طالبان کا نظام حکومت

سید عاصم محمود  اتوار 29 اگست 2021
طالبان جیسے ہی بہ سرعت افغان صوبے فتح کرنے لگے،مغربی میڈیا میں ہلچل مچ گئی۔ فوٹو : فائل

طالبان جیسے ہی بہ سرعت افغان صوبے فتح کرنے لگے،مغربی میڈیا میں ہلچل مچ گئی۔ فوٹو : فائل

بیس سال کی طویل ،صبر آزما اور مشکلات سے پُر جدوجہد کے بعد افغان طالبان آخر فتح پانے میں کامیاب رہے۔

معمولی ہتھیار رکھتے ہوئے اپنے ایمان وعزم اور ہمت واستقلال سے عالمی سپر پاور کو شکست دے کر انھوں نے تاریخ عزیمت کا نیا باب رقم کر ڈالا۔لیکن اب ان کا ایک اور بلکہ اصل امتحان شروع ہو گا…یہ کہ پونے چار کروڑ افغان عوام کو غربت،جہالت ،بیماری اور دیگر مسائل سے نجات دلا کر نہ صرف ان کا معیار زندگی بلند کیا جائے بلکہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ اقوام عالم میں افغان قوم کو باوقار اور خوددار مقام حاصل ہو سکے۔اس سلسلے میں گڈ گورننس لانا اور بحالی معیشت بڑے چیلنج ہیں۔

مغربی میڈیا کا منفی پروپیگنڈا

افغان عوام 1973ء سے خانہ جنگی اور جنگوں کی لپیٹ میں ہیں جنھوں نے معاشرے کا تاروپود ہلا ڈالا۔طالبان افغان معاشرے کی تعمیر نو کرنے کی اہلیت و طاقت رکھتے ہیں ۔عام خیال یہ ہے کہ وہ کرپٹ ،لالچی اور بے ایمان نہیں اور عام آدمی کی تکالیف و مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔اہم بات یہ کہ طالبان بنیادی طور پہ عوام کی حمایت ہی سے برسراقتدار آئے۔افغان عوام سابقہ کرپٹ حکومت سے تنگ آ چکے تھے۔لہذا اب طالبان کا فرض ہے کہ وہ عوام کی ناگفتہ بہ حالت دور کرنے والے ٹھوس منصوبے تیار کریں۔

طالبان جیسے ہی بہ سرعت افغان صوبے فتح کرنے لگے،مغربی میڈیا میں ہلچل مچ گئی۔ان کے خلاف ایسے مخالفانہ اور منفی مضامین کا سیلاب امڈ آیا جن میں انھیں سخت گیر،خواتین کے حقوق سلب کرنے والا،اجڈ حتی کہ ظالم و جابر کے روپ میں پیش کیا گیا۔

مغربی میڈیا کی پوری کوشش رہی کہ یہ ظاہر کرے،ہزارہا افغان مردوزن طالبان کے ڈر سے افغانستان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں…حالانکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بھگوڑوں میں ان افغانوں کی کثرت ہو جو سابقہ کرپٹ حکومت کا حصّہ بنے وہ رقم لوٹتے اور اپنی تجوریاں بھرتے رہے جو افغان عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں پہ خرچ ہونی تھی۔اب وہ قانون کی گرفت میں آنے کے خوف سے فرار ہونا چاہتے تھے۔طالبان کو بہرحال اسلامی اصولوں پہ چلتے ہوئے اپنے قول وفعل سے مغربی میڈیا کا منفی وزہریلا پروپیگنڈا باطل ثابت کرنا ہو گا۔امریکا اور یورپی ممالک نے افغانستان کے ذخائر زرمبادلہ منجمند اور امداد روک کر طالبان کو معاشی مسائل میں مبتلا کرنے کا نیا وار کیا ہے۔

نظام ارتقا پذیر تھا کہ…

کئی ماہرین یہ دعوی کرتے ہیںکہ طالبان نے اپنے پہلے دور حکومت (1996ء۔2001 ء ) میں بعض ایسے اقدامات کیے جو متنازع اور کئی علما کے نزدیک انتہا پسندی کی سمت جھکے قرار پائے۔ان علما کے خیال میں ایسا اس لیے ہوا کہ طالبان نے ’’پشتونوولی‘‘کو بھی اپنے نظام حکومت کا حصّہ بنا لیا اور اسے عملی شکل دینے لگے۔پشتونوولی سے مراد روزمرہ زندگی میں پشتونوں کی وہ رسوم ورواج ،روایات اور عادات وخصائل ہیں جو ضروری نہیں اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوں۔یہ رواج مقامی سطح پر ارتقا پذیر ہوئے اور پشتون تہذیب وثقافت کا حصّہ بن گئے۔ بہرحال انھیں اپنانے سے طالبان اعتدال پسندی سے کچھ دور ہٹ گئے جو دین اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔

ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ تب طالبان تحریک کا مرکز ملا محمد عمر کی ذات بن گئی تھی۔ ملا عمر نے مدارس میں ضرور تعلیم پائی تھی مگر وہ سکّہ بند عالم دین نہ تھے۔ابھی گاؤں کی مسجد کے امام تھے کہ افغان معاشرے میں پھیلتے ظلم و ناانصافی نے انھیں ظالموں کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا۔انھیں پھر مسلسل مخالفین سے نبردآزما ہونا پڑا اور حکومت کرتے ہوئے سخت فیصلے کرنا پڑے۔اسی لیے طالبان لیڈروں کو بہت کم وقت ملا کہ اپنے فیصلوں کو قرآن وحدیث کی روشنی میں جانچ پرکھ سکیں،خصوصاً ایسے فیصلے جو معاشرت اور حکومت و شہریوں کے باہمی معاملات سے تعلق رکھتے تھے۔ان کا نظام حکومت ابھی ارتقا پذیر تھا کہ امریکا نے اسے تہس نہس کر ڈالا۔

تبدیلی کا جنم

طالبان کے موجودہ امیر، ہبت اللہ اخوندزادہ مستند عالم دین ہیں۔شیخ الحدیث کہلاتے ہیں۔ملا عمر نے انھیں قاضی القضا اور قندھار میں سب سے بڑے مدرسے کا ناظم مقرر کیا تھا۔اس امر سے عیاں ہے کہ وہ پچھلے طالبان امرا کی نسبت قرآن و حدیث کے رموز زیادہ گہرائی و گیرائی سے جانتے ہیں۔یہی وجہ ہے،پچھلے پانچ برس سے کئی علاقوں میں طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم اور کام کاج کرتی خواتین (ورکنگ وومن)کے معاملے میں خاصی لچک دکھائی ہے۔نیز دیگر معاملات میں بھی وہ پہلے کی طرح سخت گیر اور بے لچک نہیں رہے۔کوئی انھیں قائل کر لے تو وہ اپنے فیصلے تبدیل بھی کر لیتے ہیں۔یہ تبدیلی جنم لینے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہبت اللہ اخوندزادہ شریعت اسلامیہ کی حقیقی روح سے آگاہ ہیں جو سختی وتندی نہیں نرمی واعتدال پسندی پہ استوار ہے۔

 مخصوص نظام حکومت

حقائق سے آشکارا ہے کہ مسائل ومشکلات میں پھنسے کروڑوں افغانوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے طالبان کو مخصوص نظام حکومت اختیار کرنا ہو گا۔وجہ یہ کہ افغانستان میں چار بڑے اور کئی چھوٹے نسلی گروہ آباد ہیں۔اور ان میں سے کوئی بھی فیصلہ کن برتری نہیں رکھتا۔جدید اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں39  تا 49 فیصد پشتون،25 فیصد تاجیک،12 تا 19 فیصد ہزارہ ،6 تا 8 فیصد ازبک اور بقیہ چھوٹے گروہ آباد ہیں۔اس ڈیٹا سے عیاں ہے کہ افغانستان ایک کثیر النسل مملکت ہے۔اور ہر نسلی گروہ اپنی رسوم ورواج،عادات وخصائل،مذہبی اصول اور روایات کا مخصوص سیٹ رکھتا ہے۔

طالبان کی اکثریت سب سے بڑے نسلی گروہ،پشتون سے تعلق رکھتی ہے۔مگر وہ اپنے اصول وقوانین زبردستی دوسرے نسلی گروہوں پہ نہیں ٹھونس سکتے۔یہ طرزعمل اول تو غیر اسلامی ہے۔دوسرے اس عمل سے افغانستان میں خانہ جنگی کا نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔یوں طالبان کی فتح کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکیں گے کیونکہ وہ پھر قتل وغارت کی لپیٹ میں ہو گا۔نہ معیشت ترقی کرے گی اور نہ معاشرے کو استحکام و امن ملے گا۔عوام کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی جنم نہیں لے گی۔

اس تباہ کن منظرنامے سے بچاؤ کا واحد راستہ یہ ہے کہ طالبان اپنے نظام حکومت کی بنیاد اسلامی طرز حکمرانی کے دو اصولوں پہ رکھ دیں۔طالبان کی شرائط کے عین مطابق یہ اصول انسان ساختہ نہیں بلکہ قرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں۔پہلا اصول ہے ’’شوریٰ‘‘اور دوسرا ہے ’’نرمی و درگزر‘‘۔شوریٰ کے لغوی معنی ہیں: مشورہ، صلاح۔ قرآن کریم کی تریپنویں سورہ کا نام بھی الشوری ہے۔

 اسلامی حکومت کا بنیادی وصف

طالبان جمہوریت،بادشاہت،آمریت جیسے نظام ہائے حکومت پر یقین نہیں رکھتے اور افغانستان میں شریعت اسلامی کا دور دورہ چاہتے ہیں۔انھیں علم ہو گا کہ قران وسنت کی رو سے شوری اسلامی حکومت کا اہم و بنیادی وصف ہے۔خاص طور پر افغانستان کے معاملے میں تو یہ زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ صرف شوری کا اصول ہی تمام افغان نسل گروہوں کو نئی حکومت میں نمائندگی دے کر انھیں مطمئن وپُرسکون کر سکے گا۔طالبان نے شوری کا اصول صدق دل سے اپنا لیا تو صدیوں سے چلے آ رہے نسلی گروہوں کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔ پشتونوولی ہو یا رسوم ورواج کا کوئی اور مقامی مجموعہ،تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ افغان نسلی گرہوں کے مابین موجود مسائل حل نہیں کر سکے۔

امریکا ونیٹو کی کٹھ پتلی کابل حکومت نے2004ء میں ایک آئین تشکیل دیا تھا تاکہ تمام نسلی گروہوں کو حکومت میں نمائندگی ملنے سے اختلافات دور ہو جائیں۔مگر اس آئین میں صدر کو طاقت کل بنا دیا گیا۔حتی کہ ایک صوبے میں پولیس انسپکٹر کا تقرر بھی صدارتی محل کرنے لگا۔صدر کی ذات میں اختیارات کے ارتکاز نے آئین کو بے اثر بنا دیا اور وہ نسلی گروہوں کے اختلاف ختم نہیں کر سکا۔یہی وجہ ہے،2019ء میں آخری صدارتی الیکشن کے بعد امریکا کو تاجیک رہنما،عبداللہ عبداللہ کی اشک شوئی کے لیے ایک نیا عہدہ (چیف ایگزیکٹیو)تخلیق کرنا پڑا ورنہ کابل حکومت اسی وقت ڈھے جاتی۔اگر طالبان نے بلا شرکت غیرے افغانستان پہ حکمرانی کرنے کی کوشش کی تو جلد یا بدیر تاجیک و ہزارہ کے علاقوں میں اسے وسیع پیمانے پہ مزاحمت و بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس ناخوشگوار اور تباہی کی سمت لے جانے والی صورت حال سے بچنے کا بہترین راستہ یہی ہے کہ اصول شوری کو نیک نیتی سے اپنا لیا جائے۔ یوں معاشی، سیاسی و معاشرتی ترقی و خوشحالی کا دور جنم لے گا۔وجہ یہی کہ شوری کی بدولت ایک ملک میں بستے تمام نسلی گروہ بخیر خوبی اپنے دیرینہ مسائل حل کر سکتے ہیں۔مثلاً یہ کہ حکومت کیسے کی جائے،وسائل کی تقسیم کیونکر ہو،مذہبی اختلاف کو کیسے پس پشت ڈالا جائے وغیرہ۔

باہمی مشورہ سازی
تاریخ انسانیت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زمانہ قدیم میں بعض بادشاہ اپنے وزیروں مشیروں سے مختلف سرکاری معاملات میں مشورے کرتے تھے۔مگر بیشتر بادشاہوں کا انداز حکمرانی آمرانہ تھا۔ایک فیصلہ کر لیا،چاہے وہ غلط ہی ہو تب بھی اس پہ عمل کیا جاتا۔نبی کریم ﷺ پہلے حکمران ہیں جنھوں نے مشاورت کو طرز حکمرانی کا اہم جزو بنا دیا۔وجہ یہ کہ اللہ تعالی نے اپنے محبوب رسول ﷺ پہ وحی نازل فرمائی کہ معاملات میں احباب گرامی سے صلاح مشورہ فرما لیا کریں۔رب کائنات سورہ الشوری آیت 38میں رسول اللہﷺ اور سبھی مسلمانوں کو ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک دوسرے سے مشورے کر کے اپنے معاملات انجام دیں۔

اس آیت قرانی سے واضح ہے کہ مسلمانوں کا سیاسی و معاشرتی نظام طاقت،اثرورسوخ،دولت،خاندانی برتری،انا جیسی دنیاوی باتوںپہ استوار نہیں بلکہ اہل ایمان کی باہمی مشورہ سازی پہ منحضر ہے۔اور اس عمل میں ایک عام مسلمان بھی حصّہ لے سکتا ہے۔قریش نے مکہ مکرمہ اور دیگر عرب علاقوں میں اپنی آمریت قائم کر رکھی تھی۔اس آیت کے ذریعے سرداران ِقریش کو متنبہ کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ عنقریب ایسا نظام حکومت تشکیل دیں گے جس میں کمزور ومظلوم مسلمان بھی قانون کے سامنے طاقتور ترین اور امیر ترین شہریوں کے ہم پلّہ قرار پائیں گے۔یہ شورائی نظام حکومت آمریت و بادشاہت کا فاسد سسٹم ملیامیٹ کر ڈالے گا۔

مشورہ کرنے کی حکمت
اس کے بعد سورہ آل عمران آیت 159میں اللہ تعالی حضور اکرم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں’’:یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان (کفار ومنافقین)کے لیے نرم خو ہیں۔اگر آپ درشت گو اور سخت دل ہوتے تو تمھارے پاس سے لوگ منتشر ہو جاتے۔سو ان سے درگزر کرو۔ان کی مغفرت چاہو اور معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔‘‘گویا اس آیت کے ذریعے رسول اللہﷺ کو بتایا گیا کہ کفار و منافقین سے بھی مشورہ کیا جا سکتا ہے۔یہ آیت غزوہ احد کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔اس کے نزول کے بعد نبی کریمﷺ نے منافقین کے سردار،عبداللہ بن ابی سے بھی مشورہ فرمایا۔وہ مدینہ منورہ میں رہ کر لشکرِ مکہ کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔جب حضور اکرم ﷺ نے اس کا مشورہ تسلیم نہیں کیا تو وہ اپنے تین سو ساتھیوں کو لیے الگ ہو گیا۔کفارو منافقین سے صلاح مشورہ کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ یوں دلوں میں پوشیدہ ان کے اصل عزائم سامنے آ جاتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ اپنے تمام معاملات میں کسی سے صلاح مشورہ کرنے کے محتاج نہ تھے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ امرربی کے باعث آپﷺ خاص طور پر سیاسی وانتظامی معاملات میں صحابہ کرام سے مسلسل مشورے فرماتے تھے۔ابن ہشام نے اپنی سیرت میں آپﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے’’:اے لوگو!مجھے مشورہ دیا کرو۔‘‘اسی طرح جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے’’ :میں نے آنحضورﷺ کو تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مشورہ کرنے والا پایا۔‘‘

شوریٰ کی شان
حضوراکرم ﷺ نے اس طرح اپنے طرزعمل سے شوری کو اسلامی نظام حکومت ہی نہیں نظام حیات کا بھی بنیادی اصول بنا دیا۔ ’’کنزالاعمال‘‘ میں درج ہے کہ ایک بار حضرت علیؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:’’آپﷺ کے بعد اگر ایسا امر پیش آ جائے جس کے بارے میں قران پاک خاموش ہو اور سنت سے بھی کوئی اشارہ نہ ملے تو کیا کیا جائے؟‘‘آپﷺ نے فرمایا:’’لوگوں میں سے نیک وعبادت گذار علما کو جمع کر کے ان سے مشورہ کرنا اور باہمی طور پہ کوئی فیصلہ کرنا۔کسی فرد واحد کی رائے پہ صاد نہ کرنا۔‘‘

تاریخ اسلام سے عیاں ہے کہ مجلس شوری کا سب سے پہلا اور بڑا اجتماع حضور اکرمﷺ نے غزوہ بدر کے موقع پہ طلب فرمایا تھا۔اس وقت یہ امر درپیش تھا کہ کفار مکہ سے جنگ مدینہ منورہ میں رہ کر کی جائے یا باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہیے۔اسی طرح غزوہ بدر میں فتح پانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے قیدیوں سے سلوک کی بابت صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔حضرت ابوبکر صدیقؓ نے رائے دی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دئیے جائیں۔نبی کریم ﷺ نے یہ مشورہ قبول فرمایا تھا۔اسلامی تاریخ آشکارا کرتی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ہر اہم موقع پہ صحابہ کرام حتی کہ صحابیات اور امہات المومنین سے مشورہ فرمایا۔بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ اپنی رائے ترک فرما کر دوسرے کا مشورہ قبول فرما لیا۔یہ ہے شوری کی شان جسے قران وسنت نے اسلامی نظام حکومت کا وصف خاص بنا دیا۔اسی اصول سے سیاست ، معاشرت و فقہ کے دیگر اصولوں مثلاً اجماع،آزادی اور حقوق شریعہ نے بھی جنم لیا۔

’’عام مجلس شوری ‘‘
یہی وجہ ہے،خلفائے راشدین نے بھی مجلس شوری کی معاونت سے اپنا نظام حکومت نہایت کامیابی سے چلایا اور رعایا پروری کی ایسی مثالیںٕ پیش کیں جو رہتی دنیا تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہیں گی۔حضرت ابوبکر صدیقؓ صحابہ کرام سے تمام اہم امور پر صلاح مشورہ فرماتے تھے۔حضرت عمر فاروقؓ پہلے خلیفتہ الاسلام ہیں جنھوں نے عام لوگوں سے بھی مشاورت کا عمل جاری فرمایا۔ آپ اکثر ’’عام مجلس شوری ‘‘منعقد فرماتے تھے۔جبکہ ’’خاص مجلس شوری‘‘میں بزرگ وکبار صحابہ جیسے حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب،حضرت علیؓ،حضرت عثمانؓ بن عفان،حضرت زبیر ؓ،حضرت طلحہ ؓ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف شامل تھے۔

خلفائے راشدین اپنی خاص مجلس شوری کے ارکان کا انتخاب خود فرماتے تھے۔یہ مجلس خلیفہ کے اختیارات محدود کرنے کی مجاز نہ تھی۔اور ارکان کو یہ حق بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ خلیفہ کو اپنا مشورہ ماننے پر مجبور کر دیں۔خلیفہ اسلام فیصلے کرنے میں بااختیار اورآزاد تھے۔اگر انھیں مجلس شوری کی رائے پسند آتی تو اسے قبول فرما لیتے۔مشورہ پسند نہ آتا تو اسے رد فرما دیتے۔

خلیفہ کی بازپرس اور احتساب کی ذمے داری شریعت،خلیفہ کے ضمیر اور عوام الناس کے ذمے تھی جو ان کے ہاتھ پہ بیعت کرتے تھے۔حضرت عمر فاروقؓنے عام مجلس شوری منعقد کرنے سے عوام کو حکومتی معاملات میں مذید دخیل فرما لیا۔رفتہ رفتہ یہ اصول بن گیا کہ اگر کوئی خلیفہ اپنے حق سے تجاوز کرتا،اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نافرمان بن جاتا اور اسے اپنے رب اور ضمیر کے مواخذے کا کوئی خوف نہیں رہتا تو پھر عوام پہ فرض ہوجاتا کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔

عام مجلس شوری منعقد کرنے کا طریق یہ تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ مدینہ منورہ میں ہوتے تو مسجد نبوی میں لوگوںکو جمع فرما لیتے۔اگر بیرون شہر دورے پہ ہوتے تو مقامی مسجد میں اجتماع منعقد ہوتا۔وہ پھر مسئلہ مسلمانوں کے سامنے رکھ کر مشورے ورائے کے طالب ہوتے۔اس عام مجلس شوری میں ہر مسلم رائے دینے کا حق رکھتا۔اس موقع پر خلیفہ دوم بطور خاص نوجوانوں سے مشورہ طلب فرماتے۔آپ کا ارشاد تھا کہ ان کی عقل تیز ہوتی ہے۔جب عام مجلس شوری سے مسئلے کا حل نکل آتا تو آپ اسے اپنا لیتے۔مسئلہ حل نہ ہوتا تو پھر خاص مجلس شوری سے رجوع فرماتے۔بحث مباحثے کے بعد کوئی بہتر حل سامنے آ جاتا تو تب پُرسکون اور مطمئن ہو جاتے۔

حضرت عمر فاروقؓ کے نزدیک شوری نظام حکومت کی بنیاد تھی۔اس باعث آپ نے تمام علاقوں کے والیوں(گورنروں)اور انتظامیہ کے دیگر افسران کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ صلاح مشورے سے معاملات کا فیصلہ کریں۔جب حضرت ابوعبیدہ الجراحؓ جہاد کرنے عراق وشام روانہ ہونے لگے تو خلیفہ دوم نے ان سے فرمایا:’’رسول اللہﷺ کے صحابہ کی بات سننا اور ہر معاملے میں ان سے مشورے لینا۔فیصلہ کرنے میں عجلت نہ دکھانا کیونکہ خصوصاً میدان جنگ میں وہی کامیاب ہوتا ہے جس میں تحمل ہو اور وہ موقع سے فائدہ اٹھانا جانتا ہو۔‘‘خلیفہ دوم حکومت کے سبھی ذمے داران کو یہی ہدایت دیتے تھے ،چاہے وہ میدان جنگ جا رہے ہوں یا کسی علاقے کا انتظام سنبھلالنے۔

رہبری شوری
یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ طالبان بھی شوری کو اہمیت دیتے ہیں۔چناں چہ ان کے مابین صلاح مشورے کے باقاعدہ ادارے موجود ہیں۔شوری کا سب سے اعلی ادارہ ’’رہبری شوری‘‘کہلاتا ہے۔اسے کوئٹہ شوری بھی کہا جاتا ہے۔طالبان نے اعلان کیا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان اسی شوری کے زیرانتظام حکومت کرے گی۔مگر اس شوری میں ارکان کی اکثریت پشتون ہے۔موثر ومستحکم حکومت بنانے کے لیے طالبان کو رہبری شوری میں تاجیک،ہزارہ اور ازبکوں کے نمائندے بھی شامل کرنا ہوں گے۔اس مرکزی شوری کے علاوہ ’’پشاور شوری‘‘ اور ’’میراں شاہ شوری‘‘کے ذیلی مشاورتی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ان میں بھی بیشتر ارکان پشتون ہیں۔

طالبان میں فیصلہ سازی کا کام اسلامی نظام حکومت کے مطابق انجام پاتا ہے۔ چناں چہ امیر المونین ہی تمام سیاسی، معاشی، عسکری، معاشرتی اور مذہبی معاملات میں حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کے پھر تین نائبین یا نائب امیر ہیں:ملا عبدالغنی برادر،ملا یعقوب اور سراج الدین حقانی۔ملا عبدالغنی امور سیاسی میں امیر کی نیابت کرتے ہیں۔ملا یعقوب اور سراج الدین حقانی عسکری امور کے علاوہ مذہبی معاملات بھی سنبھالتے ہیں۔افغانستان میں امریکی پٹھو کابل حکومت کے خلاف حالیہ ’’بلٹس کریگ‘‘( Blitzkrieg )یعنی تیز رفتار جنگی کارروائی ملا محمد یعقوب اور سراج الدین حقانی کی سرکردگی ہی میں انجام پائی۔امیر اور ان کے نائبین ہر معاملے میں مجالس شوری سے مشورہ کرتے ہیں۔ان مجالس کے بعد طالبانی نظام حکومت میں وزرا کی کابینہ ، صوبوں کے والی(گورنر) اور صوبائی ملٹری کماندڑ آتے ہیں۔ہر کوئی اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرتا ہے۔

گڈ گورنس کا ہما
قبل ازیں بتایا گیا کہ ماضی میں ملا عمر بیشتر اختیارات کا منبع تھے، گو وہ بھی مجلس شوری سے ضرور مشور کرتے۔اب طالبان کی لیڈرشپ ارتقائی مراحل سے گذر کر بالغ ہو چکی۔چناں چہ امیر المومنین مطلق العنان حکمران کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے معاونین اور مجالس شوری بھی فیصلوں پہ اثرانداز ہوتی ہیں۔گویا عملی طور پر ہبت اللہ اخوندزادہ کے پاس یک طرفہ فیصلے کرنے کی قوت کم ہو چکی۔مجالس شوری کا عمل دخل بڑھنے ہی سے کم ازکم طالبان عسکری لیڈروں کی صفوں میں تاجیک،ہزارہ اور ازبک نسلوں کے افراد بھی شامل ہوئے ہیں۔

جب طالبان نے فتوحات کے حالیہ سلسلے کا آغاز کیا اور تاجکستان و ازبکستان سے ملحقہ علاقے فتح ہوئے تو وہاں بیشتر صوبوں پر تاجیک یا ازبک کمانڈر ہی والی بنائے گئے۔نیز صوبائی انتظامیہ میں بھی غیر پشتون افراد کو اہم عہدے دئیے گئے۔یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔اس سے آشکارا ہے کہ طالبان اقتدار میں دیگر نسلوں کے نمائندوں کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔اس کی مدد سے وہ گڈ گورنس کا ہما اپنے سر پہ بٹھا سکتے ہیں۔

افغان نسلی گروہوں کے مابین بداعتمادی کی گہری فضا پائی جاتی ہے۔یہ نسلی گروہ کئی صدیوں سے ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔لہذا تاجیک یا ہزارہ علاقوں میں پشتون تعینات کیے جائیں تو وہ خودبخود جانب دار بن جاتے ہیں چاہے وہ منصف مزاج اور قانون پسند ہی ہوں۔انتظامیہ میں مقامی افراد کی شمولیت سے مگر عوام کا اس پہ اعتماد بڑھ جاتا ہے۔یوں معاشرے میں استحکام،ٹھہرائو اور امن وامان جنم لیتا ہے۔یہی وہ ماحول ہے جس میں قومی معیشت فروغ پا کر عام آدمی کو بھی ترقی دیتی اور خوشحال بناتی ہے۔

فی الوقت طالبان قیادت میں نظریاتی و فکری لحاظ سے تین بڑے گروہ موجود ہیں۔اول قدامت پسند، دوم اعتدال پسند اور سوم وہ جو نسبتاً سخت مزاج ہیں۔ہبت اللہ قدامت پسندوں کی سمت جھکائو رکھتے ہیں۔اعتدال پسندوں کے سرخیل ملا عبدالغنی برادر اور ملا یعقوب کہے جاتے ہیں۔جبکہ سخت نظریات رکھنے والے لیڈروں میں سراج الدین حقانی نمایاں ہیں۔تاہم یہ سچائی عیاں ہے کہ اپنی حکومت کامیاب بنانے کے لیے طالبان کو سبھی افغانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔اس ضمن میں انھیں اپنی پالیسی اسلامی طرز حکومت کے ایک اور اہم اصول پر استوار کرنا ہو گی۔

درج بالا سورہ آل عمران آیت 159کا ذکر ہو چکا۔اس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو اپنے فضل سے نرم خو بنایا گیا۔اگر آپﷺ سخت دل اور درشت مزاج ہوتے تو لوگ آپﷺ کی باتیں نہ سنتے بلکہ دور بھاگ جاتے۔یوں ان کی اصلاح نہ ہو پاتی۔اسی طرح سورہ توبہ آیت 129میں بھی فرمایا گیا کہ حضور اکرمﷺ مومنوں پہ شفقت اور رحم کرنے والے ہیں۔ان آیات سے واضح ہے کہ نرمی و انسانوں سے محبت آپﷺ کی عظیم صفت ہے جو قدرت الہی سے آپﷺ کو ودیعت ہوئی۔اس لیے آپﷺ کو رحمت للعالمینﷺ بھی کہا گیا۔آپﷺ سخت کلام کرنے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ درگزر کرنے اور معافی دینے والے تھے۔

آیات قرانی کی تعلیم اور سنت نبویﷺ سے عیاں ہے کہ عام مسلمان ہی نہیں حکمرانان ِوقت کے لیے بھی معاملات میں نرمی وچشم پوشی پسندیدہ و بہترین روش ہے۔اس طرح حکومت اور عوام کے مابین اعتماد پیدا ہوتا ہے۔افغانستان میں عمدہ حکمرانی کے معاملے میں تو یہ قرانی اصول بہت کارگر ہے۔اگر طالبان تمام نسلی گروہوں سے نرمی ومحبت کا سلوک کریں اور ان کے سبھی حقوق انھیں عطا کر دیں تو اس طرح مملکت میں استحکام آئے گا اور اجتماعی نظام میں وحدت جنم لے گی۔

ایک عام مسلمان ہو یا حکمران،اگر وہ حقیقی مومن ہے تو اس کی فطرت میں سختی اور درشت مزاجی عنقا ہونی چاہیے۔ان جذبوں کی موجودگی خصوصاً فراوانی قران و سنت کے بموجب بیماری سممجھی جائے گی۔ایک انسان غذا تناول کر کے ہی صحت پاتا ہے۔جب بیمار ہو جائے تبھی دوا کی ضرورت پڑتی ہے۔اسی طرح ایک مسلم معاشرے کی بنیاد نرمی پہ مبنی ہونی چاہیے۔

سختی صرف ضرورت کے تحت ہی اختیار کی جائے۔طالبان اگر متذکرہ بالا دو قرانی اصولوں پہ عمل کر لیں تو گڈ گورنس کا بہترین تحفہ پا کے کروڑوں غریب افغانوں کی حالت بدل سکتے ہیں۔تب وہ نہ صرف دگرگوں افغان معیشت درست کر سکیں گے بلکہ علم (سائنس و ٹیکنالوجی) کا پھیلائو بھی کریں گے جو ہر مملکت کی ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری عمل ہے۔ یہ ضروری ہے کہ طالبان حکومت تمام نسلی گروہوں کے تعلیم یافتہ اور تجربے کار افراد کی خدمات حاصل کر ے تاکہ مملکت کا نظم و نق کامیابی سے چل سکے اور ترقی کا سفر ہو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔