ایک انڈین فلم کا جائزہ

نصرت جاوید  منگل 28 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ایک زمانہ تھا کہ جب کوئی نئی فلم ریلیز ہونے والی ہوتی تو مجھ پر ’’فرسٹ ٹکٹ، فرسٹ شو‘‘ کا جنون طاری ہوجاتا۔ پھر ویڈیو کیسٹس آ گئے۔ ضیاء الحق کے دنوں سے پاکستانی اچھی فلمیں بنانے سے باز آنا بھی شروع ہو گئے۔ سینما گھر ویران ہوئے تو انھیں گرا کر پلازے بننے لگے۔ میں خود بھی کُل وقتی صحافت کی نذر ہو گیا۔ اب کچھ برسوں سے کئی بہت ہی جدید سینما گھر بن چکے ہیں۔ میں ابھی تک کسی ایک میں بھی نہیں جا سکا۔

DVD کی بدولت اچھی فلمیں گھر بیٹھ کر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ فرصت ملے تو میں لیکن کتابیں پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ جو لمحات میسر آتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے مجھے اب مگر فلموں کے حوالے سے احساسِ کمتری محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔ سماجی محفلوں میں بیٹھوں تو لوگ بڑے اشتیاق سے چند بھارتی اور ہالی ووڈ کی بنائی فلموں کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں اور میں خاموش بیٹھا خود کو ’’پینڈوپینڈو‘‘ سا محسوس کرتا رہتا ہوں۔ کوئی دو ہفتے قبل تو انتہا ہو گئی جب کچھ نوجوان صحافیوں کی محفل میں کئی ساتھی یہ بات ماننے کو تیار ہی نہ ہوئے کہ میں نے مادھوری اور نصیر الدین شاہ کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی ’’ڈیڑھ عشقیہ‘‘ نہیں دیکھی۔ اب سب کی نظر میں یہ فلم بڑی کلاسیک ہے۔ جس کا موضوع، کہانی اور مکالمے بولڈ تو ہیں مگر انھیں بہت نفاست اور شائستگی سے پیش کیا گیا ہے۔ بات اس محفل تک ختم نہ ہوئی۔ اس میں موجود چند شرکاء مجھے بعد ازاں بھی ٹیلی فون کر کے بڑے جذباتی انداز میں پوچھتے رہے کہ میں نے وہ فلم اب تک کیوںنہیں دیکھی۔ ان کے جذبے اور تکرار سے بالآخر تنگ آ کر میں نے اس فلم کی DVD حاصل کر ہی لی اور بستر پر لیٹے اپنے لیپ ٹاپ کو پیٹ پر رکھ کر اسے بالآخر دیکھ بھی لیا۔

’’ڈیڑھ عشقیہ‘‘ یقیناً ایک اچھی فلم ہے مگر اس کے مصنف اور ہدایت کار سے کہیں زیادہ میں نے مادھوری ڈکشٹ کی جرأت کو سراہا۔ نٹ کھٹ کرداروں کو ادا کرتے ہوئے اسٹار بنی اداکارائیں ڈھلتی عمر کو پہنچ کر ایسے رول لینے سے گھبراتی ہیں جو ان کی اصل عمر کو اسکرین پر نمایاں کر کے دکھا دیں۔ مادھوری ایسا کرنے سے ہرگز نہیں ہچکچائیں۔ فلم میں اس کا رول اس بیوہ کا ہے جو کسی زمانے میں ’’نواب‘‘ کہلائے ایک رئیس کی بیوی ہوا کرتی تھی۔ نوابوں کی بیوہ ہوئی بیگمات کے لیے عام طور پر ایسے رول لکھے جاتے ہیں جو انھیں مظلوم دکھا کر دیکھنے والوں کی آنکھوں میں آنسو لانا چاہتے ہیں۔ ’’ڈیڑھ عشقیہ‘‘ میں مادھوری ایسی بیوہ نظر نہیں آتی۔ اس کا ایک ’’وکھرا‘‘ انداز زندگی ہے۔ اس انداز کا ایک پہلو میں گھر کے ہر فرد کے لیے چھپے اخبار کے کالم میں تفصیل سے نہیں لکھ سکتا۔ عصمت چغتائی کے ’’لحاف‘‘ کا حوالہ ہی کافی ہے۔ مگر اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ’’ڈیڑھ عشقیہ‘‘ کی ’’بیگم پارہ‘‘ روایتی فلموں والی بے کس بیوہ نہیں۔ وہ ایک شاطر ذہن منصوبہ ساز ہے جو اپنی زندگی بدلنے کے لیے اغواء برائے تاوان جیسے سنگین جرم کا بڑے ٹھنڈے دل کے ساتھ ارتکاب کراتی ہے۔ اس کی مکارانہ ذہانت نصیر الدین شاہ اور ارشد وارثی جیسے مستند اور جہاں دیدہ نوسر بازوں کو بھی حیران و شسدر کر دیتی ہے۔ کئی حوالوں سے مادھوری کا ’’ڈیڑھ عشقیہ‘‘ میں کردار ان دنوں تیزی سے پھیلنے والے Women Empowerment کے تصور کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

مجھے یہ فلم دیکھتے ہوئے مگر سب سے زیادہ احساس اس بات کا ہوا کہ کم از کم مقبول عام فلموں میں نظر آنے والے بھارتی مسلمان ابھی تک اپنے ’’نوابی ماضی‘‘ سے نجات حاصل نہیں کر پائے۔ جدید معاشرے میں اپنے لیے کوئی جگہ نہ پا سکنے والے آج کے ’’خالو‘‘ اور ’’ببن‘‘ جیسے Vagabonds ٹھگی اور نوسربازی سے گزارہ چلاتے ہیں۔ نصیر الدین شاہ اور ارشد وارثی ’’ڈیڑھ عشقیہ‘‘ میں ان ہی کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اس فلم میں ان دونوں سے کہیں زیادہ طاقتور کردار میری دانست میں ’’جان صاحب‘‘ کا ہے۔ وہ ایک زمانے میں محض ایک ’’غنڈا‘‘ ہوا کرتا تھا۔ مگر بتدریج اسمبلی کا رکن بن کر ’’معتبر‘‘ ہو گیا۔ اب اس کے پاس دُنیاوی حوالوں سے دولت اور طاقت پوری طرح میسر ہے۔ اس کا دُکھ ہے تو بس اتنا کہ اپنے سارے ٹھاٹھ باٹھ کے باوجود اسے وہ ’’وقار‘‘ میسر نہیں جو ’’پیدائشی نوابوں‘‘ کو وراثت میں مل جاتا ہے۔ اسی وقار کے حصول کی خاطر وہ ’’بیگم پارہ‘‘ سے ہر قیمت پر شادی کرنا چاہتا ہے۔ Glory کی یہ بھوک اسے اپنی تمام تر بدمعاشیوں کے باوجود ایک قابلِ رحم مسخرہ بنا دیتی ہے اور ’’بیگم پارہ‘‘ کے سفاکانہ منصوبے کا ایک بے بس شکار بھی۔ ’’جان صاحب‘‘ کے کردار کو دیکھتے ہوئے مجھے وہ پاکستانی ’’نو دولیتے‘‘بے تحاشا یاد آئے جو 1990 کی دہائی سے بتدریج ہمارے سیاسی منظر نامے پر چھانا شروع ہو چکے ہیں۔ صرف اپنی دولت کے بل بوتے پر وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔

اکثر وزیر شذیر بھی بن جاتے ہیں۔ مگر ان میں رُعب و دبدبہ نظر نہیں آتا جو سردار ممتاز بھٹو جیسے ’’خاندانی‘‘ سیاستدان مسلسل انتخابات ہارنے کے باوجود اپنی ذات کے بارے میں برقرار رکھتے ہیں۔ پنجاب کے کئی ’’خاندانی‘‘ سیاست دان بھی اب ’’اپنے حلقوں‘‘ میں نو دولتیوں کے مقابلے میں سیاسی اثر و رسوخ کھو بیٹھے ہیں۔ اقتدار کے کھیل پر چھاجانے کے باوجود ہمارے یہ نو دولتیئے خود کو ایسی ’’اشرافیہ‘‘ میں تبدیل نہیں کرپائے جن کی شناخت مشاعروں جیسی باوقار ثقافتی روایات سے وابستہ ہوں۔ نودولتیئے حکمران ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کی تخلیقی اعتبار سے سرپرستی نہیں کرتے۔ ان کی دولت نت نئے ریستورانوں میں کھانے کھلانے اور دبئی جیسے شہروں سے ’’برانڈڈ‘‘ لباس اور جوتے خریدنے میں صرف ہوتی ہے یا آئی فون کے نئے اور مہنگے موبائل حاصل کرنے پر۔ انتہائی موٹی اور بھاری گھڑی اور شوخ رنگ کے مہنگے اسکارف ان کے اصل Taste کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔

اس کا اظہار کسی کتاب یا پینٹنگ کی خریداری کے ذریعے نہیں ہوتا۔ ’’ڈیڑھ عشقیہ‘‘ کی طرف لوٹتے ہوئے میری نظر میں اس فلم کا اصل پیغام یہی ہے کہ بھارت اور خاص کر وہاں کے گنگ و جمن والے خطوں میں بیٹھے مسلمان کسی جہانِ نو کی طرف نہیں بڑھ رہے۔ اپنی تاریخ کے کسی ایک لمحے میں ’’فریز‘‘ ہو چکے ہیں جہاں اب بھی تڑپ اور لگن ہے تو اس زمانے میں لوٹ جانے کی جب نواب ہوا کرتے تھے۔ ان کی حویلیاں اور ان میں برپا ہونے والے مشاعرے اور جگل بندیاں۔ حیران کن Subtext اس فلم کا یہ بھی ہے کہ نام نہاد ’’مسلم سوشل‘‘ موضوعات پر لکھے ڈرامے اور فلمیں اب ماضی کو باغیانہ انداز میں بھلا کر نئے زمانے کے تقاضوں میں ڈھلنے کی اصل لگن مسلمان عورتوں میں پائی دکھا رہے ہیں۔ ’’جان صاحب‘‘ جیسے نو دولتیوں اور خالو (نصیر الدین شاہ) اور ببن (ارشد وارثی) جیسے مردوں میں نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔