تھر کول پراجیکٹ، انرجی بحران پر قابو پانے کا تاریخی منصوبہ

جی ایم جمالی  بدھ 29 جنوری 2014
تھر میں ہونے والی اقتصادی سرگرمیوں سے تھر کے لوگوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ وہاں مقامی لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر روزگار فراہم کیا جائے گا۔  فوٹو : فائل

تھر میں ہونے والی اقتصادی سرگرمیوں سے تھر کے لوگوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ وہاں مقامی لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر روزگار فراہم کیا جائے گا۔ فوٹو : فائل

کراچی: وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری جمعہ 31 جنوری کو تھر میں ایک منصوبے کا مل کر سنگ بنیاد رکھیں گے۔

اس منصوبے کے تحت تھر میں کوئلے کے بلاک 2 میں کوئلے کی مائننگ شروع ہو جائے گی اور پہلے مرحلے میں 660 میگاواٹ کا کول پاور پلانٹ نصب کیا جائے گا ، جو 2017ء کے آخر میں بجلی کی پیدوار شروع کردے گا ۔ یہ ایک انقلابی پیش رفت ہے کہ وزیر اعظم اور سابق صدر دونوں ایک ساتھ منصوبے کا سنگ بنیاد رکھیں گے ۔ دونوں رہنما پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تھر میں دونوں کی موجودگی سے نہ صرف سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ دنیا کو یہ تاثر بھی جائے گا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے اور پاکستان کو بجلی کے بحران سے نکالنے میں سنجیدہ ہے۔ 31 جنوری پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہوگا۔ ماضی میں جو لوگ تھر کے کوئلے کی ترقی میں رکاوٹیں حائل کرتے رہے ہیں، ان کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی اور ان کی سازشیں بھی ناکام ہو جائیں گی۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا یہ کہنا درست ہے کہ تھر پاکستان کی انرجی لائف لائن اور پاکستان کا انرجی فیوچر ہے۔ تھر کے کوئلے سے 40 سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی سیکڑوں سالوں تک پیدا کی جاسکتی ہے اور یہ بجلی دنیا میں سب سے زیادہ سستی ہو گی۔ اگلے روز کراچی کے مقامی ہوٹل میں تھر کے کوئلے پر دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں تھر کے کوئلے سے متعلق غلط تصورات کو ختم کرنے میں مدد ملی ۔ داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور محکمہ توانائی حکومت سندھ کے اشتراک سے منعقد ہونے والی اس کانفرنس کا موضوع ’’ توانائی میں خود کفالت، تھر کول اور پاور پروجیکٹس کی تیز تر ترقی ‘‘ تھا۔ مختلف ماہرین اور سائنس دانوں نے تھر کے کوئلے کے کیمیائی تجزیوں کی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ یہ کوئلہ بجلی پیدا کرنے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ قبل ازیں یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا کہ اس کوئلے میں ڈسٹ اور سلفر زیادہ ہے اور یہ بجلی کی پیداوار میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

اس کانفرنس کے فورم سے کوئلے کے بارے میں دیگر تکنیکی اور فنی پہلؤوں پر بھی کھل کر بات ہوئی اور بہت سے غلط تصورات کو ختم کرنے میں مدد ملی۔ کانفرنس کے بعض مقررین کا یہ خیال تھا کہ کوئلہ جلا کر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر عالمی مالیاتی ادارے اور بین الاقوامی کمپنیاں سرمایہ کاری نہیں کریں گی لیکن کانفرنس انگلینڈ کی کمپنی اوریکل، متحدہ عرب امارات کی کمپنی بلال گروپ اور اینگرو کے نمائندے بھی موجود تھے، جو تھر کے کوئلے میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی ختم کرنے میں مدد ملی کہ بین الاقوامی کمپنیاں سرمایہ کاری نہیں کریں گی تاہم وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے خزانہ و توانائی سید مراد علی شاہ کا یہ کہنا درست تھا کہ تھر کے کوئلے کی مائننگ اور بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جو حکومت سندھ بھی نہیں کر سکتی ہے اور پاکستان کے بینک بھی اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے بیرون بینکوں اور مالیاتی اداروںکا کنسورشیم بننا چاہئے۔ کانفرنس میں پہلی مرتبہ تھر میں انڈر گراؤنڈ کول گیسی فکیشن (یو سی جی) پر کھل کر سائنسی بنیادوں پر بحث ہوئی۔

کانفرنس میں شریک زیادہ تر انجینئرز ، سائنس دان ، ماہرین اور کوئلے کی سائنس میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے ’’ یو سی جی تھر پروجیکٹ ‘‘ کی کھل کر مخالفت کی حالانکہ اس پروجیکٹ کے چیف کیمسٹ ڈاکٹر ارشد موٹن نے اپنی پریزینٹیشن میں یہ بتایا کہ اس پروجیکٹ سے ہم گیس نکال رہے ہیں اور آئندہ کچھ ماہ میں ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ 20 ہزار مکعب میٹر فی گھنٹہ گیس پیدا کرسکیں لیکن اکثر لوگوں نے اس پروجیکٹ کی مخالفت کی اور کہا کہ اس پروجیکٹ پر حکومت سندھ کا بہت پیسہ ضائع کیا گیا ہے۔ اب اس منصوبے کو ختم ہونا چاہئے ۔ انہوں نے یہ دلیل دی کہ دنیا میں کہیں بھی بڑے پیمانے پر یا تجارتی بنیادوں پر یو سی جی نہیں ہوتی ہے ۔ کانفرنس میں تھر کے کوئلے کو ٹرانسپورٹیشن کے قابل بھی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ کوئلہ تھر سے سیکڑوں میل دور لے جایا جا سکتا ہے ۔ کوئلے کی ٹرانسپورٹیشن کا مسئلہ نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ ٹرانسپورٹیشن پر آنے والے اخراجات کا ہے۔ اس حوالے سے تھر کو ریلوے لائن سے منسلک کرنے کے بھی کئی قابل عمل آپشنز پر غور کیا گیا۔

کانفرنس میں ماہرین نے یہ بھی ثابت کیا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تھر کا کوئلہ تھر میں نصب پاور پلانٹس کے لیے استعمال کیا جائے بلکہ یہ دور دراز کے کول پاور پلانٹس ، سیمنٹ انڈسٹری ، فرٹیلائزر انڈسٹری اور دیگر صنعتوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی کہ تھر میں کوئلے کی ’’ بریکوئٹنگ انڈسٹری‘‘ نصب کی جائے اور وہاں سے کوئلہ گھریلو استعمال کے لیے فروخت کیا جائے ۔ تھر کا کوئلہ بیرون ممالک سے درآمد کردہ کوئلے سے کہیں زیادہ سستا اور معیار میں بہتر ہو گا ۔ کانفرنس سے ہی یہ بات واضح ہوئی کہ تھر کا کوئلہ بہت کام کی چیز ہے اور یہ پاکستان کی بہت بڑی دولت ہے ۔ اکثر مقررین نے اسے ’’ کالا سونا ‘‘ قرار دیا۔ کانفرنس میں کول پاور پلانٹس کی تنصیب اور زمین کے اوپر کوئلے کی گیسی فکیشن کے باعث ماحولیاتی مسائل پر بھی بات ہوئی۔ اس حوالے سے سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ تھر کے کوئلے سے 40 سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی سیکڑوں سالوں تک پیدا کی جا سکتی ہے لیکن تھر میں صرف 5 ہزار میگاواٹ کے کول پاور پلانٹس لگائے جائیں گے۔ باقی پاور پلانٹس کیٹی بندر میں نصب کئے جائیں گے ۔ تھر اور کیٹی بندر کو ریلوے لائن کے ذریعہ جوڑا جائے گا ۔ کیٹی بندر میں ایک جیٹی بھی تعمیر کی جائے گی تاکہ کول پاور پلانٹس سے اضافی کوئلے کو برآمد کیا جاسکے۔

تھر کے متاثرہ لوگوں کی دوبارہ بحالی کا ایک ٹھوس منصوبہ بنایا جائے گا۔ تھر میں ہونے والی اقتصادی سرگرمیوں سے تھر کے لوگوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ وہاں مقامی لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر روزگار فراہم کیا جائے گا۔ ملک کی ترقی اور ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کے لیے جو تھوڑے بہت ماحولیاتی یا دیگر مسائل پیدا ہوں گے ، ان سے بہتر طور پر نمٹا جا سکتا ہے ۔ اس کانفرنس کے بعد یہ باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہیں کہ تھر پاکستان کا مستقبل ہے۔ تھر کا کوئلہ بجلی کے ساتھ ساتھ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے تھر کو جتنی اہمیت دی ہے، تھر اس سے بھی زیادہ کا مستحق ہے ۔ دونوں رہنماؤں کا تھر کے بارے میں وژن پاکستان کی تقدیر بدل دے گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ ان کی کوششوں سے تھر میں ایک تاریخی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنا ممکن ہوا ہے۔ 31 جنوری کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔