سید علی گیلانی نے بدترین حالات میں بھی تحریک آزادی کو زندہ رکھا

عبید اللہ عابد  جمعـء 3 ستمبر 2021
مجھے تو پھول کھلانے ہیں، وہ لہو کے سہی....مجھے تو قرض چکا ناہے شاخساروں کا ۔  فوٹو : فائل

مجھے تو پھول کھلانے ہیں، وہ لہو کے سہی....مجھے تو قرض چکا ناہے شاخساروں کا ۔ فوٹو : فائل

’’ اس دیار فانی سے رحلت تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتا رہوں گا ۔‘‘

’’ کشمیر کے پہاڑوں پر کالی برف بھی پڑنے لگے ، ہم تب بھی آزادی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘

’’ یہاں نیشنل ازم نہیں چلے گا ، یہاں سیکولرازم نہیں چلے گا ، یہاں امریکا کا ورلڈ آرڈر نہیں چلے گا، یہاں صوبائیت اور قومیت نہیں چلے گی ، یہاں صرف اور صرف اسلام کا سکہ چلے گا ، اسلام کے تعلق سے اور اسلام کی نسبت سے اور اسلام کی محبت سے ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔ ‘‘

’’ بھارت اپنی ساری دولت ہمارے قدموں میں ڈال دے اور ہماری سڑکوں پر تارکول کے بجائے سونا بچھا دے ، تب بھی ایک شہید کے خون کی قیمت نہیں چکا سکتا۔‘‘

یہ زور دار آواز سید علی گیلانی ہی کی ہو سکتی تھی۔ یہ وہی تھے جنھوں نے کشمیری قوم کو حق خود ارادیت کا سبق سکھایا ۔کوئی کچھ بھی کہے تاہم ان سے بڑا رہنما کشمیری قوم کو نہیں ملا۔ انھوں نے کشمیر کو پاکستان کا فطری حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا ،اسی لیے وہ پاکستانیوں سے بڑے پاکستانی قرار پائے۔

دنیا میں سب سے زیادہ قید و بند کی صعوبتیں کسی حریت پسند رہنما نے سہیں تو وہ سید علی گیلانی ہی تھے، نیلسن منڈیلا کا نام بھی ان کے بعد ہی آتا ہے۔ تمام تر مظالم سہنے کے باوجود سید علی گیلانی اپنے موقف سے بال برابر پیچھے نہیں ہٹے۔ کوئی ترغیب کام آسکی، نہ ہی کوئی جور اور جبر ۔ بھارتی حکومتیں مسلسل کشمیریوںکے مقبول ترین رہنما سے خائف ہی رہیں۔

ان کی رحلت کے بعد بھارت پہلے سے بھی زیادہ خوف زدہ ہے۔ بھارتی حکام نے سید علی گیلانی کی میت اہل خانہ سے چھینی اور اپنے تئیں تدفین کر دی۔ سید صاحب کے صاحبزادے نعیم گیلانی کے بقول ’’ ابا جان کو کس نے غسل دیا، اْن کے جنازے میں کون شامل ہوا اور ان کی کس نے تدفین کی؟ اس کا ہمیں بالکل پتا نہیں۔‘‘ دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر نسیم گیلانی نے بتایا:’’ ہم نے ابا جان کی قبر کو آج صبح دس بجے کے قریب دیکھا اور وہاں فاتحہ پڑھی۔‘‘

سید علی گیلانی کے نمائندہ خصوصی عبداللہ گیلانی کا کہنا تھا کہ سید علی گیلانی کے اہلِ خانہ پر تشدد بھی کیا گیا ، اہل خانہ کا مطالبہ تھاکہ سید علی گیلانی کی تدفین ان کی خواہش کے مطابق مزار شہداء میں کرنے دی جائے۔ بھارتی میڈیا نے بھی اعتراف کیا کہ سید علی گیلانی کی حیدر پورہ قبرستان میں صبح ساڑھے چار بجے تدفین کی گئی، نماز جنازہ اور تدفین میں چند قریبی افراد کو ہی شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہوا جس میں ایک فوجی افسر واضح طور پر کہہ رہا تھا کہ کسی کو بھی سید علی گیلانی کے گھر جانے اور نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دوسری جانب قابض بھارتی فورسز نے پورے جموں و کشمیر بالخصوص دارالحکومت سری نگر کومکمل طور پر بند کر دیا، وادی میں کرفیو نافذ کر کے مواصلاتی رابطے بھی معطل کر دیے گئے ۔ وائس آف امریکا نے بھی بتایا کہ ’ سری نگر کے مختلف علاقوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کی اضافی نفری تعینات ہے جب کہ سیکیورٹی فورسز نے حیدر پورہ علاقے کی مکمل ناکہ بندی کر دی ۔ انتظامیہ نے صحافیوں کو بھی حیدر پورہ کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی۔

سری نگر میں سخت کرفیو نافذ ہے اور کسی بھی جگہ جلسے یا تعزیتی اجتماعات منعقد کرنے یا جلوس نکالنے پر پابندی ہے۔ سوپور، بارہمولہ ، کپواڑہ ، بانڈی پور، اننت ناگ، پلوامہ، کلگام، ترال اور کئی دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی سخت حفاظتی پابندیاں نافذ کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔‘

سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد ، کیا بھارت کشمیر میں آزادی کی تحریک کو دبا سکے گا؟ جیسے ہی سید صاحب کی تدفین کی گئی ، پورے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ۔ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت کے یہ دعویٰ اب بھی مکمل طور پر غلط ہیں کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ ایسا ہوتا تو سید علی گیلانی کی میت کے ساتھ ناروا سلوک نہ ہوتا، کشمیر میں کرفیو نافذ نہ کرنا پڑتا ! کشمیری قوم اب بھی سید علی گیلانی کے راستے پر ہے۔ بد ترین مظالم ، کرفیو ، لاک ڈاؤن بھی کشمیری قوم کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کرسکے۔

سید علی گیلانی کیا چاہتے تھے؟

کشمیر کی تاریخ کے سب سے مقبول رہنما اپنے قیامِ لاہور کے دوران ، علامہ اقبال کے بعد جس دوسری شخصیت سے متاثر ہوئے ، وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ سید علی گیلانی لاہور میں تھے کہ والد نے بذریعہ خط انھیں واپس آنے کی ہدایت کی۔ وہ والد کا خط پڑھ کر کشمیر واپس آئے اور پھر یہاں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ آنے والے سارے برسوں ، عشروں میں وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر پورے جوش و جذبے کے ساتھ جدوجہد کرتے رہے۔ جماعت میں شامل ہوکر اپنی سحر انگیز تقاریر کے ذریعے جماعت اسلامی اور کشمیر کی سیاست میں نمایاں مقام و مرتبہ پر فائز ہوئے۔

انھوں نے جماعت اسلامی ہی کے ٹکٹ پر مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے لیے انتخابات میں بھی حصہ لیا۔1972ء ، 1977 ء اور 1987ء میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ تاہم بعد ازاں سید علی گیلانی اور جماعت اسلامی اس نتیجے پر پہنچے کہ انتخابات کے ذریعے حق خود ارادیت کا حصول ممکن نہیں ۔ چنانچہ انھوں نے حق خود ارادیت حاصل کرنے کے لئے ہمہ پہلو جدوجہد شروع کردی، جس میں نوجوانوں کی مسلح جدوجہد کی حمایت بھی شامل تھی ۔ یوں پوری وادی میں سید علی گیلانی کا نام گونجنے لگا۔

انھوں نے ’ آل پارٹیز حریت کانفرنس‘ کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے ، تمام حریت پسند جماعتوں کو جمع کیا ۔ بھارت نے ان کی مقبولیت اور قوت کو دیکھتے ہوئے ان سے دو طرفہ مذاکرات کی بارہا کوشش کی لیکن سید علی گیلانی نے ایسی ہر پیشکش کو مسترد کردیا ۔ ان کا موقف تھا کہ مذاکرات صرف بھارت اور کشمیری قیادت کے درمیان نہیں ہونے چاہئیں ، پاکستان بھی اس مسئلے کا فریق ہے، اس کے بغیر مذاکرات فضول مشق ثابت ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت مذاکرات کا ڈول ڈال کر وقت گزارنا چاہتا ہے۔ کشمیری قوم کی اکثریت نے سید علی گیلانی کے موقف کا ساتھ دیا۔

نائن الیون کے تناظر میں پاکستان کی جنرل پرویز مشرف حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بوسیدہ قرار دے کر بھارت کے ساتھ اعتماد سازی شروع کردی اور چار نکاتی فارمولا تیار کرکے مذاکرات کی میز پر آن بیٹھے۔ اُس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا کہنا ہے کہ اس فارمولے کے تحت پاکستان اور بھارت اتفاق رائے کے انتہائی قریب آ چکے تھے۔ تاہم سید علی گیلانی نے جنرل مشرف کے اس موقف کو غلط قرار دیا ، ان کے موقف کے مقابل جنرل مشرف کا فارمولا پنپ نہ سکا۔

نئی دلی میں پاکستانی سفارتخانے میں جنرل مشرف سے 2005 میں ہونے والی ملاقات میں سید علی گیلانی نے مشرف سے کہا کہ ’’ اْنھیں کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر اْن کے سیاسی مستقبل کا یکطرفہ فیصلہ لینے کا حق حاصل نہیں۔‘‘ یہ موقف اختیار کرنے سے سید علی گیلانی کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔

کشمیری قوم نے جنرل مشرف کے فارمولے کے تحت بھارت سے مذاکرات کرنے والے کشمیری رہنماؤں کو مسترد کردیا۔ سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں قانون کے پروفیسر شیخ شوکت حْسین کے مطابق ’’ گیلانی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اْن کا موقف مزید مضبوط ہوگیا اور وہ نوجوانوں کے لیڈر بن گئے۔ احتجاجی مظاہروں میں نوجوان اْن کی تصویر ایک انقلابی رہنما کے طور بلند کرنے لگے۔‘‘

اس کے بعد بھی سید علی گیلانی سے بھارت کی طرف سے متعدد بار رابطہ کیا گیا ، ان سے موقف میں لچک لانے کی درخواست کی گئی تاہم وہ اپنے اس موقف پر پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا ہے اور ’ اگر اس میں دلی کو دِقت ہے تو پاکستان ، انڈیا اور کشمیری قیادت کے درمیان بیک وقف سہ فریقی بات چیت بھی ایک متبادل ہے۔‘

2014ء کے بعد نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے سخت اور بدترین سلوک شروع کیا تو جنرل مشرف کے دور میں آل پارٹیر حریت کانفرنس کا الگ دھڑٖا بنانے والے’ ماڈریٹ ‘ کشمیری رہنماؤں نے اپنے موقف سے رجوع کیا، انھیں اندازہ ہوگیا کہ مذاکرات کی میز کی طرف بڑھنا ان کی غلطی تھی۔ اب وہ بھی سید علی گیلانی کے ساتھ آن کھڑے ہوئے۔

سید علی گیلانی کے موقف کو اس قدر مقبولیت کیوں ملی؟ دراصل سید علی گیلانی سے پہلے کشمیریوں نے شیخ محمد عبداللہ کو اپنا نجات دہندہ سمجھا ، تاہم جب انھوں نے 1971ء میں اندرا گاندھی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے کشمیر کا اقتدار سنبھال لیا تو کشمیریوں کی توقعات کا خون ہوگیا ۔ سید علی گیلانی کو مواقع بھی دستیاب ہوئے، انھیں کئی طرح کی ترغیب دی گئی لیکن انھوں نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یوں وہ کشمیریوں کے ہیرو بن گئے۔ کشمیری انھیں اپنے باپ کا درجہ دینے لگے۔ وہ آخری دم تک اس مقام پر فائز رہے۔

 سید علی گیلانی کے بعد ؟

ممتاز کشمیری تجزیہ نگار صدیق واحد کہتے ہیں:’’ گیلانی اپنی زندگی کی آخری دہائیوں میں بھی ’ مزاحمت کی علامت ‘ بنے رہے۔ انھوں نے اس سخت خول میں کامیابی سے چھید کیا جس نے بھارتی حکومت کی بے ایمانی بھری پالیسیوں کو چھتری دی ہوئی تھی۔ یہ ان ( سید ) کا ہمارے لئے تحفہ تھا۔ انھوں نے اپنا فرض ادا کردیا ‘‘۔

کشمیری قوم سید علی گیلانی جیسے بلند مرتبت رہنما کو کبھی نہیں بھول سکے گی۔ اگرچہ بھارتی سرکار نے کشمیریوں کو سید علی گیلانی کے جنارے میں شرکت سے ، عقیدت کا اظہار کرنے سے ہر صورت میں روکنے کی کوشش کی ہے لیکن سید علی گیلانی ایسے رہنما زندہ رہتے ہیں۔ کشمیری قوم جانتی ہے کہ آزادی میں کامیابی ہے اور اس کے لئے ایک ہی راستہ ہے جو سید علی گیلانی نے اختیار کیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سید علی گیلانی اپنے جانشینوں کو مشکل صورت حال سے دوچار کر گئے ہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کیا ان کے بعد کشمیری قیادت انہی کی طرح ثابت قدم رہ سکے گی؟

آخری ویڈیو پیغام

سید علی گیلانی کا آخری ویڈیو پیغام چار اگست کو جاری ہوا ، جو ان کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپ لوڈ ہوا۔ اس میں انھوں نے کہا : ’’ پانچ اگست کے بعد ہم نے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان ، اسلام آباد میں مقیم جناب سید عبداللہ گیلانی کو اپنا نمائندہ خصوصی مقرر کیا ہے۔ ان کی طرف سے جو بھی خطوط یا بیانات آپ کے سامنے آئیں ، وہ ہمارے ہی مانے جائیں۔آپ سے گزارش ہے کہ ان کو اپنا بھرپور تعاون دیں اور مدد کریں۔ ‘‘

علی گیلانی بڑے آدمی کیسے بنے؟ ان کی کہانی ، انہی کی زبانی

سید علی گیلانی 29ستمبر1929ء کو اس دنیا میں آئے تھے اور یکم ستمبر 2021ء کو خالق حقیقی کے بلاوے پر چل دئیے ۔ تعلیم کا آغاز بارہمولہ ، سو پور سے کیا، اعلیٰ تعلیم لاہور کے اورنٹئیل کالج میں حاصل کی ۔ ویسے تو سید علی گیلانی نے تین کتابوں ’ قصہ درد ‘ ، ’ دید و شنید ‘ اور ’ روداد قفس ‘ میں اپنی زندگی کا مفصل احوال بیان کیا ہے تاہم اگر کوئی مختصراً جاننا چاہے تو اس کے لئے انھوں نے اپنی کتاب ’ اقبال ، روح دین کا شناسا ‘ میں بھی نہایت خوبصورت نثر میں داستان حیات بیان کی ہے۔

’’ میرے والد بزرگوار مرحوم سید پیر شاہ گیلانی نہر زینہ گیر میں سیزنل قلی تھے یعنی صرف سینچائی کے چند مہینوں کے لئے ۔ وہ ماہوار دس روپیہ لیتے تھے۔ خود ان پڑھ تھے مگر بچوں کو پڑھانے کا بہت شوق اور تمنا رکھتے تھے۔ میرے بڑے بھائی مرحوم سید میرک شاہ گیلانی اور میں ’’ زوری منز ‘‘ سے بوٹینگو زینہ گیر کے پرائمری سکول میں پڑھنے جاتے تھے۔ ننگے پائوں ، کبھی بھوکے پیاسے اور دودھ کے بغیر ’’ ٹیٹھ چائے ‘‘ پی کر۔ زوری منز اور بوٹینگو کے درمیان بابا شکور الدین رحمۃ اللہ علیہ کی پہاڑی حائل تھی اور دوسرا راستہ نہر زینہ گیر کے کنارے کنارے جاتا تھا۔ ہم لوگ اکثر پہاڑی راستہ ہی اختیار کرتے تھے کیونکہ وہی زیادہ نزدیک پڑتا تھا۔

بڑے بھائی نے پرائمری سکول سے فارغ ہو کر ہر دو شیوہ سوپور میں ایک دینی عالم مرحوم سید ثنااللہ شاہ کے مکتب میں داخلہ لیا اور وہاں قرآن پاک ، کریما ، گلستان ، بوستان اور دوسری کتابوں کا درس لینا شروع کیا۔ میں نے بوٹینگو سکول میں تیسری اعزازی پوزیشن حاصل کرکے سرکاری وظیفہ دئیے جانے کی برکت سے سوپور ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ ساتویں جماعت تک میں بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھتا رہا ۔ مشکلات اور تنگ دستی کے باوجود میں امتیازی نمبرات کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ میری تقدیر میں ایک نیا پڑائو آگیا۔

مرحوم محمد الدین فوق ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، سیم پورہ زینہ گیر میں سکونت پذیر اپنے رشتہ داروں کے یہاں لاہور سے تشریف لائے تھے۔ میرے بڑے بہنوئی مرحوم سید عبدالعزیز شاہ ہمدانی جو لاہور وومنز کالج میں ملازمت کر رہے تھے، یہاں مرحوم غلام محمد صادق اور محترمہ محمودہ بیگم بھی زیر تعلیم تھے ، لاہور میں قیام کے دوران میں ان کا مرحوم فوق صاحب کے ساتھ تعارف تھا۔ ان کے بڑے بھائی سید مبارک شاہ ہمدانی ڈورو سوپور میں ہی اپنے آبائی گھر میں مقیم تھے۔ تعلیم کے ساتھ میری دلچسپی ، ذرائع اور وسائل کی کمی نے ان کو میرے بارے میں فکر مند بنایا تھا ۔

انھوں نے مجھے اپنے ساتھ لے کر مرحوم محمد الدین فوق کی خدمت میں حاضری دی تاکہ وہ اس بارے میں ہماری کچھ مدد اور رہنمائی کرسکیں۔ مرحوم فوق صاحب نے مجھے دیکھ کر بڑے پیار اور محبت کا اظہار کیا اور مرحوم مبارک صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ اس لڑکے کو میرے ساتھ لاہور بھیج دیں۔

میں ان کو وہاں پڑھائوں گا اور اپنی بڑی لڑکی کے گھر میں ان کے قیام کا انتظام کرائوں گا ۔ چنانچہ تعلیم کے شوق میں والدین نے سینے پر پتھر رکھ کر مجھے مرحوم فوق صاحب کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ بارہ ، تیرہ سالہ خوبرو لڑکا لاہور پہنچ کر ، مزنگ نامی بستی کے ایک گھرانے میں بٹھا دیا گیا۔ مرحوم فوق صاحب کے داماد محکمہ ڈاک خانہ جات میں بڑے آفیسر تھے اور صوبہ سرحد میں ڈیوٹی دے رہے تھے۔ ان کی دو تین لڑکیاں تھیں جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ پڑھائی کا تو انتظام نہ ہوسکا لیکن میں گھریلو نوکر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اقبال ؒ کی نظم ’’ پرندے کی فریاد ‘‘ میں نے غالباً سکول سوپور میں پڑھی تھی اور پوری نظم مجھے ازبر تھی۔ اس عرصے میں میرا کام صرف اور صرف اس نظم کا پڑھنا ، مکان کے صحن یا چھت پر بیٹھ کر رونا اور آنسو بہانا تھا…

میں یہ نظم پڑھتا تھا اور پھوٹ پھوٹ کر روتا تھا ۔ مجھے وُولر کے کنارے اپنی چھوٹی سی بستی یاد آتی تھی۔ عقب کی پہاڑی اور اس پر کبھی کبھی زیرہ کی تلاش میں چکوروں کی طرح اچھلنا کودنا ، اپنے غریب والدین کی محبت، ان کا پیار ، میری جدائی میں ان کے دکھ درد اور ان کے آنسو بہانا ، یہ سب کچھ مجھے بے حد اداس اور غمگین بناتا تھا۔ مرحوم فوق صاحب کی نواسیاں مجھے دلاسا دیتی تھیں ۔ ان کی بڑی بیٹی بھی اپنی اولاد کی طرح میری دیکھ بھال اور پیار کرتی تھیں لیکن مجھے اپنی تعلیم کے چھوٹ جانے اور گھر سے دور ہوجانے کا غم برابر اسی طرح ستاتا اور بے چین بناتا تھا جس طرح پرندہ قفس میں بند ہوکر اپنی فریاد کر رہا ہے۔

اقبال مرحوم کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا سوائے اس نظم کے جو میرے حال پر حرف بحرف چسپاں ہوتی تھی اور جس کو پڑھنے کے بجائے میری زبان دہراتی تھی۔ میری بے چینی ، بے بسی اور محرومی تقریباً ایک سال تک میرا تعاقب کرتی رہی۔ ایک سال کے بعد میں کیسے اکیلے اور تنہا لاہور سے بذریعہ ٹرین جموں پہنچا اور جموں سے سرینگر ، سرینگر سے سو پور ، سوپور سے زوری منز اپنے منتظر والدین کی خدمت میں، یہ ایک معجزاتی عمل تھا جس سے میں گزرا۔ جس کی یادیں ایک ڈرائونے خواب کی شکل میں میرے تحت الشعور میں منقش ہیں۔

گھر پہنچ کر کچھ دیر کئے بغیر میں نے پھر اپنا سلسلہ تعلیم شروع کیا اور سوپور میں دوبارہ داخلہ لے کر زوری منز سے پیدل سوپور اور واپس زوری منز آنے جانے کی روزانہ کی اس مشقت نے مجھے نڈھال بنادیا۔ اس عرصے میں بڑی ہمشیرہ کی شادی ’ ڈورو ‘ میں عبدالعزیز شاہ ہمدانی کے ساتھ ہوئی جو لاہور وومنز کالج میں ملازمت کر رہے تھے ۔

میری روزانہ کی مشقت پر ترس کھا کر ، مرحوم مبارک شاہ ہمدانی نے مجھے ’ ڈورو ‘ آکر تعلیم جاری رکھنے کی پیشکش کی چنانچہ اب ڈورو زینہ گیر سے طلبا کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ میں سوپور ہائی سکول میں زیر تعلیم رہا۔ یہاں سے فراغت پاکر مجھے دوبارہ لاہور کے آب و دانہ نے بلالیا۔ اس عرصے میں بڑے برادر سید میرک شاہ مرحوم کو بہنوئی کی وساطت سے اسی کالج میں ملازمت مل گئی تھی مگر اب کی بار لاہور میں میرے پیش نظر صرف تعلیم تھی اور کوئی مقصد نہیں۔

پنجاب کے ہر شہر میں بالعموم لاہور اور امرتسر میں بالخصوص کشمیر کے طلبا کی اچھی خاصی تعداد زیرتعلیم ہوا کرتی تھی۔یہاں رواج تھا کہ کشمیری طلبا مساجد میں رہتے تھے اور مساجد سے وابستہ محلوں کے لوگ ان طلبا کی خدمت ، کھانا ، پینا ، لباس اور کتابیں بڑے خلوص اور محبت کے ساتھ فراہم کرتے تھے۔

میں موچی دروازہ ، لال کنواں اور مسجد پیر گیلانیاں میں باری باری قیام کرتا رہا۔ میں نے مسجد وزیرخان میں حفظ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جو سورۃ بقرۃ اور آل عمران کے بعد منقطع ہوگیا۔ موچی دروازہ میں ’ مقام شہید میر بوٹینگو ‘ کے غلام محی الدین رفیقی صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ مسجد پیر گیلانیاں میں مرحوم حفیظ اللہ شتلوہ رفیع آباد کی سرپرستی اور نگہانی حاصل ہوئی۔اسی عرصے میں شاہی مسجد کی طرف آنا جانا رہا۔ مرحوم سید علی مصدر کی شفقت حاصل رہی جو نور القمرین کے والد بزرگوار تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے!

اقبال مرحوم کو دو سال رحلت فرمائے گزر چکے تھے، ان کی تربت کی مٹی ابھی تازہ اور تابندہ تھی۔ مجھے ان کی تربت کی قربت میں اتنا قلبی سکون اور طمانیت حاصل ہوتی تھی کہ میں گھنٹوں وہاں ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا تھا۔ اقبال ؒ کے کلام ، ان کے مرتبہ اور مقام سے میں بالکل بے خبر اور نابلد تھا مگر یہ کشش اور وابستگی کیوں تھی؟ یہ میرے لئے ایک معمہ تھا۔ اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ دہلی دروازے لاہور میں ایک کالج ہے جہاں دفتری اوقات کے بعد مشرقی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ میں نے وہاں جاکر دریافت کیا ، مرحوم آقا بیدار بخت خان وہاں پرنسپل تھے۔

انھوں نے ایک معصوم کشمیری لڑکے کو دیکھا تو کھل اٹھے۔ بغیر کوئی فیس لئے مجھے ادیب عالم میں داخلہ دیا، حالانکہ ابتدائی درجہ ادیب کا تھا مگر انھوں نے میرے بول چال اور چہرہ مہرہ سے اندازہ لگالیا کہ کشمیریوں کی تر دماغی کا کچھ نہ کچھ حصہ یہاں بھی موجود ہے۔

کالج میں داخلہ لینے کے بعد لاہور کے ادبی رسائل ، ادبی محفلیں ، مشاعرے اور مباحثے اب میری مصروفیات کا اہم حصہ بن گئیں۔ ’’ ادیب ‘‘ ، ’’ ہمایوں ‘‘ ، ’’ نقوش ‘‘ ’’ الہلال ‘‘ ، ’’ مخزن ‘‘ اور ’’ البلاغ ‘‘ انہی ایام میں میرے مطالعہ میں آئے۔ انجمن حمایت الاسلام کی کوئی تقریب مجھ سے چھوٹتی نہ تھی۔ مرحوم رفیقی صاحب ان ساری ادبی مصروفیات میں میرے ہم دوش رہتے تھے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ! مقام شہید کے بزرگ ، خدا دوست اور نہایت ہی متدین شخصیت مرحوم شریف الدین رفیقی ان کے والد بزرگوار تھے۔

اللہ ان کی مغفرت فرمائے ! آج کل ان کی پڑپوتی میرے لڑکے نسیم الظفر گیلانی کے عقد نکاح میں ہے۔ کالج میں پرنسپل صاحب نکیات سخن ، محمد حسین آزاد مرحوم ، مولانا حالی مرحوم اور دوسرے مضامین خود ہی پڑھاتے تھے۔ اقبال مرحوم پروفیسر عاشق حسین پڑھاتے تھے۔ اقبال کی جان پہچان ، ان کے کلام کا تعارف ، ان کے فلسفہ خودی اور 1908ء سنہ کے بعد ان کے ارتقائی منازل سے انھوں نے ہی واقفیت بہم پہنچائی اور مجھے تربت اقبال ؒ پر غیر شعوری طور پر حاضری دینے کا راز معلوم ہوگیا۔

بانگ درا ، ضرب کلیم ، بال جبریل ، درساً پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ اقبال ؒ اللہ کی طرف سے پوری ملت کے لئے ایک انعام تھا۔ کاش ! ملت اس انعام الٰہی کی قدر کرتی تو آج کے زوال ، انحطاط اور ادبار سے محفوظ و مامون رہتی۔ ادیب عالم سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرکے میں ادیب فاضل میں داخلہ لینا چاہتا تھا کہ میری تقدیر نے پھر پلٹا کھایا۔ والد مرحوم نے کسی سے خط لکھوایا کہ میں بیمار ہوں، آپ ملاقات کے لئے جتنا جلد ممکن ہوسکے گھر چلے آئو۔ میرے دل و دماغ میں زبردست زلزلہ آیا۔ کالج کی پڑھائی، اساتذہ خاص طور پر پرنسپل اور پروفیسر عاشق حسین کی محبت ، دلجوئی اور کرم فرمائی نے مجھے دنیا و مافیہا سے بالکل لاتعلق بنا دیا تھا، لاہور کے علمی اور ادبی ماحول نے میرے پروبال میں اڑان کی شاہینی قوت پیدا کردی تھی۔‘‘

سید صاحب ساری زندگی اسی شاہینی قوت کے ساتھ ظالم کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تو شیخ محمد عبداللہ سمیت بعض کشمیری سیاست دانوں کی طرح جبر ناروا سے مفاہمت کرکے آسائش بھری زندگی گزار سکتے تھے لیکن انھوں نے زندگی اپنے لئے نہیں ، کشمیری قوم کے لئے گزاری۔ سید علی گیلانی نے مادی اعتبار سے مشکلات بھری زندگی گزاری ۔ اپنی کتاب ’ وولر کنارے ‘ میں لکھا :

میری سادہ دل والدہ مجھ سے پوچھا کرتی تھیں کہ سرکار تمھیں کیوں بار بار گرفتار کرتی ہے؟ میں جواب میں کہتا کہ میں ’ وعظ ‘ پڑھتا ہوں (یعنی تقریر کرتا ہوں)۔ وہ جواب میں کہتی تھیں: ’’ وعظ تو اور بھی بہت سارے لوگ پڑھتے ہیں انھیں کیوں نہیں گرفتار کیا جاتا؟‘‘

سید علی گیلانی نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کیں۔ جن میں ’ روداد قفس ‘ ، ’ نوائے حریت ‘ ، ’ دید و شنید ‘ ، ’ بھارت کے استعماری حربے ‘ ، ’ صدائے درد ‘ ۔ ’ ملت مظلوم ‘ ، ’ مقتل سے واپسی ، رانچی جیل کے شب و روز ‘ ، ’ اقبال روح دین کا شناسا ‘ اور ’ وولر کنارے ‘ بھی شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔