افغانستان، غلط اندازے اور صحیح خدشات

خالد محمود رسول  ہفتہ 21 اگست 2021

بیس سال قابل کا منظر تھا، شاید بہت سوں کو اب بھی یاد ہو۔ 9/11کے بعد امریکا نے طالبان کی حکومت ختم کرنے یعنی Regime Change  کی ٹھانی تو شمالی اتحاد کو میدان جنگ میں سپورٹ کیا۔ حیرت انگیز تیزی کے ساتھ شمالی اتحاد کے دستوں نے کابل کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔

دوسری جانب امریکی فضائیہ ڈیزی کٹر جیسے خوفناک بموں کی بمباری میں جت گئی۔شمالی اتحاد کے دستوں کے ساتھ فوجی گاڑیوں پر کیمرے اور مائیک سنبھالے نامی گرامی ورلڈ میڈیا  چینلز کے نمایندگان پیش قدمی کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کر رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے فاتح کے طور پر شمالی اتحاد کے دستے کابل میں داخل ہو گئے۔

فوجی گاڑیوں پر بیٹھے نیوز اینکرز کے جوش و جذبات قابل دید تھے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر سے نئے صحافیوں کی کھیپ پہنچ گئی۔ ان میں ایک معروف صحافی اور سی این این کی اینکر کرسٹین امان پور بھی تھیں۔ کابل پہنچنے کے فوراً بعد انھوں نے  ایک دھماکا خیز لائیو رپورٹ کی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ سی آئی اے نے کابل میں القاعدہ کے زیر استعمال گھروں سے ایسے کاغذات اور مینوئل برآمد کیے ہیں جن میں ایٹم بنانے کی اسکیم ثابت ہوتی ہے۔ انھوں نے ثبوت کے طور پر وہ مبینہ  کاغذات لہرا لہرا کر ناظرین کو اس انکشاف پر قائل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔

یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر تمام عالمی میڈیا نے چلائی، اس خبر کو امریکی حکومت نے افغانستان پر حملے کے ایک جواز کے  طور پر پیش کیا… مگر بعد ازاں یہ دعوی سراسر غلط  ثابت ہوا۔اس سے قبل عالمی میڈیا پر یہ خبر تواتر سے چھائی رہی کہ القائدہ کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔

اسامہ بن لادن کا ایک انٹرویو سند کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ تورا بورا سے لے کر دوردراز کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے ، القائدہ کی قیادت روپوش ہو کر موت اور زندگی کی لکن چھپائی کھیلنے پر مجبور ہوئی مگر کوئی ایٹمی ہتھیار برآمد نہ ہوا۔اندازہ سراسر غلط ثابت ہوا۔اسی وقت عراق پر امریکی اور اس کے اتحادی حملہ آور ہوئے۔ بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ عراق کے پاس بڑی تباہی کے ہتھیار موجود ہیں۔

امریکی سیکریٹری دفاع کولن پاول اپنے دعوے کی بنیاد پر سلامتی کونسل سے عراق پر چڑھائی کرنے کی اجازت لینے پہنچے ، تفصیلی ڈوزئیر کی بنیاد پر موصوف بضد رہے کہ عراق کے پاس ہتھیار موجود ہیں، اب ایک ہی حل بچا ہے کہ عراق پر چڑھائی کی قرارداد پاس کر لی جائے۔

عراق تباہی کی بھینٹ چڑھ گیا مگر تباہ کن ہتھیار تھے نہ برآمد ہوئے،اندازہ سراسر غلط ثابت ہوا۔ صدر بائیڈن نے انخلاء کا پروگرام اگست کے آخر تک مکمل کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل بگرام ائیر بیس سے اچانک روانگی کے انداز نے اپنوں پرایوں کو حیران کر دیا۔ ادھر یہ نکلے، ادھر طالبان یوں نکلے کہ دنوں میں صوبے پہ صوبہ فتح کرتے گئے۔ طالبان نے کابل کے دروازے پر دستک دی تو شور مچا ، سوال اٹھے تو جواب کچھ یوں تھا؛ ہمارا اندازہ غلط  ثابت ہوا۔ افغانستان آرمی اور پولیس کے بارے میں ہمارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔

افغان حکومت اتنی جلد ڈھیر ہو جائے گی، طالبان اس تیزی سے ملک پر قبضہ کر لیں گے؛ سب اندازے سراسر غلط ثابت ہوئے۔اب توقعات اور امکانات کا سارا میدان طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ طالبان کی واضح طور پر دو شناختیں سامنے ہیں۔

طالبان 1996 سے 2001 اسلامی امارت والے: دینی اعتبار سے اپنی ایک واضح سوچ اور فکر والے، اپنی فکر پر عمل درآمد کے لیے اپنے انداز کی سادہ انتظامی مشینری، اپنے انداز کا مخصوص ورلڈ ویو والے۔ نائین الیون کے بعد جب القاعدہ کی میزبانی سے ہاتھ کھینچنے کی بات آئی تو وہ راستہ منتخب کیا جس پر بیس سال چلتے رہنے کے بعد اب امارت قائم کرنے کے موڑ پر پھر سے آئے ہیں۔

امریکی صدر کو کہنا پڑا ؛ ہمارا اندازہ غلط نکلا۔ پولیٹیکل سائنس کے ایک پروفیسر سے الجزیرہ  ٹی وی پر بحث میں ایک دلچسپ ترکیب سنی؛ طالبان 0۔1 یعنی طالبان ورژن ون۔ اسی پروفیسر کے بقول اب جو طالبان گوریلا وار لڑتے کابل وارد ہوئے ہیں یہ طالبان 0۔2 یعنی طالبان کا نیا ورژن ہے۔ ان کا خمیر ورژن ون سے اٹھا ہے مگر بیس سال کی طویل مزاحمت اور انٹرنیشنل ڈپلومیسی میں سالہا سال سے سخت گیر موقف اپنائے رکھنے والے یہ طالبان بہتر ورلڈ ویو رکھتے ہیں۔

انھیں اندازہ ہے کہ افغانستان پر بطور ریاست حکمرانی کے لیے بزور کابل کے صدارتی محل پر قابض ہونا کافی نہیں۔ ایک قومی یا شریک اقتدار حکومت سے ہی عالمی سطح پر طالبان کو تسلیم کیے جانے کا راستہ کھلے گا۔ عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کے بعد ہی افغانستان کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تنہائی ختم ہو سکے گی۔

ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کی پریس کانفرنس اس امر کا اظہار تھی۔ کانفرنس بہت متاثر کن تھی، مگر زمینی حالات خود سپردگی کے عالم میں نہیں ہیں۔ اپنی مخصوص مذہبی فکر اور شریعت کی اپنی تعریف پر اصرار کے ساتھ ساتھ مخالف نکتہ نظر کے لیے جگہ بنائے بغیر موافق ورکنگ ماحول بننا مشکل ہے۔ سیاسی عمل میں انتقال اقتدار اور اختیارات کی تقسیم کی کلیدی اہمیت ہے۔

اس ضمن میں آئین بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ آئین کے تحت ریاست کے کام سرانجام دینے کے لیے اداروں کا قیام ، ان کے رولز اور پروسسز بنانے اور ان پر عمل کی صلاحیت پیدا کرنے یا پہلے سے موجود صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے طالبان کی آمادگی مستقبل کے منظر نامے کی کلید ہے۔ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری، تجارتی راہداریوں ، ریاست کے وسائل کے ذرایع پیدا کرنے ، روزگار ، تعلیم، صحت، امن و امان جیسے امور ایک جدید معاشرے اور ریاست کے لیے ضروری ہیں۔

اپنی سرزمین سے ہمسایہ ممالک کے لیے کارروائیاں نہ کرنے کا عمل کامیاب علاقائی امن اور سفارت کی بنیاد ہے۔ یہ امکانات اور توقعات بہت بھاری بھر کم ہیں۔ مگر انھیں پورا کیے بغیر جو بھی سیاسی ،سفارتی اور  معاشی صورتحال بنے گی وہ خاکم بدہن خدشات سے اٹی ہوئی ہے۔ ماضی قریب و بعید کی گواہی شامل کریں تو شاید ان خدشات کی بنیاد اتنی غلط بھی نہیں۔ دیکھتے ہیں! کس نے ماضی سے کتنا سیکھا ، اس کا جواب چند دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔