افغانستان میں طالبان

شہلا اعجاز  اتوار 22 اگست 2021

امریکا کی جانب سے سنا گیا تھا کہ ابھی طالبان کو کابل تک پہنچنے میں چھ مہینے درکار ہیں لیکن صورتحال نے کچھ اس طرح سے پلٹا کھایا کہ بڑے بڑے ماہرین تکتے رہ گئے اور طالبان نے باآسانی افغانستان پر قبضہ کرلیا اس باآسانی پر لوگ تعریفیں بھی کر رہے ہیں تو تنقید بھی جاری ہے البتہ بھاگنے والوں کے لیے جیساکہ ہمیشہ ہی ہوتا آیا ہے الزامات جاری ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے ملک کو مسائل میں دھکیل کر فرار ہونے والوں نے محض اپنی ذات کو دیکھا اور جس انداز سے راستہ فرار اختیار کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے ملک کے خیر خواہ نہیں رہے۔

انھوں نے اپنے اردگرد کے پڑوسی ممالک سے پاکستان دشمنی کی بنیاد پر بے شمار امداد حاصل کی یہاں تک کہ بھارت جس نے افغانستان کو نہ صرف مالی بلکہ جنگی وسائل کی صورت میں بھی بہت کچھ تحائف کی شکل میں دیا تھا، اب طالبان کے قبضے میں بھارت کے لیے خطرے کا سگنل بجا رہا ہے، بھارتی نیوز چینلز طالبان کے نئے اور پرانے ویڈیوز نشر کرکے طالبان اور ان کی حکومت کو بدنام کر کرکے اپنے حلق سکھا رہی ہے۔

انھیں یہ بھی گلہ ہے کہ امریکی افواج جاتے جاتے ڈھیروں مہنگا ترین اسلحہ افغانستان میں چھوڑ گئی جن میں مہنگی ترین رائفلز جس کی اندازہ کروڑوں روپے کی مالیت بتائی جا رہی ہے اس کے علاوہ ٹینک، توپ، ہیلی کاپٹرز اور حساس آلات کے علاوہ جدید ترین ڈرونز بھی شامل ہیں۔

ایک وقت تھا جب بھارت کا افغانستان سے بڑا پیار محبت کا رشتہ تھا اور اسی رشتے کی بدولت اس نے افغانستان کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر بڑا پیسہ لگایا تھا خیال تھا کہ یہ دوستی مل کر چین اور پاکستان کو ناکوں چنے چبوائے گی کیونکہ امریکا کی بھاری افواج افغانستان میں تعینات تھی، بارود کی چھاؤں میں سب کچھ چل رہا تھا لیکن اندر ہی اندر کچھ اور ہی پک رہا تھا اور وہ بھی طالبان کی اپنی اسٹرٹیجی اور اس طرح پانسا پلٹا کہ دہائی پڑ گئی، الزامات لگ رہے ہیں کہ طالبان وہ تمام اسلحہ پاکستان منتقل کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان ہمیشہ کشمیر کے مسئلے پر ایک ہی طرح کی بات پر ڈٹا ہے لہٰذا آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر کشمیر کے لیے ایک نیا منصوبہ ترتیب دیا ہے۔

نریندر مودی جب سے اقتدار میں آئے ہیں انھوں نے اپنی سیاسی ٹیم کے ساتھ بھارت کے ان تمام مسائل کو ختم کردینے کی ٹھان لی ،جنھیں گزشتہ دور حکومت میں کوئی انجام نہ دے سکا، پہلی بار نریندر مودی کے حکومتی راؤنڈ میں یہ صورتحال نہ تھی لیکن دوسری بار انھوں نے بابری مسجد جیسے ایشو کے ساتھ بہت سے دوسرے گمبھیر مسائل کو اپنی ہٹ دھرمی اور انتہا پسندی کے ساتھ ختم کرنے کی کوششیں کیں اور کشمیر کے مسئلے کو جس طرح ایک دم کی پالیسی کے تحت عوام الناس کے سامنے عیاں کیا کہ اس سے پیشتر عالمی دباؤ اور عوامی دباؤ کے زیر اثر نہ آجائیں، بس کر گزریں اور انھوں نے کر تو دیا لیکن اس کے بعد کے اثرات کو یکسر نظرانداز کردیا کہ ان کی ہنڈیا میں جو پک کر پھوٹ بھی گیا تو اس کے چھینٹوں سے کیا وہ خود اور پورا بھارت محفوظ رہ سکتا ہے؟

بے شک کوئی بھی ذی شعور انسان بھارتی عوام کے خلاف نہیں ہو سکتا لیکن جس طرح سرکار چلاتی ہے، سمجھاتی ہے، سکھاتی ہے خود بخود اس طرح ہوتا چلا جاتا ہے جیسے گزشتہ افغان حکومتوں نے پاکستانی مخالفت کا بھارتی درآمد جام اپنی عوام کو پلایا اور اس کے نمونے وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھنے کو ملے لیکن اس شدت پسندی کے پیچھے ڈور چلانے والے اور چلوانے والوں کے اپنے اپنے مقاصد تھے اور جیسے کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ بے وقوف بنی عوام۔

حالیہ امریکی حکومت کو بھارت کی جانب سے خوب لعن طعن ہو رہی ہے جب کہ امریکی صدر کے مطابق ان کی اپنی عوام، افواج اور امن عامہ اہم ہے جو انھوں نے کر دکھایا اپنی افواج کو سب کچھ چھوڑ کر پلٹ آنے کا حکم دینا اس دور کے تمام امریکی فوجیوں کی جانوں کے ضیاع کا کچھ مداوا ہی تھا، جب ٹرمپ نے طاقت کے نشے میں چور ایک دنیا پر اپنی حکمرانی کے خواب دیکھتے ہوئے اس زعم میں اپنی فوج کو افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا تھا ایک ایسی جنگ جس کی ابتدا اور اختتام دونوں بے ترتیب اور ناانصافی کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے۔

بھارت کو اس پر بھی شک ہے کہ شاید امریکا نے اپنے کروڑوں ڈالرز کے ہتھیار جان بوجھ کر طالبان کے لیے چھوڑے ہیں اس میں ان کی سازش شامل ہے گویا یہ جنگ ون وے نہیں ہے اس کے تانے بانے کشمیر پر جاکر ختم ہوتے ہیں، اسی سازشی پارٹی میں بھارت کو پاکستان اور چین بھی ملوث دکھائی دے رہا ہے کہ چین نے طالبان کے افغانستان پر قبضے کو’’ اوکے ‘‘جو کردیا ہے۔

یہ سازش ہو یا حقیقت بھارت کے لیے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ایک ان دیکھی جنگ کی جانب نشاندہی کر رہا ہے جس کی توپوں کا رخ بھارت کی جانب ہے جب کہ دوسری جانب چین، پاکستان، روس اور طالبان کی اوٹ امریکا بھی بھیانک خواب کی طرح دکھائی دے رہا ہے اور یوں مودی سرکار اندیشوں میں گھری ہے۔

افغانستان سے فرار ہونے والے افغانیوں نے میڈیا پر بیانات اور دردمندی سے اپیلوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جب کہ افغانستان میں بھی مغربی انداز کے بیوٹی سیلونز اور دیگر مقامات پر ترمیمات جاری ہیں، گو طالبان کی جانب سے بارہا اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ بلاوجہ شہریوں کو تنگ نہیں کریں گے، خواتین کو ان کے اسلامی قوانین کے تحت جائز حقوق دیے جائیں گے اور بہ ظاہر زندگی نارمل ہوگئی ہے لیکن کب کیسے اور کیوں کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔

پچھلے بیس برسوں میں افغانستان میں جنگی جھڑپیں، تشدد اور جھوٹی موٹی جھڑپوں کے ساتھ طالبان کی صدائیں کبھی خاموش نہیں ہوئی تھیں یہ ایک طویل وقت تھا اور محسوس کیا جا رہا تھا کہ امریکی افواج ان چھوٹی موٹی جھڑپوں اور واقعات کو قابو میں کرلے گی اور طالبان کا قصہ ماضی کا حصہ بن کر ہمیشہ کے لیے کتابوں میں دفن ہو جائے گا لیکن ایسا ہوا نہیں، دراصل پچھلے بیس برسوں میں افغان حکومتوں میں چہرے تو بدلتے رہے لیکن کوئی موثر پالیسی یا حکمت عملی کارگر ثابت نہ ہوئی کیونکہ یہ بدلتے چہرے افغان عوام سے مخلص نہ تھے۔

ایک کے بعد ایک شکست ان کے نصیب میں آتی گئی اور بالآخر افغان قبائل جنھیں افغان حکومت اپنی طاقت سمجھتی تھی انھوں نے بھی باآسانی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ان تمام حقائق سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ اب افغانستان کے باسی خون خرابہ نہیں چاہتے وہ پرسکون انداز میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، طالبان بھی جیساکہ بارہا ان کی جانب سے پرجوش نہیں بلکہ عقل و دانش سے حالات کو سنبھالنے اور عوام کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، کیونکہ آج کی صورتحال بیس برسوں پہلے جیسی نہیں ہے ،چین نے پہلے طالبان کو تسلیم نہیں کیا تھا اور آج تصویر کوئی اور رخ دکھا رہی ہے، حامد کرزئی یا اشرف غنی ہو یا عبداللہ عبداللہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں پرامن حالات پر زور دیا ہے کیونکہ پڑوس کا سکھ ہمارا سکھ ہے۔

اب بھی افغانستان کا کچھ حصہ طالبان کی دسترس میں نہیں ہے جہاں سے پھر پاکستان مخالفت کی باتیں اچھالی جا رہی ہیں لیکن طالبان کو بیس برس پہلے کی ریل کو دہرانا نہیں ہے مذہب کے نام پر شدت پسندی صرف اسلام کے مخالفین کو بڑھا اور بھڑکا سکتی ہے۔پاکستان نے پچھلے چالیس برسوں میں افغانستان کا ساتھ دے کر اس کے ساتھ کھڑا ہو کر بھائی ہونے کا ثبوت دیا اور اس کے بدلے میں پاکستان کو بہت سے منفی جزو کو سہنا پڑا اور آج ہمارے معاشرے میں ایسے عناصر خوب پنپ رہے ہیں جو اس سرزمین کا کھا کر بھی اس کے خلاف ہی ہیں۔

بہرحال ہمیں اچھے کی ہی امید رکھنی چاہیے کہ ہم ایک ہی امت کے ہیں، خدا ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے اور ہم اپنی آزاد سرزمین کی محبت کا حق اچھی طرح سے نبھا سکیں۔( آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔