اور کورونا ہوتا ہے...

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  جمعـء 27 اگست 2021
ویکسین کے باوجود بھی کورونا کا انفیکشن کیوں اور کیسے ہوگیا؟ (فوٹو: فائل)

ویکسین کے باوجود بھی کورونا کا انفیکشن کیوں اور کیسے ہوگیا؟ (فوٹو: فائل)

اپنے کسی پچھلے مضمون میں ازراہِ تفنن کورونا کی فوج کے جنرلز کا ذکر کیا کردیا کہ انھوں نے تو مذاق دل پر ہی لے لیا اور ایک اسپیشل کمانڈو یونٹ بدلہ لینے کی غرض سے روانہ کردیا۔

ہماری یونیورسٹی میں صوبے کی سب سے بڑی کورونا ٹیسٹنگ لیب ہے، جہاں فیکلٹی ممبرز (بشمول راقم الحروف) جز وقتی بنیادوں پر ٹیسٹنگ کےلیے اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ ایسے عجیب اتفاقات ہوجاتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا یہ ہوا کیا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ 9 اگست کی شب ہماری ٹیم لیڈ کا مجھے میسیج موصول ہوا کہ کیا میں نے کورونا کا ٹیسٹ کروایا ہے؟ میرا جواب نفی میں تھا۔ ’رات گئی، بات گئی‘ والا معاملہ ہوگیا۔ اگلی صبح نہا دھو کر ناشتہ کیا تو کچھ کچھ بخار کی علامات محسوس ہوئیں۔ دل میں رات والے میسیج کی بابت تھوڑی تشویش پیدا ہوئی کہ کہیں خدانخواستہ لیب میں تو کورونا کا انفیکشن نہیں پھیل گیا جس کے باعث سب کو ٹیسٹ کروانے کو کہا جارہا ہے؟ لیکن چونکہ سونگھنے اور چکھنے کی حسیں ٹھیک کام کررہی تھیں، لہٰذا دل کو تسلی دی اور احتیاطاً ایک عدد سوالیہ میسیج ٹیم لیڈ کو بھی کردیا، یہ جاننے کےلیے کہ انھوں نے کس غرض سے میرے کورونا ٹیسٹ کا پوچھا تھا۔ کچھ دیر میں ان کا جواب آیا، جس میں ابراہیم نامی ایک ڈاکٹر کی کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ منسلک تھی، جو کہ پازیٹو تھی۔ اب معاملے کی کچھ سمجھ آئی کہ ایک جیسے نام کی وجہ سے یہ سمجھا گیا کہ شاید مجھے کورونا ہوگیا ہے۔ اپنی بے جا تشویش کو بھی تھوڑا قابو میں کیا اور بخار کےلیے پیناڈول کا استعمال شروع کردیا کہ گلے میں تھوڑی تکلیف محسوس ہونے لگی تھی۔

اگلے دن بخار کی شدت میں کچھ اضافہ ہوا تو اینٹی بائیوٹک شروع کردی، لیکن اگلے تین دن نہ تو اینٹی بائیوٹک کا کوئی اثر ہوا اور نہ ہی پیناڈول کا اور بخار کی شدت مستقلاً 101-102 ڈگری کے درمیان رہی۔ میرے بخار کے دوران ہی چوتھے روز گھر والوں کو بھی بخار ہوگیا۔ اب کی بار ماتھا زیادہ شدت کے ساتھ ٹھنکنا ہی تھا۔ فوری طور پر اپنی لیب رابطہ کیا، ٹیسٹ کےلیے سیمپل لیے گئے اور سب گھر والوں کا کورونا ٹیسٹ ہوا۔ اور چند گھنٹوں میں اطلاع آگئی کہ تمام تر گھر والے کورونا میں مبتلا ہیں۔ یہ اطلاع ملنے کے فوراً بعد اپنے ایک اور ساتھی کو ان سیمپلز کی سیکونسنگ کا کہا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ہمیں ہونے والا کورونا وائرس کون سی قبیل (ویریئنٹ) سے تعلق رکھتا ہے۔

کورونا کا پتہ چلنے کے بعد پہلا کام تو یہ کیا کہ اپنے ایک میڈیکل پریکٹسنگ کولیگ کے ساتھ مشورہ کیا اور انھوں نے جو جو اضافی ٹیسٹس کروانے کو کہا ان کا انتظام کیا گیا، جن میں سینے کا ایکسرے سب سے اہم تھا۔ آکسیجن لیول کی پیمائش کا آلہ پلس آکسی میٹر وغیرہ لیا اور فوری طور پر سب گھر والوں کی آکسیجن دیکھی جانے لگی۔ باقی گھر والوں کے مقابلے میں میری علامات نسبتاً زیادہ سنگین تھیں کہ بخار کا کوئی توڑ نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس وقت تک مجھے بلامبالغہ کوئی 4 پلتے پیناڈول کے کھلائے جاچکے تھے اور اب ساتھ ساتھ سانس لینے میں بھی تھوڑی دشواری محسوس ہونے لگی تھی۔ ایسی صورتحال میں اسٹیروئیڈز Steroids کا استعمال شروع کردیا گیا اور ہنگامی بنیادوں پر آکسیجن کا انتظام بھی ہوگیا۔ ہمارے کولیگ نے کوئی ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ادویات تجویز کیں جو کہ وہ اپنے کورونا کے مریضوں کو دیتے رہے ہیں۔

میں یہاں ایک بھی دوا کا نام محض اس لیے نہیں لکھ رہا ہوں کہ ہر مریض کی علامات اور اس کے علاج کی ضروریات دوسرے مریض سے مختلف ہوسکتی اور ہوتی ہیں۔ میرے اور میرے گھر والوں کی ہی مثال لے لیجئے۔ لہٰذا خود سے تو کوئی دوا کسی صورت نہیں لینی چاہیے اور وہ بھی کورونا جیسے حالات میں تو بالکل بھی نہیں۔ دواؤں کے حوالے سے احتیاط کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ میرے کیس میں معالج کے سامنے دو معاملات تھے، اول بخار کی شدت کو کنٹرول کرنا جو کہ ہمارے امیون سسٹم کا ایک نتیجہ ہے کہ ہمارا جسم وائرس کو افزائش سے روکنے کےلیے اپنا درجہ حرارت بڑھا لیتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جیسے جیسے درجہ حرارت یا بخار بڑھتا ہے ویسے ویسے ہمارے جسم (اس کیس میں میرے پھیپڑوں) کا بھی نقصان ہوتا جاتا ہے۔ اور دوسرا پہلو ہمارے امیون سسٹم کو وائرس کے مقابلے میں مضبوط اور موثر رکھنا بھی ضروری ہے کہ وائرس کو کھل کھیلنے کا موقع بھی نہ ملے اور اس کی جلد از جلد چھٹی کروائی جاسکے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اپنے مریض کے علاج کے دوران ایک معالج کو کس تنی ہوئی رسی پر سے گزرنا پڑتا ہے۔

 

 

ویکسین کے باوجود کورونا

میں اپنی تحاریر و گفت و شنید، حتیٰ کہ عام ملاقاتوں میں بھی ویکسین کا بڑا شدید پرچارک رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ نتیجتاً اب جب کہ مجھے کورونا انفیکشن ہوا تو جو سوال مجھ سے سب سے زیادہ پوچھا گیا وہ ظاہر ہے کہ ویکسین کی افادیت کے حوالے سے ہی تھا۔ تمام کے تمام سوال ایک ہی طرح کے پیٹرن پر پوچھے گئے۔ سب سے پہلے دوست احباب نے صحت دریافت کی، ہر قسم کی مدد کی یقین دہانی کروائی، اور پھر گھما پھرا کر یہ سوال کہ تم نے ویکسین لگوائی تھی یا نہیں؟ اور اگلے مرحلے میں کہ ویکسین کے باوجود بھی کورونا کا انفیکشن کیوں اور کیسے ہوگیا؟

اس سوال کا ابتدا میں میرے پاس کوئی خاص جواب نہیں تھا، کیونکہ ایک تو بیماری اپنی شدت پر تھی اور اوپر سے سانس میں دشواری نے کافی مشکلات پیدا کر رکھی تھیں۔ ایک دو دوستوں کو تو میں نے اس سوال کا سرے سے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔

خیر آئیے اس سوال کا جواب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ویکسین لگوانے کے باوجود بھی مجھے اور میرے گھر والوں کو انفیکشن کیونکر ہوا۔ پہلی بات تو یہ کہ الحمدللہ میرے تمام گھر والے مکمل طور پر ویکسینیٹڈ ہیں۔ مجھے اور میری والدہ کو سائنوفام ویکسین لگی ہوئی ہے جبکہ باقی گھر والوں کو سائنوویک۔ اگرچہ عام طور پر ان ویکسینز کو چائینیز ویکسینز کہہ کر ان کی افادیت مغربی ویکسینز (موڈرنا، فائزر وغیرہ) کے مقابلے میں کم تر سمجھی جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ سمجھ لیجئے ہم چار افراد میں سے صرف ایک شخص یعنی مجھے بیماری کی علامات ظاہر ہوئیں (جو کہ عمومی طور پر مردوں میں ویسے بھی تھوڑی شدید ہی دیکھی گئی ہیں)۔

اپنے پچھلے چار اقساط پر مشتمل مضمون میں، میں نے انسان اور وائرس کے درمیان جاری اس لڑائی کی بابت بات کی تھی کہ کیسے ایک جانب وائرس خود کو ہمارے مدافعتی نظام سے بچانے کی تگ و دو میں مشغول ہے تو دوسری جانب ہمارا مدافعتی نظام وائرس کو ہر قدم ہر مرحلے پر روکنے میں سرگرداں۔

اس کی تفصیل آپ یہاں سے پڑھ سکتے ہیں: میوٹیشنز، کورونا وائرس اور ڈارون

اس مستقل لڑائی کے نتیجے میں جب وائرس کا داؤ لگ جاتا ہے تو وہ ایک نئی قسم کی شکل دھار کر سامنے آجاتا ہے۔ اب وہ ڈیلٹا قسم ہو یا لمبڈا، اس عمل کو ہم پہلے ہی سمجھ چکے ہیں لہٰذا اب مزید تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ وائرس کی کامیابی تو نئی قسم کی شکل میں سامنے آہی جاتی ہے لیکن ہمارے مدافعتی نظام کی کامیابی کا ہمیں عام طور پر نہیں پتہ چلتا۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب ہماری نفسیات میں پوشیدہ ہے۔ ہم ٹھیک ٹھاک تھے، کوئی بیماری کی علامت نہیں محسوس ہوئی۔ تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہمیں کوئی وائرس لگا بھی ہے یا نہیں، جب تک کہ کچھ خاص ٹیسٹ نہ کروا لیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس وقت دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی بھی فارماسیوٹیکل کمپنی کورونا کے علاج کی کوئی دوا ایجاد کرلے تو اس کی مقبولیت ویکسین کے مقابلے میں سیکڑوں گنا زیادہ ہوگی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بیماری کے دوران ہم اپنی حِسوں کی مدد سے بیماری کی شدت کو محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم دنیا بھر کی دولت بھی خرچ کردینے کو تیار ہوتے ہیں اپنی اور اپنے گھر والوں کی صحتیابی و تندرستی کےلیے۔ جبکہ ویکسین ہمیں اس بیماری والی کیفیت تک جانے نہیں دیتی اسی لیے اس کی قدر ہمیں کبھی صحیح طور پر نہیں ہوسکتی ہے۔

خیر واپس چلتے ہیں اپنے موضوع کی جانب کہ مجھے کورونا کی علامات باقی گھر والوں کے مقابلے میں تھوڑی شدت کے ساتھ ظاہر ہوئیں۔ میں نے اپنا اور اپنے گھر والوں کے سینے کے ایکس ریز کا خود مشاہدہ کیا ہے اور یہ جان کر میری تسلی کی کوئی حد نہیں تھی کہ ہم چاروں افراد میں سے کسی کو بھی کورونا کا سنگین اور پھیلا ہوا انفیکشن نہیں تھا۔ ہاں معمولی سا انفیکشن پھیپھڑوں میں ضرور تھا کہ مجھے 5-6 ایام کےلیے اپنے گھر میں ہی آکسیجن لگوا کر صاحبِ فراش ہونا پڑا۔ نہ تو آئی سی یو کی کوئی ضرورت پڑی اور نہ ہی وینٹی لیٹر کی۔ یعنی 75 فیصد افراد کو تو بالکل ہی کوئی خاص فرق نہیں پڑا، جبکہ ایک فرد کو چند ایام کےلیے معمولی سی علامات ظاہر ہوئیں۔

اس کے مقابلے میں میری بیماری کے دوران ہی مجھے کچھ دوستوں کی جانب سے (نادانستگی میں ہی) ایسے احباب کی سیریس بیماری کی اطلاعات ملتی رہیں جنھوں نے آخری وقت تک ویکسین لگوانے سے انکار کیا اور نتیجے کے طور پر کوئی اس وقت آئی سی یو میں ایڈمٹ ہے تو کوئی وینٹی لیٹر پر، جبکہ ان تمام افراد کے گھر والے ایک طرف تو ان کی بیماری کی پریشانی کا شکار ہیں تو دوسری جانب وہ خود بھی ویکسینیٹڈ نہ ہونے کے باعث نہ تو ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنا بچاؤ۔ اور ان سب کے مقابلے میں، میں اور میرے گھر والے اللہ کے نہایت فضل و کرم کے ساتھ اپنے گھر میں موجود ہیں۔

اب فیصلہ آپ خود کیجئے کہ کیا ویکسین لگا کر مجھے اور میرے گھر والوں کو کوئی خاص فائدہ ہوا یا نہیں؟

 

 

کورونا کے علاج کے لئے ٹوٹکے؟

ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک دفعہ کسی کاشتکار کی بھینس بیمار ہوگئی۔ اس نے کسی سے بھینس کی بیماری کی علامات بتا کر پوچھا تو اسے پتہ چلا کہ گاؤں کے نمبردار کی بھینس کو بھی یہی تکلیف تھی اور اس نے اپنی بھینس کو مٹی کا تیل پلایا تھا۔ کاشتکار نے فوراً سے پیشتر مٹی کے تیل کا انتظام کیا اور بھینس کو پلا دیا۔ نتیجے میں بھینس مرگئی اور وہ روتا دھوتا نمبردار کے پاس پہنچا۔ اسے سارا ماجرا بتایا اور ساتھ ہی اپنی بھینس کے مرنے کی بھی اطلاع دی۔ آگے سے نمبردار نے بھی اسے یہی بتایا کہ اس کی بھینس کا بھی مٹی کا تیل پینے کے بعد یہی حال ہوا تھا۔

یہ لطیفہ ہمارے قومی مزاج کے حوالے سے بالکل صادق آتا ہے۔ خدا جانے ہمیں کیوں دواؤں سے چڑ ہے کہ جہاں ہمیں کوئی معمولی سا بھی ٹونا ٹوٹکا بتا دے ہم اسے اعتقاد کے ساتھ تسلیم کرلیتے ہیں، گویا وہ خاص ہمارے لیے ہی بنایا گیا ہو۔ کورونا کے اس تمام تر ہنگامے میں ایک چیز شروع سے متواتر ہے اور وہ ٹوٹکوں کی بھرمار۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے ٹوٹکوں سے کوئی خاص دشمنی یا نفرت ہے۔ جی نہیں بالکل بھی نہیں، بلکہ اس وقت میرے کچھ تحقیق میں مصروف شاگرد روایتی ٹوٹکوں میں سے گنٹھیا اور جوڑوں کے درد کے علاج پر کام کر رہے ہیں۔ یعنی مجھے ٹوٹکوں سے کوئی براہِ راست پرخاش نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ مستند طبی ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر ان ٹوٹکوں کو ہی اصل منتہائے نظر تصور کرلیتے ہیں۔

ٹوٹکوں کے حوالے سے سب سے پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہونی چاہیے کہ آیا یہ مستند بھی ہیں یا نہیں۔ صنعا مکھی والے ٹوٹکے کی طرح نہیں جہاں ایک واٹس ایپ وائس میسیج کیا آگیا اور پوری قوم پاگل ہوکر اس کے پیچھے پڑگئی۔ حتیٰ کہ قومی طب کونسل کو وضاحتیں جاری کرنا پڑیں مگر اس سے بھی کسی کو کوئی اثر نہیں پڑا۔ یقین کیجیے ایسے کسی ٹوٹکے کو پرکھنا تو دور کی بات آپ کے پاس اس میسیج کی بھی تصدیق کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے کہ آپ جان سکیں جو شخص آپ کو یہ میسیج ریکارڈ کروا کے بھیج رہا ہے وہ مسلمان بھی ہے یا نہیں؟

اس کورونا کے دوران مجھے تو بہت زیادہ ٹوٹکے نہیں بھیجے گئے، کیونکہ اپنی عادت کے تحت میں ان ٹوٹکوں پر جب تک پوری جراح نہ کرلوں مجھے تسلی نہیں ہوتی اور ٹوٹکا بھیجنے والا، جو محض ایک وقتی احسان میرے سر منڈھنا چاہ رہا ہوتا ہے میرے سوالات کی عموماً تاب نہیں لاپاتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں زیادہ ٹوٹکوں سے محفوظ رہا۔ لیکن اس دوران میں نے دو ٹوٹکوں پر عمل ضرور کیا ہے۔ یہ بات لازمی جان رکھیے کہ ان ٹوٹکوں پر عمل کرنے سے پہلے میں نے اپنے معالج سے مشورہ اور رہنمائی لازمی لی تھی اور ایسا نہیں کہ جو کسی نے کہہ دیا اس پر آنکھیں بند کرکے آمنا و صدقنا پڑھ لیا۔

پہلا ٹوٹکا بھاپ لینے کا تھا۔ جیسا کہ اوپر بتا چکا ہوں کہ مجھے آکسیجن کی کمی کا مسئلہ درپیش آیا اور کچھ ایام کےلیے مجھے آکسیجن سپلائی بھی دی گئی۔ اسی دوران کچھ احباب نے بھاپ لینے کا مشورہ دیا، جس کی تائید معالج سے بھی ہوگئی تو پھر دن میں تین سے چار بار بھاپ لینے کا انتظام کیا گیا۔ مستقل علاج، آکسیجن کی متواتر سپلائی اور ساتھ ساتھ بھاپ لینے سے پھیپھڑوں پر اچھا اثر پڑا اور کچھ دنوں میں ہی میری سانس کی دشواری میں بہتری آنے لگی۔ دوسرا ٹوٹکا جو میں نے استعمال کیا، وہ تھا شہد اور کلونجی کا استعمال۔ یہ مشورہ ایک دوست نے دیا جو کہ خود فارماکولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور کچھ عرصہ قبل وہ اور ان کے گھر والے بھی کورونا سے گزر چکے ہیں۔ اس دوران انھوں نے اس ٹوٹکے پر خود بھی عمل کیا تھا۔

ایک سوال جو آپ سب کے ذہنوں میں لازمی آنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ مجھے ٹوٹکوں سے کیا مسئلہ ہے؟ کیوں میں ان کا گویا ایک طرح سے مخالف ہوں، اور کوئی وجہ تو ہونی چاہیے اس ’مخاصمت‘ کی؟ بطور انسان ہم پر بہت سارے فرائض اور حقوق ہیں جن میں ہمارے گھر والوں سے لے کر دوست احباب سب شامل ہیں، لیکن ان سب میں سب سے بڑا حق ہم سب پر ہماری اپنی جانوں کا ہے۔ یہ جسم، صحت و تندرستی ہمیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کیے گئے ہیں تاکہ ہم اس کا شکر ادا کرسکیں، جیسا اس کا حکم ہے۔ جب ہمیں ہر طرح کی الٹی سیدھی چیزیں کھانے کی اجازت نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے حلال و طیب رزق مقرر فرمایا ہے تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہر طرح کا الٹا سیدھا ٹوٹکا بھی ہمارے لیے فائدہ مند ہوجائے؟ ایک بہت غلط العام تصور ہمارے ہاں راسخ ہوگیا ہے کہ اگر فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں ہوتا۔ یہ بالکل اور صریحاً غلط بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص تناسب کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس میں ذرا سی بھی چھیڑ چھاڑ کسی بھی بیمار کےلیے سنگین نتائج کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اور کچھ نہیں تو پانی سے زیادہ محفوظ کوئی شے نہیں ہے۔ لیکن یہ جان لیجئے کہ اگر آپ تقریباً 7 لیٹر پانی کچھ گھنٹوں میں پی لیں تو اس کا اثر ہمارے دماغ کے خلیات پر پڑے گا اور ان میں پانی کی کثرت سے سوجھنے کا عمل ان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر چھوڑے گا۔ اور اگر آپ کو اس سے بھی زیادہ پیاس لگ رہی ہو تو پھر یہی پانی ہمارے جسم کے باقی کے تمام کیمیائی معاملات میں دخل در معقولات کا باعث بن کر جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ یعنی پانی جیسی غیر مضر چیز بھی جسے ہم روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں، اس کے استعمال میں بے احتیاطی خطرناک ہوسکتی ہے۔

لہٰذا آپ سب سے میری ایک ہی گزارش ہے کہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے عزیز و اقارب سبھی کےلیے ایسے کسی ٹوٹکے کا مشورہ ہرگز نہ قبول کیجئے اور نہ ہی دیجئے جو آپ نے محض سن رکھا ہو۔ مشورہ وہ دیجئے جس پر آپ نے خود عمل کیا ہوا ہو اور آپ کو فائدہ بھی ہوا ہو۔ ورنہ کم از کم ایسا مشورہ دیجئے کہ جو آپ نے اپنی آنکھوں سے اپنے مشاہدے سے اس پر عمل ہوتا اور فائدہ ملتا دیکھا ہو۔

کیا آپ کی یا آپ کے عزیز کی صحت کی اہمیت محض ایک واٹس ایپ میسیج کے برابر ہے؟ یا آپ صرف ایک وقتی احسان کرنا چاہ رہے ہیں تاکہ اس سے بڑھ کر آپ کو کچھ اور نہ کرنا پڑے۔ ذرا سوچیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔