طالبان کا مشکل وقت شروع ہوا ہے اب

وسعت اللہ خان  ہفتہ 21 اگست 2021

ابھی کچھ بھی طے نہیں۔نہ سمت ، نہ شکل ، نہ چلن، کچھ بھی تو نہیں۔وہ جو کرکٹ کمنٹیٹر چوکا لگنے کے بعد آسمان کو چھوتی گیند کے بارے میں کہتے ہیں ’’ اٹس اپ ان دی ائیر ‘‘ ۔تو وہ والی صورتِ حال ہے۔

کیا یہ سکون ہے یا نئے طوفان سے پہلے کی خامشی۔ یہ امن ہے یا قبرستانی سناٹا۔ نیا دور ہے یا  پرانے پر تازہ وارنش کرنے کی کوشش۔کیا یہ آزادی کا گجر ہے یا تازہ غلامی کا بھونپو۔ یہ ہاتھی کے نمائشی دانت ہیں یا اصل۔کیا دل منقلب ہوا ہے یا بس کچھ نئے اسٹنٹ پڑ گئے ہیں۔کیا یہ خواب ہے یاسراب کی کوئی اور شکل۔ کیا یہ کوئی برا سپنا ہے کہ سچی تعبیر سے حاملہ تصور۔

کیا ماضی کی غلطیوں کے سبب بیس برس کی بیابانی بھوگنے کے بعد خود کو بیس سو اکیس کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کے خواہاں جنگجوؤوں کی یہ کوئی نئی پود ہے یا پرانا مشروب بس نئی بوتل میں انڈیلا گیا ہے؟

مجھے  نئیت پر کوئی شک نہیں۔میں انھیں سو فیصد فیس ویلیو پر پرکھنے کو تیار ہوں۔میں یقین کرنے پر آمادہ ہوں کہ وہ اس وقت جو بھی کہہ رہے ہیں پوری ذمے داری سے کہہ رہے ہیں۔مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی باک نہیں کہ وہ بھی اس تباہ حال کھنڈر کی تعمیر و ترقی کے اتنے ہی خواہش مند ہیں جتنا کوئی اور۔

پھر بھی اس وقت اگر دنیا محتاط روی میں مبتلا ہو کے دیکھو اور انتظار کرو کی روش پر چل رہی ہے تو اس کا سبب محض اور محض پرانا بائیو ڈیٹا ہے۔

اس بائیو ڈیٹا میں بدھا کے دو عظیم الحبثہ بتوں کی بلاوجہ بربادی ہے ، کابل میوزیم  میں رکھے دورِ کفر کے نوادرات کی توڑ پھوڑ ہے ، عورت کو آدھا زمین میں گاڑ کر مردانہ ہجوم کے ہاتھوں سنگساری کی فخریہ چوتھائی صدی پرانی تصاویر ہیں۔اسامہ کے معاملے پر جورو کا بھائی ایک طرف ساری خدائی ایک طرف والا وہ رویہ ہے جس کے نتیجے میں حکومت چھن گئی ، دو عشروں کا بن باس جھیلنا پڑ گیا ، ہزاروں کو مرنا پڑ گیا، اربوں کا ڈھانچہ زمیں بوس ہو گیا۔

کیا یہ بائیوڈیٹا اب بھی کام میں آوے گا یا پرانی ناکامی و خود مسلط کردہ مصائب سے سبق سیکھ کر نیا بائیوڈیٹا تیار کیا گیا ہے۔

چند بنیادی باتیں پچھلے ایک ہفتے سے تواتر سے دھرائی جا رہی ہے۔ہم عورتوں کو دروازے کے پیچھے نہیں رکھیں گے بلکہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے تعلیم و روزگار کی اجازت دیں گے۔ہم اگرچہ مغربی طرزِ جمہوریت کو درست نہیں سمجھتے مگر مقامی ثقافتی دائرے میں مثبت تنقید کا خیرمقدم کریں گے اور بنیادی آزادیوں کا احترام کریں گے۔ہماری سرزمین آیندہ کسی بیرونی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔

یہ وہ باتیں ہیں جو پوری دنیا سننے کی منتظر تھی۔مگر ذرا اور انتظار ؟ یہ انتظار کہ شریعت کے دائرے کی تشریح کیا ہو گی ؟ پاکستانی ، ایرانی ، سعودی ، ملیشیائی ، ترک، افغانی رواجی یا پھر انیس سو چورانوے والی طالبانی یا پھر دو ہزار اکیس والی طالبانی؟ تب کہیں جا کے اندازہ ہوگا کہ دائرہ کتنا بڑا یاچھوٹا ہوا ہے اور کون سی بنیادی آزادی کتنی مقدار میں فراہم ہو گی۔

یقیناً زاویہ نظر کچھ تو بدلا ہوگا۔پچھلی نسل تصویر کے خلاف تھی۔نیا مجاہد کلاشنکوف کے ساتھ ساتھ سیلفی والے موبائل سے بھی لیس ہے۔پچھلی قیادت کا سفری تجربہ اکوڑہ خٹک سے قندھار اور کوئٹہ اور کابل سے اسلام آباد اور ریاض تک محدود تھا۔نئی قیادت دوہا ، بیجنگ، ماسکو ، تاشقند ، امارات میں طرح طرح کے کھانے ، فرنیچر ، کمرے ، بستر ، فانوس اور ٹھنڈی مشینیں دیکھ ، برت اور چکھ چکی ہے یہ نسل پرکھوں کے برعکس کیمرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی عادی ہے۔وہ خواتین صحافیوں اور اینکروں سے بات کرنا معیوب نہیں سمجھتی۔

وہ دری ، پشتو اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی سیکھ گئی ہے۔وہ اکھڑ سفارت کاری کے بجائے داؤ پیچ والی گفتگو سے سامنے والے کو چت کرنے کے فن میں بھی طاق ہوتی جا رہی ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت امریکا کے ساتھ ہونے والا دوہا سمجھوتہ اور روس اور چین کو ہمنوا بنانے اور ایران کو نرم کرنے کی کامیاب کوشش میں جھلک رہا ہے۔ گویا نئے طالب کو دنیا داری کے تقاضے پچھلے کے مقابلے میں زیادہ سمجھ میں آ رہے ہیں۔

ایک اچھی بات یہ ہے کہ پہلے کے برعکس انھوں نے تنظیمی سطح پر اپنا نظریاتی اور سیاسی بازو الگ الگ رکھنے کی کوشش کی ہے۔وہ نوے کی دہائی کا پشتون قوم پرست مذہبی گروہ نہیں رہے بلکہ اس بار ان کی درجہ اول و دوم کی قیادت میں تاجک ، ازبک حتی کہ ہزارہ بھی شامل ہیں۔

اتنا سہنے اور سیکھنے کے بعد بھی یہ گروہ محض نمائشی غازہ گیر ثابت ہوا تو یہ اجتماعی المیہ ہوگا۔دیکھنا یہ ہوگا کہ اب جب کہ طاقت کا مرکز بھی ہاتھ آ گیا ہے تو آزمائش کی پہلی بارش میں یہ غازہ کتنا سلامت رہ پاتا ہے۔

رہی بات امریکا کی۔تو خارجہ امور میں وہ آج بھی لڑکپن کے دور میں ہے اور اس لڑکپن کی قیمت پچھلے سو برس سے دنیا طرح طرح کی شکلوں میں ادا کر رہی ہے۔یہ بات سمجھنے کے لیے آخر کتنی خواندگی درکار ہے کہ جب آپ بقولِ خود ایک ’’ دھشت گرد ’’ گروہ سے امن سمجھوتہ کر کے اسے برابری کا درجہ دے دیتے ہو تو پھر اس کے بعد اپنی جھینپ مٹانے کے لیے اڑنگے لگانے سمیت ٹچی حرکتیں کرنا ضروری نہیں ہوتیں۔

مثلاً افغانستان کے دس ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے۔آئی ایم ایف اور یورپی یونین نے افغانستان کے لیے امدادی پروگرام فی الحال معطل کر دیا۔اگر تو یہ اقدامات اس لیے کیے گئے ہیں کہ کابل میں نئی حکومت کی کوئی باضابطہ شکل موجود نہیں تب تو ٹھیک ہے۔لیکن اگر یہ معاشی ناکہ بندی اس لیے  ہوئی ہے کہ طالبان کی باضابطہ حکومت بھی نہ چل پائے تو پھر ان پابندیوں کا مطلب کچھ اور لیا جائے گا۔

ایسی صورت میں امریکا اور مغربی ممالک طالبان کو اپنی معاشی بقا کے لیے ان راستوں پر دھکیل دیں گے کہ جن کے بارے میں مغرب سمیت کوئی بھی نہیں چاہتا کہ طالبان ان پر چلیں۔اگر نئی حکومت اپنی سرزمین کو باقی دنیا کے خلاف استعمال نہ ہونے کا اگلے چند ماہ میں ٹھوس ثبوت فراہم کر دیتی ہے اور منشیات کی کاشت کی بیخ کنی کا وعدہ بھی ایفا کرتی ہے تو پھر معاشی ناکہ بندی کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہے گا۔

اگر معاشی ناکہ بندی ’’ رجیم چینج ’’ یا اپنی مفاداتی پالییساں تھوپنے کی غرض سے کی گئی ہے تو پھر نتیجہ وہی برآمد ہوگا جو پچھلی ایک صدی میں بارہا سامنے آ چکا ہے۔

مغرب نے انیس سو سترہ کے انقلابِ روس کا معاشی گلا گھونٹنے کی کوشش کی ، کیمونسٹ چائنا کو برسوں اچھوت بنا کر رکھا ، کیوبا کو گزشتہ باسٹھ برس سے اقتصادی زنجیریں پہنا کر دیکھ لیں، ایران پچھلے تینتالیس برس سے یہ سب بھوگ رہا ہے ، عراق کو اقتصادی پابندیوں سے سدھارنے کے نام پر برباد کر دیا گیا۔ہاتھ کیا آیا ؟  ایک راستہ بند ہوتا ہے تو کئی اور بقائی راستے کھل جاتے ہیں۔بڑھیا بغل میں مرغا داب کے گاؤں سے نکل گئی تو کیا اس کے بعد صبح نہیں ہوئی ؟ مگر نئی صبح بھی آپ کی مرضی کے رنگوں کی ہو یہ ضروری تو نہیں۔

چنانچہ امریکا، یورپ اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو اس وقت چینی وزیرِ خارجہ کے مشورے پر دھیان دینا چاہیے کہ فی الحال دنیا کو افغانستان کی مدد کرنی چاہیے۔احتساب کے لیے تو زندگی پڑی ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔