھے وہ اعلی اور اپنی ذات ادنیٰ لگنے لگی۔ اور میری خواہش ہے کے میں اسے دوبارہ زندگی میں کامیاب و کامران دیکھوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔