ہر دن، نیا منظر: کابل

جاوید قاضی  اتوار 22 اگست 2021
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اس سے پہلے کہ امریکی فوجیوں کا انخلا ہوتا، غنی حکومت خود بھاگ نکلی ۔ ایک لمحہ بھی یوں محسوس نہ ہوا کہ دھوکا افغان عوام کو کس نے دیا؟ امریکیوں نے یا افغان حکومت نے، جو امریکی فوجیوں اور ہندوستان کے سہارے کھڑی تھی؟ کیا غنی حکومت ریت کے ٹیلے پہ کھڑی تھی؟

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی طالبان ہیں 2001 والے یا وقت کے ساتھ بدل گئے ہیں؟ پندرہ اگست کی شام جہاز کے پروں سے لٹک گئے لوگ، یہ ڈر ان طالبان کا تھا جو 2001 والے تھے اور اب قدرے تھم سا گیا ہے، وہ ہیجانی کیفیت زیادہ دکھائی نہیں دیتی، ہاں!کابل کے لوگوں میں۔ دن بدن حالات وہاں تبدیل ہورہے ہیں اور یوں لگتا ہے جو ضمانت امریکا کو قطر مذاکرات کے صلے میں ملی ہیں، اس پر عمل در آمد جاری ہے، سب قیاس آرائیاں قبل از وقت ہیں۔

طالبان کسی بھی لحاظ سے لوگوں کے دلوں پہ راج نہیں کرتے، ان کا ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہتھیار ہے دہشت۔ خود طالبان کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کرنا کیا ہے؟ ہر گذرتے دن کے ساتھ حالات تبدیل ہورہے ہیں ، یہ وہ افغانستان نہیں جو طالبان نے چھوڑا تھا ، یہ بہترین انفرا اسٹرکچر سے مالا مال افغانستان ہے، جس نے لوگوں میں شعور اور جرات بیدار کی ہے،لیکن سب سے بڑی شکست ، اب تک جو نظر آتی ہے وہ ہندوستان کی ہوئی ہے۔

اس خطے میں اس نے افغان سرزمین کو ہمارے خلاف خوب استعمال کیا اور اب…! لیکن جو بیان طالبان کا آیا ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ ہمارے ان سے تعلقات نہ اچھے ہیں، نہ برے ہیں۔ ان کے تعلقات قطر کے ذریعہ امریکا سے بہتر ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ ایسے حقائق سامنے نظر آتے جارہے ہیں، جو عدم تحفظ خواتین میں تھا وہ بھی بتدریج کم ہوتا جارہا ہے جو عام تاثر طالبان کے حوالے سے اس کی تشریح بھی تبدیل ہوتی جارہی ہے۔

اب بھی قبل از وقت ہوگا یہ کہنا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے،جو حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ طالبان بے تحاشہ تجربہ حاصل کرچکے ہیں، وہ دنیا میں تنہا نہیں رہنا چاہیں گے اور ایسی دوبارہ کوئی حرکت خود کریں گے نہ اپنی سر زمین سے ہونے دیں گے، جو دنیا کے لیے باعث تشویش بنے اور خود ایک وجہ بنے کہ پھر سے افغانستان پر حملہ کیا جائے۔

ایک بہت بڑی تبدیلی یکدم رونما ہوئی ہے، کہیں بھی نہیں لگتا تھا کہ کابل حکومت اس طرح بکھر جائے گی تو پھر اس سے تو وہ نظریاتی حکومت نجیب اللہ والی بہتر تھی، جو سوویت فوجیوں کے جانے کے بعد تین سال تک خود کھڑی رہی اور اگر گئی بھی ان کے خلاف تو بیرونی مداخلت تھی ۔ اس بار طالبان کے پاس تو کوئی بھی اصولی طور پر بیرونی مدد نہیں تھی اگر اس کا ماضی کے اعتبار سے تقابل کیا جائے۔

طالبان ایک لحاظ سے وہاں کی مقامی پختون قوم پرستی کی شکل ہے۔ اس کا تاریخ تسلسل بھی ہے اور ان کی مذہب کے اعتبار سے اپنی تشریح بھی ہے جس سے ان قبائلی تشخص بھی افہام و تفہیم سے ملتا جلتا نظر آتا ہے۔ اس کا اثر ہمارے ملک پر بہت زیادہ ہے۔ سینٹرل ایشیا کے مسلمان ممالک خود چین کے اندر مسلمان پر اثر آسکتا ہے ۔ اس کے برعکس ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ طالبان کا حکومت بنانا اور ریاست کو ان آداب و طرز پے چلانا ہے جس میں دنیا روز بروز یکسانیت پیدا کرتی جارہی ہے۔

ستر فیصد افغان آبادی کے پاس موبائل فون ہیں ۔ 2001 میں کوئی بھی لڑکی اسکول نہیں جاتی تھی اب لاکھوں تعداد میں لڑکیاں اسکول جاتی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں پڑھتی ہیں۔ فیس بک، ٹویٹر، سوشل میڈیا ، ٹی وی چینلز ، اخبارات ہیں اور ان پراب تک کوئی بھی پابندی نہیں لگائی طالبان نے۔ اور کیا وہ پابندی لگا بھی سکتے ہیں کہ نہیں یہ سارے سوالات ابھی اپنے جواب کے منتظر ہیں۔

افغانستان کو واپس 2001 والی ہیجانی کیفیت اور دہشت پر لے جانا ، نا ممکن نہ سہی، بہت مشکل ہے۔ ساتھ کیا۔ ’’دوحہ مذاکرات‘‘ میں جو انتخابات کا عمل شروع کرنے کی بات تھی وہ ہو پائے گا؟ طالبان کے پاس نظریے کے ساتھ عسکری طاقت بھی ہے وہ جمہوری عمل کو آگے نہیں چلنے نہیں دیں گے، اگر ان کی آمریتی طرز میں بھی اگر وہ دس پندرہ سالوں کے لیے امن رہتا ہے تو یہ بات اس خطے کے لیے بہت خوش آیند ہے ۔ افغانستان کے اندر خانہ جنگی نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

افغانستان میں امن پورے خطے کے لیے امن کا ضامن ہے۔اس وقت بظاہر امریکی حکمت عملی بہت ہی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے کہ ان کو اس تیزی سے وہاں سے نکلنا نہیں تھا ، لیکن آہستہ آہستہ یہ نظر آرہا ہے کہ طالبان کی ’’دوحہ‘‘ کے ذریعے امریکیوں کے ساتھ مذاکرات جارہی ہیں اور ان کا اثر ہے ۔ ہندوستان کی بری طرح شکست کے بعد یہ بات بھی امریکا کو سمجھ آجانی چاہیے کہ پاکستان کا جو طالبان پر اثرو رسوخ ہے یا خود دبئی ، سعودی عرب تو خود بین الاقوامی قرضہ دینے والے ادارے ہیں، ان کے ذریعے طالبان پر کنٹرول حاصل کیا جاسکتا ہے۔

طالبان کسی بھی لحاظ سے افغانستان میں انتخابات نہیں چاہیں گے اور یہ نظر آرہا ہے کہ افغانستان کا حل جمہوری عمل میں ہے۔ اتنی تیزی سے کابل اپنے رنگ بدل رہا ہے کہ کچھ بھی حتمی طور پرنہیں کہا جاسکتا۔ طالبان کے پاس کوئی بھی ٹھوس اور جامع پروگرام نہیں۔ افغانیوں نے غنی کی حکومت اور بیرونی امداد سے افغانستان میں ترقی دیکھی ہے۔اسی لوگوں کے ابھرتے احتجاج کو جو اب کے نظر آرہا ہے، طالبان کے پاس ایک ہی ذریعہ ہے،وہ ہے دہشت۔

یہ وہ دہشت تھی کہ لوگ کابل سے اڑتے جہازوں کے پروں سے چپک گئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر۔ اس دہشت کے عمل نے طالبان کو مغرب میں بہت بدنام کیا ہے اور خدانخواستہ کہیں سے بین الاقوامی دہشت گردی افغان سر زمین سے پھر سے شروع ہوجاتی ہے تو پھر اس بار طالبان کی یہ حکومت آخری حکومت ہوگی۔

دبئی اور سعودی عرب غنی کی جلاوطن حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی صورتحال میں یقینا پاکستان کسی بھی لحاظ سے طالبان کی کوئی بھی حمایت نہیں کرسکتا ۔ خود مغرب کے ایوانوں میں پاکستان کے خلاف بھی تقاریر ہورہی ہیں۔ طالبان کا بھنور خود ہمارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

بہتر ہوگا کہ پارلیمینٹ کا جوائنٹ سیشن بلایا جائے اور تمام مکاتب فکر کے پارلیمانی ممبران کو سنا جائے اور اس مجموعی بحث کے نتیجے میں جو قرارداد منظور ہوتی ہے اس کی روح کے مطابق افغان پالیسی ترتیب دینی چاہیے،جس تیزی سے طالبان خود افغان لوگوں میں غیر مقبول ہورہے ہیں، اس کا اندازہ کسی نے بھی نہیں لگایاتھا۔ افغان لوگ وقت کے ساتھ بیدار ہوچکے ہیں وہ طالبان سے ٹکرائو تو لیں گے اور یقینا دنیا ان کی مدد کو آئے گی۔

2001 میں طالبان illegitimate طریقے سے نکالا گیا تھا ان کا واپسی آنا بنتا تھا مگر اب طالبان کو legitimacy کو برقرار رکھنے کے لیے افغان لوگوں کی حمایت چاہیے، جو ایک ہفتے میں ہی ریزہ ریزہ ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اور اس طرح طالبان اپنے legitimacy تیزی سے کھوتے جارہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔