پاکستان کو درپیش مشکلات

ایڈیٹوریل  ہفتہ 21 اگست 2021
بلاشبہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد خطے میں ایک نئی صورت حال نے جنم لیا ہے۔  فوٹو : فائل

بلاشبہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد خطے میں ایک نئی صورت حال نے جنم لیا ہے۔ فوٹو : فائل

افغانستان کی صورتحال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہورہی ہے ،جہاں تحریک طالبان نے ’’ایک مختلف طرز حکومت‘‘ پیش کرنے کا عزم کیا ہے،لیکن دوسری جانب طالبان نے کابل فتح کرنے کے چار دن بعد ملک میں اسلامی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کردیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ تاحال عالمی طاقتیں ، اقوام متحدہ اور پاکستان، افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں پس وپیش سے کام لے رہی ہیں۔

افغانستان سے غیرملکی اور مقامی آبادی کا وسیع پیمانے پر انخلا بھی جاری ہے، آئی ایم ایف نے غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر افغانستان کے فنڈز روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق عالمی برداری کا مؤقف غیر واضح ہے، غیر یقینی صورتحال کے باعث افغانستان آئی ایم ایف کے وسائل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔اس سے قبل امریکا نے بھی افغان سینٹرل بینک کے ساڑھے 9 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ایک روز قبل افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان پر برطانیہ کا متنازعہ تسلط ختم ہونے کے 102سال بعد وہاں امارتِ اسلامی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔دریں اثنا امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکی باشندوں کے مکمل انخلا تک امریکی افواج افغانستان میں رکھنے کا اعلان کردیا اور کہا ہے کہ خواہ 31 اگست کی ڈیڈ لائن ختم ہی کیوں نہ ہوجائے،برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا ہے کہ افغانستان کے بحران کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی کوشش کی ضرورت ہے۔

افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں تسلسل سے اتنے زیادہ سوالات جنم لے رہے ہیں، جن کا جواب کسی کے پاس فوری طور پر نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان کے برق رفتاری سے قبضے نے دنیا بھر کے سیکیورٹی اور سفارت کاری کے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔

مختلف ممالک افغانستان میں اپنی دو دہائیوں کی سرمایہ کاری اور ترقیاتی کاموں کو بھول بھال کر اپنے اپنے سفارتکاروں اور شہریوں کو جلد از جلد یہاں سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔طالبان کی افغانستان میں یہ کامیابی ممکنہ طور پر جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں نمایاں تبدیلی کا پیش خیمہ بنے گی اور یہ خاص طور پر بھارت کے لیے آزمائش کا باعث بنے گی، جس کے تاریخی طور پر اپنے ہمسایوں پاکستان اور چین کے ساتھ نہ صرف کشیدہ تعلقات ہیں بلکہ سرحدی تنازعات بھی ہیں۔

جب کہ دوسری جانب پاکستان اور چین کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں ممالک کے مستقبل میں افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے کی توقع ہے۔ادھر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے مطالبہ کیا ہے کہ یک طرفہ موقف سے اجتناب کرتے ہوئے افغانستان کے حوالے سے مشترکہ بین الاقوامی موقف پر کام کیا جائے۔واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر برائے جنوبی ایشیا سے وابستہ مائیکل کوگلمان کے بقول ’’اس وقت افغان طالبان کا پلڑا بھاری ہے، طالبان کا کلیہ بہت واضح ہے، جب وہ انھیں برتری حاصل ہے تو وہ پیچھے کیوں ہٹیں۔‘‘

بلاشبہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد خطے میں ایک نئی صورت حال نے جنم لیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے خواہاں ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ طالبان عسکری زور پر کابل کا کنٹرول سنبھال لیں،لیکن اس واضح ترین موقف کے باوجود پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی خاطر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔

افغانستان میں امن کے لیے جاری کوششوں کے تناظر میں یہ سوال بار بار دہرایا جارہا ہے کہ اگر افغان طالبان حکومت بناتے ہیں تو پھر وہاں موجود پاکستانی طالبان جنگجوؤں کا مستقبل کیا ہوگا جو فوجی آپریشنز کے بعد اب بھاگ کر افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ کیا افغان طالبان تحریک طالبان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا پاکستان کے ساتھ؟سب جانتے ہیں کہ افغان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ویسے بھی تحریک طالبان کا وجود افغان طالبان کے بطن سے ہوا ہے لہٰذا ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

جب افغانستان سے فرار ہونے والے طالبان اور غیر ملکی جنگجوؤں پر مشکل وقت آیا تو سب سے پہلے پاکستانی طالبان گروہوں بالخصوص جنوبی اور شمالی وزیرستان کے مقامی شدت پسندوں نے آگے بڑھ کر ان کی مدد کی۔ٹی ٹی پی کی تمام قیادت نے ہمیشہ سے اپنی تحریک کو افغان طالبان اور ملا محمد عمر کا ایک ذیلی گروپ قرار دیا ہے، جس سے متاثر ہو کر انھوں نے بھی پاکستان میں طالبان طرز کے شرعی نظام کے لیے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

تحریک طالبان پاکستان دراصل القاعدہ اور افغان طالبان کا ایک مرکب رہا ہے، جس کے قیام میں القاعدہ نے درپردہ اہم کردار ادا کیا تھا۔ القاعدہ کا بنیادی منشور یہ رہا ہے کہ وہ عالمی سطح پر جہادی تحریکوں کو پھیلائے اور ان کے قیام اور استحکام میں ان کی معاونت کرے۔ اسی تناظر میں اسامہ بن لادن کے خفیہ مکتوبات سے پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ نے پاکستان میں تحریک طالبان کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا اور شروع سے تحریک کو مختلف شکلوں میں معاونت فراہم کی۔

افغانستان میں پاکستانی طالبان ان علاقوں میں سرگرم ہیں جہاں افغان طالبان کا اثر ورسوخ زیادہ ہے اور وہاں وہ اپنے طورپر کوئی کام بھی نہیں کرسکتے بشرطیکہ انھیں افغان طالبان کی حمایت حاصل نہ ہو۔ٹی ٹی پی چونکہ ریاست پاکستان کے مخالف ہے ،اس لیے افغان طالبان کھل کر ان کی حمایت نہیں کرتے اور نہ پاکستان میں ہونے والے حملوں میں کبھی ان کی معاونت کی لیکن دوسری طرف ان کے خلاف کارروائی بھی نہیں کرتے کیونکہ دونوں کے درمیان’ ’خاموش احترام‘‘ کا رشتہ ہمیشہ سے قائم رہا ہے ۔

افغان طالبان اس وجہ سے پاکستانی شدت پسندوں کو اپنے سے جدا نہیں کر سکتے کیونکہ اگر کل کو افغانستان میں امن مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو افغان جنگجو پناہ کے لیے پھر سے پاکستانیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں دعوی کیا تھا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی سے وابستہ جنگجوؤں کی تعداد چھ ہزار کے لگ بھگ ہے، اگر افغان طالبان حکومت میں آتے ہیں تو انھیں پھر پاکستانی طالبان سے نمٹنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں اور اس سے خیبر پختون نخوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی کے مسائل پیش آسکتے ہیں۔

ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان میں آنے والی تبدیلی سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے اس لیے اکثر ذہنوں یہ سوال موجود ہے کہ مستحکم ہونے کی کوششوں میں مصروف پاکستانی معیشت پر یہ صورت حال کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔پاکستانی معیشت ایک طرف آئی ایم ایف پروگرام  کے تحت مالی ڈسپلن اور شرائط میں بندھی ہوئی ہے تو دوسری جانب اس میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا رجحان بہت کم نظر آیا ہے ، کیونکہ پاکستان میں آنے والی سرمایہ کاری جو اسٹاک مارکیٹ اور گورنمنٹ سیکیورٹیز میں آتی ہے اس میں پچھلے کئی ہفتوں سے کافی کمی دکھائی دے رہی ہے۔

صرف جولائی کے مہینے کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز میں کوئی بیرونی سرمایہ کاری نہیں آئی جس کی وجہ افغانستان میں جون کے مہینے سے شروع ہونے والی طالبان کی پیش قدمی کے باعث پاکستان کے کاروباری و تجارتی حلقوں کے ساتھ معاشی اور مالیاتی امور کے ماہرین افغانستان میں بدلتی ہوئی صورت حال پر ابھی ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی تجویز دیتے ہیں۔

پاکستان اس وقت چھ ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط میں بندھا ہوا ہے، دوسری جانب ملک میں مہنگائی کی شرح عروج پر ہے، اگرچہ پاکستان کو برآمدات اور ترسیلات زر کی صورت میں آنے والے ڈالروں کی وجہ سے کافی سہارا ملا ہے تاہم ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیادہ درآمدات کی وجہ سے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں گزشتہ کئی مہینوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس کی وجہ سے درآمدات جن میں پٹرولیم مصنوعات اور کھانے پینے کی چیزیں مہنگے داموں پاکستان میں آ رہی ہیں۔

پاکستان کے شرح تبادلہ میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔کابل پر طالبان کے قبضے کی اطلاعات آتے ہی پاکستانی معیشت کے ایک اہم اعشاریے اسٹاک مارکیٹ نے منفی ردِعمل کا مظاہرہ کیا اور اسٹاک مارکیٹ میں چار سو پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی،تاہم جیسے جیسے کابل پر بغیر کسی خون خرابے کے قبضے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا اور مارکیٹ نے ریکور کرنا شروع کر دیا ہے۔

بلاشبہ افغانستان میں آنے والی تبدیلی سے پاکستان براہ راست متاثرہونے والا ملک ہے ، لہٰذا ہماری حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی، منظم، مربوط دفاعی حکمت عملی از سرنو ترتیب دے، جس کے نتیجے میں تحریک طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہ دوبارہ فعال نہ ہوسکیں ، جب کہ قومی سیاسی قیادت کو باہمی اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آنا چاہیے ، کیونکہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے ، درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں قومی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔