ملک کے کچھ بزدل سیاستدان قوم کو گمراہ کررہے ہیں، بلاول بھٹوزرداری

ویب ڈیسک  منگل 28 جنوری 2014
میری جان کو شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ میں اس وقت واحد سیاستدان ہوں جو علی الاعلان طالبان پر نام لے کر تنقید کر رہا ہے، سربراہ پیپلز پارٹی۔ فوٹو: فائل

میری جان کو شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ میں اس وقت واحد سیاستدان ہوں جو علی الاعلان طالبان پر نام لے کر تنقید کر رہا ہے، سربراہ پیپلز پارٹی۔ فوٹو: فائل

لندن: پاکستان پیپلز پارٹی کے سر پرست اعلی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پہلے طالبان کو شکست دی جائے پھر ان سے مذاکرات کئے جائیں،ملک کے کچھ سیاستدان خوفزدہ اور بزدل ہیں اور وہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے معاملے پر جان بوجھ کر قوم کو مغالطے میں ڈال رہے ہیں۔ 

بی بی سی کو دیئے گئےانٹر ویو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم ناکام ہو رہے ہیں، سوات کی ملالہ یوسف زئی ہو یا ہو یا ہنگو کا اعتزازحسن، وفاقی وزیر شہباز بھٹی یا گورنر سلمان تاثیر یا میری والدہ بے نظیر بھٹو ہماری بہادر آوازیں ایک ایک کر کے خاموش کی جا رہی ہیں، اگر ہم یک زبان ہو کر بولیں گے تو وہ ہم سب کو تو نہیں مار سکتے۔ انھیں موجودہ  حکومت سے مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے مذاکرات کی نہیں بلکہ غیرمشروط مذاکرات کی بات کی جو کہ کمزوری کی نشانی ہے، ہم نے تحفظات کے باوجود طالبان سے بات چیت کے معاملے پر ان کی حمایت کا فیصلہ کیا، 6ماہ بعد مذاکرات کی باتیں تو بہت ہوئی ہیں لیکن کوئی عملی اقدام نہیں اٹھائے گئے، ہم نے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ اگر وہ اب مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو وہ غیرمشروط نہیں ہو سکتے۔

طالبان سے مذاکرات کے لیے شرائط کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ صرف ان کے ہتھیار ڈالنے کی شرائط طے کرنے کے لیے مذاکرات پر تیار ہیں، ہم نے بہت مذاکرات کی بات کر کے دیکھ لی ہے، مذاکرات ہمیشہ ہماری پالیسی کا حصہ رہے ہیں لیکن ہمیں ایک طاقتور کی حیثیت سے بات کرنی ہوگی اور یہ حیثیت ہیں صرف دہشت گردوں کو شکست دے کر حاصل کی جاسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ شرائط یہ ہوں کہ جنگ بندی کی جائے اور طالبان ہتھیار پھینک دیں، وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ بات چیت کامیاب نہیں ہوتی، ہم ماضی میں بھی یہ تجربہ کر چکے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کا وزیرستان میں فوجی کارروائی کے امکان پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیر پرسن کا کہنا تھا کہ طالبان ہم سے لڑائی کر رہے ہیں، ہم پاکستان سے طالبان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ بلاول کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے خلاف کارروائی کے لیے اس وقت ملک میں اتفاقِ رائے موجود نہیں اور اسے دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے، ہم نے جو قومی اتفاقِ رائے قائم کیا تھا وہ ایسے سیاستدانوں نے جو کہتے ہیں کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے نے حماقتوں سے ضائع کر دیا گیا، یہ سیاستدان جان بوجھ کر قوم کو مغالطے میں ڈال رہے ہیں کیونکہ وہ ڈرے ہوئے ہیں اور بزدل ہیں۔

پاکستان کا وزیراعظم بننے کے سوال پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ان کا مشن پاکستان کا وزیراعظم بننا نہیں بلکہ اس نظریے کو کامیاب بنانا ہے کہ تمام امن اور ترقی پسند قوتیں متحد ہو کر کام کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی توجہ 2018 کے انتخابات پر ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ انہیں اونچے درجے کی سیاست میں انھیں ضمنی انتخابات میں پیراشوٹ کیا جائے۔

بلاول کا کہنا تھا کہ یہ بات اب غیر متعلقہ ہے کہ پاکستان ان کے سیاست کرنے کے لیے محفوظ ہے یا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے اور کم از کم ان کے خلاف آواز تو اٹھانی ہے، میری جان کو اس وقت شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ میں اس وقت واحد سیاستدان ہوں جو علی الاعلان تحریکِ طالبان پر نام لے کر تنقید کر رہا ہے اور باقی سیاستدانوں کے پاس وہ کچھ نہ کہنے کے لیے کوئی بہانہ باقی نہیں رہا جو میں کہہ رہا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔