بزرگ شہریوں کے مسائل

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 29 جنوری 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

میں حسب معمول گزشتہ اتوار بھی اپنے ایک قریبی عزیز کے پاس ملنے گیا، عمر کے اعتبار سے ان کا شمار بزرگوں میں ہوتا ہے۔ ان بزرگ نے طنز کے انداز میں مگر محبت کے ساتھ کہا ’’میاں ڈاکٹر صاحب! سب کے مسائل پر لکھتے ہو کبھی اپنے بزرگوں کے مسائل پر بھی کچھ لکھ دیا کرو!‘‘ میں نے ان سے عرض کیا کہ جناب لکھا تو کئی مرتبہ ہے مگر شاید آپ کی نظر سے نہیں گزرا اور نہ صرف لکھا بلکہ عملاً ان کے حل کے لیے اپنے طور کوشش بھی کرتا رہتا ہوں اور آپ کے پاس حاضری کا مقصد بھی ان مسائل میں سے ایک مسئلے کو حل کرنا ہے۔

بزرگ حیران کن لہجے میں کہنے لگے، بھئی کونسا مسئلہ، آپ یہاں میرے پاس حل کرنے آتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ بزرگوں کا سب سے بڑا مسئلہ تنہائی یا جیسے انگریزی میں کمپنی کہتے ہیں! مجھے اچھی طرح احساس ہے کہ دیگر بزرگوں کی طرح آپ کا بھی ایک مسئلہ کمپنی کا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو وقت دیں اور آپ سے باتیں کریں مگر اس ’’کمرشل زندگی‘‘ میں ہم جیسے نوجوانوں اور خود اولاد کو بھی یہ مسئلہ پتہ نہیں ہوتا۔

یہ بزرگ آہ بھرے لہجے میں کہنے لگے کہ ’’تم درست کہتے ہو، درحقیقت غلطی کسی قدر ہماری بھی ہے کہ ہم نے اپنی نسل کو پیسہ، پیسہ اور پیسہ کمانے اور ’’اسٹیٹس‘‘ بلند کرنے کو اہم ترین مسئلہ باور کرا دیا اور اب زیادہ تر نے اس کو اپنی منزل بنا لیا ہے۔ یہ ایک ایسی منزل ہے جو کسی کو نہیں ملتی ’’اور، اور‘‘ کے چکر میں سارا وقت گزر جاتا ہے مگر خوب سے خوب اور زیادہ سے زیادہ تر کی تلاش میں منزل عمر کے آخری حصے میں بھی ہاتھ نہیں آتی۔

بزرگ کی یہ باتیں بہت رنجیدہ کر دینے والی تھیں مگر حقیقت تو یہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کے چکر میں اس قدر مادہ پرست ہو گیا ہے کہ وہ اپنے عزیز، رشتے داروں کو تو کیا، اپنے سگے باپ، دادا کو بھی وقت دینے کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ ہمارے بزرگوں کا آج کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ راقم کے ایک دوست گزشتہ دہائی میں کینیڈا چلے گئے، ان کے دو بھائی کراچی میں والدین کے ساتھ تھے مگر اس اسٹیٹس کے نشے نے سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کی تمام صلاحیتیں بھی چھین لیں۔

لہٰذا سر توڑ کوششوں کے بعد ہمارے عزیز دوست نے اپنے دیگر بھائیوں کو بھی کینیڈا بلا لیا جس پر اس کے بھائی اور بزرگ والدین بہت خوش تھے۔ مگر تمام بیٹوں کے کینیڈا منتقل ہونے کے بعد ان کے ماں باپ کی تنہائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ مجھے بار بار گھر آنے اور ملنے کو کہتے ہیں۔ جب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جناب آپ کو بچوں کی یاد تو آتی ہو گی! تو وہ جواب دیتے ہیں کہ آتی تو ہے مگر ہر اتوار ان سے کمپیوٹر کے ذریعے با تصور بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ان کا جواب دل کی تسلی کے لیے تو بہت اچھا تھا مگر ان کے چہرے کے تاثرات اور زبان کی لڑکھڑاہٹ بتا رہی تھی کہ اب ان کا مسئلہ ’’بلند اسٹیٹس‘‘ یا معیار زندگی نہیں بلکہ تنہائی ہے، ان کے جواب میں اعتماد کا فقدان عیاں کر رہا تھا کہ ان کا فیصلہ درست نہیں تھا۔

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ضرورت تو فقیروں کی بھی پوری ہو جاتی ہے مگر خواہشات بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتی۔ ان ہی خواہشات کی تکمیل نے مغرب کے بعد اب مشرق میں بھی بزرگوں کی تنہائی جیسے خوف ناک مسئلے کو لا کھڑا کیا ہے۔

اس نظریے کے تحت کہ پیسہ ہی ہر مسئلے کا حل منٹوں میں پیش کر دیتا ہے ہم نے بزرگوں کے مسائل کے حل کے لیے اور ان کی خدمت کے لیے پیسہ کو ہی سب کچھ بنا لیا، بیمار ہوں تو اچھے سے اچھا ڈاکٹر، مہنگی سی مہنگی دوا اور خدمت کے لیے نرس یا آیا وغیرہ، لیکن ان سب میں اپنوں کی قربت اور محبت ناپید ہے۔ شاید فراموش کر بیٹھے ہیں کہ جیل میں بڑے بڑے مجرموں کی سخت ترین سزاؤں میں سے ایک قید تنہائی ہوتی ہے جو ان مجرموں کو راہ راست پر لانے کے لیے دی جاتی ہے۔ کتنے سنگدل ہیں ہم لوگ کہ اپنے بزرگوں کو بخوشی یہ سزا دے رہے ہیں۔

بزرگوں کے لیے بہت سے چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑے مسائل کا باعث نظر آتے ہیں مگر ہماری اس طرف توجہ نہیں جاتی۔ ایسا ہی ایک مسئلہ واش روم کا ہے۔ جن گھرانوں میں واش روم بڑے ہیں اور وہاں فرش، دیواروں پر ٹائل لگے ہیں چلنا انتہائی دشوار ہوتا ہے پھر اس میں موجود چپلیں جو عموماً صرف باتھ روم کے لیے استعمال ہوتی ہیں اس میٹیریل کی بنی ہوتی ہیں جو چکنے فرش پر چلنے میں پھسل سکتی ہیں اور پانی فرش پر ہو تو پھر پھسلنے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اپنے ارد گرد غور کیجیے کئی واقعات آپ کو ایسے ملیں گے کہ جن میں کوئی بزرگ مرد یا خاتون باتھ روم میں پھسل کر گر گئے اور ان کے کولہے یا پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس سے کئی بزرگوں کی موت بھی واقع ہوئی۔ کیا ہم باتھ روم میں پکڑنے کے لیے اسٹینڈ نہیں لگا سکتے؟ یا اس کا کوئی اور حل نہیں نکال سکتے؟

راقم کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ وہ گاڑی چلاتے ہوئے بزرگوں پر ضرور نظر رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بزرگ کہیں پیدل جارہا ہو یا بس اسٹاپ پر کسی سواری کے انتظار میں ہو تو اس کو لفٹ دے کر آگے چھوڑنے کی نیکی کما لیں۔ یہ ایک بڑی اہم بات ہے کیوں کہ پبلک ٹرانسپورٹ والے بھی عموماً بزرگوں کو سوار کرانے میں دلچسپی نہیں لیتے اور جو بزرگوں کو بٹھا لیتے ہیں وہ گاڑی بس اسٹاپ پر اکثر اوقات مکمل طور پر نہیں روکتے اور بزرگوں کو بھی چلتی گاڑی سے جلد بازی میں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے بزرگوں کے گرنے کا قوی امکان ہوتا ہے اور انھیں اس طرح پریشانی ہوتی ہے۔

اسی طرح بڑے شہروں میں بزرگوں کو سڑک عبور کرنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ تیز ٹریفک کے باعث جب نوجوان کے لیے بھی سڑک عبور کرنا مشکل ہو تو بھلا کوئی بزرگ کیسے سڑک عبور کرے گا؟ کراچی جیسے بڑے شہروں میں سڑکوں کے اوپر گزرگاہیں بنا کر نیچے روڈ پر فٹ پاتھ کے ساتھ جنگلے لگا دیے گئے ہیں کہ پیدل چلنے والے صرف اس پل کو استعمال کر کے سڑک عبور کریں۔ اس قسم کے قریباً تین منزلہ اونچے پل پر چڑھ کر سڑک عبور کرنا کسی بزرگ کے بس کی بات کہاں؟ کیا کسی سٹی ناظم یا اور حکومتی عہدیدار نے اس جانب کبھی سوچا؟ ایسے ہی بے شمار مسائل بزرگوں کے حوالے سے موجود ہیں۔ آئیے !اپنے اپنے طور پر انھیں حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔