سیدی الوداع!

سالار سلیمان  جمعرات 2 ستمبر 2021
سید علی گیلانی تحریک آزادی کشمیر کی توانا آواز تھے اور کسی سے ڈرے بغیر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی بات کرتے تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سید علی گیلانی تحریک آزادی کشمیر کی توانا آواز تھے اور کسی سے ڈرے بغیر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی بات کرتے تھے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ دُکھ بھی اُن دکھوں جیسا ہی تھا جس میں انسان بے بس تھا۔ شاید سید علی گیلانی یہ آخری زخم نہ سہ سکے جو اُن کی روح پر لگا تھا، جب بھارت نے کشمیر کی خود مختار حیثیت سلب کی اور ہم یہاں آدھا گھنٹہ ورزش کی مشق کرتے رہے۔ شاید سید علی گیلانی کو یہی گھاؤ ہم سے جدا کر گیا۔ اب میڈیکل سائنس اس کی جو مرضی توجیہات پیش کرتی رہے۔

کبھی سوچتا ہوں تو حیرت میں ڈوب جاتا ہوں، کیسا شاندار انسان تھا کہ کوئی بھی ظلم اور کوئی بھی ہتھکنڈا گیلانی کے عزم و ہمت کو ہلا نہ سکا۔

آخر یہ سید علی گیلانی کون تھے؟ اُن کی وفات کا غم پوری دنیا کے کشمیری اور پاکستانی کیوں محسوس کر رہے ہیں؟

سید علی گیلانی نے 1929 میں سوپور، کشمیر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور پھر لاہور مزید تعلیم کےلیے آ گئے۔ لاہور اُس زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ ہوتا تھا۔ گیلانی صاحب 1940 میں سری نگر واپس لوٹے جہاں ان کی ملاقات مولانا سید مسعودی سے ہوئی اور گیلانی صاحب نے کچھ عرصہ کےلیے روزنامہ خدمت کو بطور رپورٹر جوائن کیا۔

1949 میں ایک اسکول میں پڑھاتے ہوئے اُن کی ملاقات مولانا سعد الدین سے ہوئی جہاں سے گیلانی صاحب کا تعارف جماعت اسلامی سے ہوا۔ کتب بینی کا شوق تو پہلے ہی تھا، لہذا انہوں نے بہت جلد مولانا مودودیؒ، امام حسن البناءؒ اور سید قطبؒ سمیت دیگر اہل فکر کی کئی کتب پڑھ ڈالیں اور پھر اس لٹریچر نے اُن پر ایسا اثر کیا کہ تادم مرگ وہ درست کو درست اور غلط کو غلط کہتے رہے۔

وہ جس کو حق سمجھتے تھے، تادم مرگ اُسی حق سے وابستہ رہے۔

میں اکثر کہتا ہوں کہ ہم جیسوں نے مولانا مودودیؒ کو صرف پڑھا تھا، جو ان کی فکر کو سمجھتے ہیں تو وہ پھر سید علی گیلانی بنتے ہیں۔

اگر گیلانی چاہتے تو مصلحت کا شکار ہوتے، لگی لگائی نوکری کو 1959 میں خیرباد کہ کر مستقل کشمیر کاز کےلیے خود کو وقف نہ کرتے۔

1962 کی پہلی گرفتاری جو ایک سال اور ایک ماہ دورانیے کےلیے تھی، وہ بھلا گیلانی صاحب کو کیا توڑتی، اس نے تو الٹا اُنہیں مزید مضبوط کیا اور پھر جیل سے اُن کا رشتہ گہرا ہی ہوا۔ آخری عمر میں بھی گیلانی صاحب نظر بند ہی تھے۔

یہ خبر بھی پڑھیے: بھارتی قابض فوجی سید علی گیلانی کی میت بھی چھین کر لے گئے

سید علی گیلانی تحریک آزادی کشمیر کی توانا آواز تھے اور بغیر کسی اگر مگر کے پاکستان سے محبت کا نہ صرف اظہار کرتے تھے بلکہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی بات کرتے تھے۔ ساری زندگی ببانگ دہل وادی پر بھارتی قبضے کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اور اس کی قیمت بھی ساری زندگی ادا کرتے رہے۔

گیلانی صاحب نے کبھی خود کو بھارتی شہری نہیں مانا۔ وہ صاف الفاظ میں کہتے تھے کہ بھارت نے کشمیر پر ظالمانہ قبضہ کیا ہوا ہے، کشمیریوں کو حق خود ارادیت کا حق دیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ دیتے تھے کہ کشمیر پاکستان کا ہے اور ہم سب بھی پاکستانی ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ وہ ہر بھارتی حکومت کےلیے درد سر بنے رہتے تھے۔ کشمیر کے لوگ بھی اُن کی ایک کال پر لبیک کہتے تھے۔

اگر سید صاحب کہتے کہ آج کشمیر میں ہڑتال ہوگی تو اس روز کشمیر میں ہڑتال ہوتی تھی، جس کی گونج دنیا بھر میں سنی جاتی۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں پاکستان کا یوم آزادی اہتمام سے منانے کا آغاز بھی سید علی گیلانی نے ہی کیا۔

یہاں اہتمام سے منانے کا مطلب کچھ اور ہے، اور وہاں اہتمام سے منانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان کے جھنڈے کا بندوبست کرنا، اور پھر اسے تب تک چوک میں لہرانا کہ جب تک مسلح بھارتی فوج خود آکر فائرنگ اور آنسو گیس کے سیلاب میں جھنڈا اتارنے کی کوشش نہ کرے۔

تب بھی بس نہ کرنا بلکہ نہتے ہوتے ہوئے بھی پتھروں سے مسلح فوج کا مقابلہ کرنا اور پاکستان کے جھنڈے کی حفاظت کرتے رہنا۔

یہ خبر بھی پڑھیے: سید علی گیلانی سری نگر میں سپرد خاک، بھارت نے وادی میں غیر اعلانیہ کرفیو لگادیا

اب سوچیے کہ کشمیر کی ایک نسل کو پاکستانی بنانے کا سہرا کس کے سر جاتا ہے؟ کس نے کشمیریوں کو آزادی کی اہمیت سمجھائی؟ پاکستان سے محبت سکھائی؟

یہ سید علی گیلانی ہی تھے جنہوں نے اپنے عہد سے وفا کی، جنہوں نے اپنی جان تحریک کےلیے وقف کر دی۔ وہ چاہتے تو کم از کم کروڑوں تو کما ہی سکتے تھے لیکن جس گھر سے سید علی گیلانی کی میت کو بھارتی فوج کی سخت سکیورٹی میں اٹھایا گیا، وہ گھر جماعت اسلامی کی ملکیت ہے۔

سیدعلی گیلانی کا اثاثہ کیا تھا؟ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی محبت اور تحریک آزادی کشمیر!

سید علی گیلانی نے ساری زندگی بھارتی مظالم کے خلاف لڑتے ہوئے گزاری اور بھارت ایسا کمینہ دشمن ثابت ہوا ہے کہ ان کی وفات پر بھی نرم نہیں پڑا۔

سید علی گیلانی شہداء کے قبرستان میں دفن ہونے کے خواہش مند تھے اور ان کی وصیت بھی یہی تھی۔

لیکن جیسے ہی ان کی وفات کی خبر پھیلی تو بھارتی فورسز نے ان کے گھر کا گھیراؤ کرلیا۔ پھر علاقے کا مواصلاتی نظام منقطع کیا اور آخر میں پوری وادی میں ہی غیر اعلانیہ کرفیو لگاتے ہوئے موبائل فون اور انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی نظام کو جامد کردیا ہے۔

فورسز نے زبردستی نماز فجر سے بھی پہلے اُن کا جبری جنازہ ادا کروایا اور حیدر پورہ میں ہی مسجد کے احاطے میں اُن کی زبردستی تدفین کروائی گئی ہے۔ نماز جنازہ میں ان کے اہل خانہ اور چند اہل محلہ ہی شامل تھے۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ خدا دشمن بھی دے تو نسلی اور ظرف والا دے۔

اس وقت کی اطلاعات کے مطابق سید علی گیلانی کا گھر، اُن کا آبائی علاقہ اوراُن کی آخری آرام گاہ کو سیل کر دیا گیا ہے اور وہاں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں۔

ہم پاکستانی سید علی گیلانی سے بہت محبت کرتے ہیں اور اب توہمیشہ کرتے ہی رہیں گے۔

کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے نظریے اور اس کےلیے جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے ریاست پاکستان نے یوم آزادی 2020 پر سید علی گیلانی کو نشان پاکستان سے نوازا تھا۔

تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ ہر پاکستانی اُن سے محبت کرتا تھا اور کرتا رہے گا۔

ایک 50 سیکنڈ کا ویڈیو کلپ ہے جو ہر پاکستانی پر قرض ہے۔ میں آج جب یہ سطور گھسیٹ رہا ہوں تو یہی سوچ رہا ہوں کہ اب کون سری نگر میں بھرے مجمعے کو گرمائے گا؟ مقبوضہ وادی میں کون پاکستان کی سفارتکاری کرے گا؟ سید علی گیلانی ہم سب سے بڑے پاکستانی تھے، اور اب کون ہے جو بندوقوں کے سائے میں پاکستان کا نعرہ بلند کرے گا؟

سید زادے نے سید ہونے کا حق ادا کیا، حسین بن علیؓ کی طرح سعادت کی زندگی گزاری۔ جسے حق سمجھا تو پھر مرتے دم تو اُسی کو حق سمجھا۔

سید علی گیلانی کشمیر میں ایک چوک میں بیٹھے ہیں، سامنے ہزاروں کا مجمع ہے، بوڑھے ہو کر بھی اپنی گرجدار آواز میں مجمع سے کہہ رہے ہیں:

’’اسلام کی نسبت سے،
اسلام کے تعلق سے،
اسلام کی محبت سے،
ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے
ہم پاکستانی ہیں!‘‘

اور ساتھ ہی مجمع دیوانہ وار چلا اُٹھا، ’’پاکستان ہمارا ہے!‘‘

اب کون سری نگر میں یہ نعرے لگائے گا؟

جب تاریخ لکھی جائے گی تو ایک جانب بزدلوں کی، مصلحت پسندوں کی لمبی قطار ہوگی اور جو بہادروں کی قطار ہوگی، اس کی قیادت سید علی گیلانی ہی کریں گے۔

شاید ایسوں کےلیے ہی اللہ پاک سورۃ الفجر میں فرماتا ہے: ’’ارشاد ہوگا کہ اے اطمینان والی روح، اپنے رب کی جانب لوٹ چل، ایسے کہ تو اُس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی، میرے بندوں میں شامل ہو اور میری جنت میں داخل ہو۔‘‘

اللہ آپ سے راضی ہو سیدی۔ جائیے، اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیجئے۔ اِن شا اللہ، روزِ قیامت آپ سے ملاقات ہوگی۔ سیدی، الوداع!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔