طالبان قیادت کا امتحان

محمد رمضان زاہد  بدھ 1 ستمبر 2021
آنے والے دن تحریک اسلامی طالبان افغانستان کی لیڈرشپ کےلیے بہت مشکل ہوں گے۔ (فوٹو: فائل)

آنے والے دن تحریک اسلامی طالبان افغانستان کی لیڈرشپ کےلیے بہت مشکل ہوں گے۔ (فوٹو: فائل)

31 اگست 2021 کو افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کا انخلا مکمل ہوگیا اور تمام تر امریکی افواج تتربتر ہوکر مختلف ممالک کے راستے اپنے گھر روانہ ہوگئی ہیں۔ 20 سالہ ظالمانہ اور پرتشدد طویل رات کا اختتام اہل حق، اسلامی سوچ و روایات کے علمبردار اور امن کی داعی تحریک اسلامی طالبان افغانستان کو فتح نصیب ہوئی۔

اس جنگ میں جہاں اپنی ضد اور انا کےلیے امریکی عوام کا کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا، وہیں افغانستان کے باسی بھی بہت سی سرکردہ اور اہل عزیمت شخصیات سے محروم ہوگئے۔ تاہم سلام ہے اس قوم کو کہ بیس سالہ طویل جنگ کے بعد بھی ان کے حواس اسی طرح قائم ہیں جیسے کہ 2001 میں امریکی حملے سے قبل تھے۔

کابل میں تحریک اسلامی طالبان افغانستان کے داخلے کے وقت جس طرح ان کا شہریوں نے استقبال کیا وہ بھی فقیدالمثال منظر تھا۔ تاہم کابل ایئرپورٹ پر جو رش تھا ان میں دو قسم کے لوگ تھے۔ پہلا گروپ زیادہ تر ان لوگوں کا تھا جو اپنے مستقبل کو سنوارنے کےلیے مغربی ملکوں میں جانا چاہتے تھے۔ جیساکہ ہمارے ملک کے لوگ مغربی ملکوں میں چلے جاتے ہیں اور محنت مزدوری کرکے اپنے اہل خانہ کےلیے روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے وہ لوگ تھے جو اس بیس سالہ جنگ میں امریکی دست و بازو بنے رہے اور اپنے ظلم و ستم کی وجہ سے عوام کو تنگ کرتے رہے۔ بہت سے لوگ وہ بھی تھے جو اسٹیبلشنمٹ میں تھے اور بہت سی افغانی خواتین جوکہ دفاتر میں کام کرتی تھیں، ان پر جنسی حملے اور عصمت دری کے مرتکب تھے۔ جس کی خبریں متواتر میڈیا پر آتی رہتی تھیں اور ان کو معلوم ہے کہ افغانی قوم منتقم المزاج ہے۔ اپنی روایات کے مطابق اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور ظالم کو نہیں چھوڑتی۔ لہٰذا ان لوگوں کا افغانستان سے باہر جانا ہی بہتر تھا۔

بہرحال سوائے ایک قلیل تعداد کے تمام افغانی قوم نے جس طرح تحریک اسلامی طالبان افغانستان کا ہر سطح پر ساتھ دیا، وہ بھی ایک بہترین مثال ہے۔ اگر عوامی سطح پر ان کی مدد نہ کی جاتی تو اتنی طویل جنگ کو قائم رکھنا، اپنی سپریم کمانڈ اور لیڈرشپ کا دفاع کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ اگر دیکھا جائے تو تمام افغانی قوم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے دنیا کی سپرپاور کہلانے والی قوت کو نہ صرف شکست فاش دی بلکہ اسے اپنے مطالبات کے مطابق ملک سے بھاگنے پر بھی مجبور کردیا اور دشمن کو ہر سطح پر زک پہنچائی، ان کی بنائی ہوئی جعلی افغان آرمی کو ناکام کردیا، جس پر امریکا کروڑوں ڈالر ایسے لٹا رہا تھا جیساکہ ہمارے عیاش لوگ شادی بیاہ پر مجروں پر لٹاتے ہیں۔ بقول امریکی صدر کہ ہم نے تاریخ کی ایک مہنگی جنگ کا خاتمہ کردیا ہے، ہم افغانستان میں یومیہ بنیاد پر 30 کروڑ روپے کے اخراجات کررہے تھے لیکن اس کا نتیجہ بالکل صفر تھا۔ میں اپنی دوسری نسل کے بعد تیسری نسل کو اس جنگ کا ایندھن نہیں بنانا چاہتا۔

لیکن اب ہر طرف ایک شور ہے کہ طالبان قیادت کا اصل امتحان اب شروع ہورہا ہے، کیونکہ حکومت سازی ایک مشکل عمل ہے اور اس مشکل عمل سے بری الذمہ ہونا تحریک اسلامی طالبان افغانستان کےلیے ایک مشکل امر ہے۔ لیکن لوگ یہ نہیں دیکھ رہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں میں کیسے لوگ حکومتیں کررہے ہیں اور ان کی ذہنی و سیاسی پختگی کیا ہے؟ ان کو کیسے طریقے سے اسمبلیوں میں پہنچایا جاتا ہے؟ کس طرح ان سے حکومت چلوائی جاتی ہے۔ تمام ادارے رگڑے کھارہے ہیں، ملک بجائے افقی سمت میں جانے کے عمودی سمت میں جاتے ہوئے بھی ہچکولے کھا رہا ہے۔ نہ غریب کی عزت محفوظ ہے، نہ کسی عورت کی عصمت۔ عدالتوں میں نسل در نسل کیسز پڑے رہتے ہیں اور ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔

یاد رہے کہ تحریک اسلامی طالبان افغانستان کی موجودہ قیادت میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے بہت ہی گرم دن دیکھے ہیں۔ اپنے ہمسایہ ملکوں کے دھوکے کھائے ہیں، سیاسی نشیب و فراز دیکھے ہیں اور جنگی مہمات میں بھی حصہ لیا ہے۔ انہوں نے دشمن کے حملوں کو برداشت بھی کیا ہے اور دشمن افواج پر حملہ کرنے کی کمان بھی سنبھالی ہے۔ تو یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ تحریک اسلامی طالبان افغانستان کی موجودہ لیڈرشپ جہاں جنگی سطح پر اپنا اثرورسوخ رکھتی ہے، وہیں سیاسی سطح پر اس سے بھی زیادہ آزمودہ کار ہے۔

تحریک اسلامی طالبان افغانستان کی یہ قیادت جنگ اور امن، میدان اور مذاکرات کی میز پر اپنے مہرے بڑے احتیاط سے چلاتی رہی ہے۔ جیسے یہ لیڈرشپ اپنے مطالبات منوانا جانتی ہے تو یہ لیڈرشپ آئین بنانا بھی جانتی ہے اور اسے نافذالعمل بنانا بھی بخوبی جانتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس قیادت میں اکثر لوگ عالم اور شیخ الحدیث ہیں۔ لہٰذا ان کےلیے کوئی اور آئین بنانے کی چنداں ضرورت نہیں، کیونکہ ان کے پاس قرآن کریم کی شکل میں ایک بہترین آئین، بہترین قانون اور بہترین انتظامی نظم بنانے والی کتاب موجود ہے۔

فتح کابل کے وقت ہی اس کا اعلان کردیا گیا تھا کہ افغانستان میں امارت اسلامیہ کا قیام ہوگا اور سپریم لاء صرف قرآن کریم کے مطابق ہی ہوگا۔ جس ملک میں قرآن کریم کے مطابق آئین ہوگا اور قرآن کریم کے مطابق قانون نافذ ہوگا وہاں پر انسانی آئین اور عمرانی نظام کا کیا کام؟

یہ جو ہر میڈیا چینل پر آج کل ایک بحث چل رہی ہے کہ آنے والے دن تحریک اسلامی طالبان افغانستان کی لیڈرشپ کےلیے بہت بھیانک ہوں گے، بہت مشکل ہوں گے، ان کےلیے امتحان ہوگا، کیونکہ ان کےلیے فیصلے کرنا بہت مشکل ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہارے ہوئے دشمن کی جاتے جاتے واہیات اور ذہنی پسماندگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ دیکھیے کہ جو قوم اور جماعت 20 سال تک اپنے سے ہزاروں گنا قوی الجثہ دشمن سے لڑسکتی ہے، وہ اس ملک کی حکومت بھی باآسانی چلاسکتی ہے اور اسے کسی کی آئینی و سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ اس لیڈرشپ نے فتح کابل کے بعد جس طرح کے سیاسی فیصلے کیے ہیں، جس طرح افغانی قوم کی مختلف اکائیوں کو اپنے ساتھ جوڑا ہے اور ان کے سامنے اپنی سیاسی حکمت عملی اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بہتر مستقبل کی عکاسی کا پیش خیمہ ہے۔

میرے خیال میں تحریک اسلامی طالبان افغانستان کی لیڈرشپ کےلیے ملک چلانا اور اس کا انتظام و انصرام سنبھالنا چنداں مشکل نہیں ہے، بلکہ ان شاء اللہ آنے والے وقت میں دنیا دیکھے گی کہ اسلامی آئین اور قانون کی بہاریں کیسی ہوتی ہیں اور اسلامی آئین و قانون کے نفاذ کے تحریک اسلامی طالبان افغانستان کی لیڈرشپ کو کسی قسم کی پریشانی یا امتحانی کیفیت کی صورت پیش نہیں آئے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔