افغانستان اور طالبان: آگے کیا ہوگا؟

سید منعم فاروق  ہفتہ 28 اگست 2021
اگر افغانستان ایک بار پھر جنگ و جدل کی لپیٹ میں آتا ہے تو اس کے اثرات کہاں تک پہنچیں گے؟ (فوٹو: فائل)

اگر افغانستان ایک بار پھر جنگ و جدل کی لپیٹ میں آتا ہے تو اس کے اثرات کہاں تک پہنچیں گے؟ (فوٹو: فائل)

اتحادی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے اعلانات کے بعد ہی طالبان نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں قدم بڑھانا شروع کردیے اور 15 اگست کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کرلیا۔ اور نظر یہی آرہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت بننے جارہی ہے۔ لیکن ایک کہاوت ہے کہ جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔ اس بلاگ میں قارئین کے سامنے کچھ ایسے ہی سوال حقائق کے ساتھ رکھوں گا اور ان کے جواب قارئین پر چھوڑوں گا تاکہ پڑھنے والے خود فیصلہ کریں۔

نظر تو یہی آرہا ہے کہ طالبان بہت طاقت سے سامنے آئے ہیں اور افغانستان کے ایک بڑے حصے کا کنٹرول انہوں نے سنبھالا ہوا ہے، لیکن دوسری طرف احمد شاہ مسعود پنج شیر میں طالبان کے خلاف نبرد آزما بھی ہیں اور خبریں ایسی آرہی ہیں کہ کچھ شہروں کا کنٹرول طالبان سے واپس لے لیا گیا ہے۔ شاہ احمد مسعود کے ساتھ افغانستان کے سابق نائب صدر امر اللہ صالح بھی موجود ہیں، جن کو ماضی میں ہر موقع پر ہمارے دوسرے پڑوسی ملک بھارت کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے اور اس طرح کی شورش رہتی ہے اور وہ بڑھ کر افغانستان میں سول وار کی شکل اختیار کرلیتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ خطے میں امن و استحکام کےلیے کون سا ملک آگے آئے گا اور خدانخواستہ اگر افغانستان ایک بار پھر جنگ و جدل کی لپیٹ میں آتا ہے تو اس کے اثرات کہاں تک پہنچیں گے؟

طالبان نے افغانستان کی جیلوں سے جو قیدی چھڑوائے ان میں تحریک طالبان پاکستان کے لوگ بھی شامل ہیں اور اس کے بعد پاکستان میں بدامنی کی معمولی سی لہر بھی شروع ہوچکی ہے۔ ویسے تو طالبان کے امیر نے اس مسئلے پر ہنگامی نوٹس لیتے ہوئے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال سے روکنے کےلیے ایک کمیٹی بھی بنادی ہے، لیکن اگر حالات طالبان کے کنٹرول سے بھی باہر ہوجاتے ہیں اور تحریک طالبان کو افغانستان کی سرزمین پر موجود بیرونی اثاثوں کی حمایت حاصل رہتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟

بادی النظر میں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ افغانستان سے بھارت نے اپنے تمام قونصل خانے اور سفارتخانہ بند کردیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ افغانستان میں بھارت نے اپنے ’’چھپے ہوئےاثاثے‘‘ بھی اٹھا لیے ہیں؟ یہاں یہ بات ہضم کرنا بہت مشکل ہے کہ کروڑوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کو بنیا ایسے ہی چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں سکون سے واپس چلا جائے۔ یہاں راقم یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ اگر بھارتی ’’اثاثے‘‘ افغانستان سے مکمل طور پر ڈس انگیج نہیں ہوتے اور پاکستان میں دہشتگردی و بدامنی پھیلانے والے ’’افغانستان میں موجود بھارتی سیف ہیونز‘‘ موجود اور آپریشنل رہتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟

ایسے ہی بین الاقوامی سطح کی اگر بات کی جائے تو بظاہر ایسا نظر آرہا ہے کہ روس، چین، پاکستان اور شاید برطانیہ بھی طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خطے میں امن کےلیے نئی حکومت کو تسلیم اور سپورٹ کریں گے۔ لیکن یہاں بھی راقم ایک بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ امریکا و اتحادی افواج جو بظاہر افغانستان سے شکست کھا کر واپس جارہی ہیں، کیا وہ سکون سے بیٹھیں گے؟ کیونکہ ایسا تو بہت مشکل ہے کہ وہ اپنے آپ کو خطے سے مکمل طور پر لاتعلق کردیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر ان کا جھکاؤ کس جانب ہوگا؟

اس تحریر کے آخر میں اگر خلاصہ کیا جائے تو اس وقت طالبان کی بننے والی حکومت کے ساتھ چلنے کےلیے تیار ممالک میں پاکستان، چین، برطانیہ روس وغیرہ شامل ہیں۔ امریکا اپنے لوگوں کے انخلا کےلیے افغان قیادت سے رابطے میں ہے اور حالیہ ہفتے امریکی خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر کی کابل آمد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لیکن امریکا کی طرف سے کوئی واضح پالیسی ابھی تک نظر نہیں آرہی کہ وہ مستقبل میں طالبان کی اس حکومت کو سپورٹ کرے گا یا نہیں؟ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا کی ہاں یا نہ کے بعد ہی اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ اس کے ساتھ بھارت اس ساری صورتحال میں صرف ایک شکست خوردہ کھلاڑی کے طور پر ہی نظر آرہا ہے اور خطے کی سیاست میں مستقبل قریب میں بھارت کا براہ راست کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید منعم فاروق

سید منعم فاروق

بلاگر کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور مختلف اداروں کے ساتھ فری لانسر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا، کرنٹ افیئرز اور کھیلوں کے موضوعات پر لکھنے کا شوق ہے۔ ٹویٹر ہینڈل @syedmunimpk پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔