سندھ کو بھرپور سیاسی پیغام دیں

نصرت جاوید  جمعرات 30 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

غوث علی شاہ اور سردار ممتاز بھٹو کے بعد اب لیاقت جتوئی بھی نواز شریف کی مسلم لیگ سے ناراض ہوگئے ہیں۔ شاہ صاحب کی ناراضگی تو کسی حد تک سمجھی جاسکتی ہے۔ اقتدار میں انھیں پیر پگاڑا 1985ء میں لے کر آئے تھے اور اس ضمن میں ان کی اہمیت کا عالم یہ تھا کہ وہ ہائی کورٹ کے بنچ سے اُٹھا کر سیدھا وزیر اعلیٰ سندھ کی مسند پر بٹھا دیے گئے۔ جس ایوان یعنی سندھ اسمبلی کے قائد ہونے کا اعزاز انھیں بخشا گیا اس میں ایک نشست انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد مبینہ جھرلو مارکہ ضمنی انتخاب کے ذریعے حاصل کی۔ پیر پگاڑا اور بقول ان کے ’’جی ایچ کیو میں بیٹھے ان کے سرپرستوں‘‘ کی اس مہربانی کے باوجود شاہ صاحب 1990ء سے پنجاب سے ابھرے نواز شریف کے قریب آنا شروع ہوگئے۔ خیرپور کی ایک نشست سے وہ انتخاب ہارے تو نواز شریف نے انھیں نارووال سے قومی اسمبلی میں لاکر وزیر دفاع بنا دیا۔ اس سال سے 12اکتوبر 1999ء تک شاہ صاحب ان کے وفادار رہے۔ ایسی وفاداری کے باوجود جنرل مشرف سے جان چھڑا کر سعودی عرب جاتے ہوئے نواز شریف نے غوث علی شاہ کو بھلا دیا۔ اپنی سادگی میں شاہ صاحب اپنے بھلائے جانے کا تذکرہ تو اکثر کرتے رہے مگر نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ مسلسل جڑے رہے۔ 2013ء میں پاکستان کا تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف انھیں کسی نہ کسی عہدے پر Adjustکرسکتے تھے۔ میرے بھائی عرفان صدیقی کی طرح کوئی نہ کوئی جگہ شاہ صاحب کے لیے بھی ڈھونڈی جاسکتی تھی۔

سردار ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی کے معاملات شاہ صاحب سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ دونوں حضرات طاقتور وڈیرے ہیں۔ خود کو کسی زمانے کے نواب آف کالا باغ کی کلاس کا سخت گیر منتظم سمجھتے ہیں۔ ڈیرے دار ہیں۔ان کے وفادار دھڑے ہیں اور ’’دھڑوں‘‘ کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے تھانے کچہری کی سیاست کرنا پڑتی ہے۔ موجودہ وفاقی حکمرانوں کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ آئین میں 18ویں ترمیم آچکی ہے۔ صوبائی انتظامیہ اب اسلام آباد نہیں اپنے اپنے وزرائے اعلیٰ کی منظورِ نظر رہنے پر خود کو مجبور محسوس کرتی ہے۔ ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی کے وفاداروں کے خلاف جھوٹے سچے مقدمے بنا دیے جائیں تو اسلام آباد سے آئے فون انھیں کوئی تحفظ فراہم نہیں کرسکتے۔ جائیں تو جائیں کہاں۔ اپنی ’’چوہدراہٹ‘‘ کا بھرم قائم رکھنے کے لیے پریس کانفرنسوں کے ذریعے ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی کو نوازشریف سے گلے شکوے کرنا پڑتے ہیں تاکہ ان کے ’’دھڑے‘‘ کچھ مطمئن ہوجائیں۔

ذرا گہرائی میں جائیں تو ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی آپ کو 1990ء کی دہائی میں قید ہوئے نظر آتے ہیں۔ آٹھویں ترمیم کی بدولت ان دنوں پیپلز پارٹی سے نفرت کرنے والوں کے پاس ایک بااختیار صدر ہوا کرتا تھا۔ وہ وزیر اعظم سے بالا بالا صوبائی اور خاص طور پر سندھ کے معاملات ’’ایجنسیوں‘‘ وغیرہ کے ذریعے سنبھالے رکھتا تھا۔ جام صادق علی مرحوم سے لے کر ارباب رحیم تک یہ روایت جاری رہی۔ ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ اب اس روایت کے دن پورے ہوچکے ہیں۔ نواز شریف 18ویں ترمیم، آزاد عدلیہ اور بے باک میڈیا کے ہوتے ہوئے ممتاز بھٹو یا لیاقت جتوئی کو 2014ء کا جام صادق علی یا ارباب رحیم نہیں بناسکتے۔ نواز شریف کی ایک اور مجبوری یہ بھی ہے کہ جلد یا بدیر انھیںامن و امان کی بحالی کے لیے ایک فیصلہ کن قدم اٹھانا پڑے گا۔ ان اقدامات کو منتخب حکومت کے ’’قابو‘‘ میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ چند سخت گیر قوانین قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروائے جائیں۔ ’’تحفظِ پاکستان‘‘ والا قانون وہ قومی اسمبلی سے پاس کروا بھی لیں تو معاملہ سینیٹ میں اٹک جائے گا۔ جہاں پیپلز پارٹی اور اے این پی عددی اعتبار سے سب سے بڑا گروپ ہیں۔ سینیٹ میں معاملہ اٹک گیا تو ’’سول سوسائٹی‘‘ عدلیہ کے ذریعے ایسے قوانین کا راستہ روک دے گی۔ منتخب حکومت کی امن و امان کی بحالی کے لیے کوششوں کے حوالے سے ’’مجبوریاں‘‘ پوری دنیا پر عیاں ہوجائیں گی اور اس ضمن میں سارا اختیار پھر اسی جگہ موجود نظر آئے گا جہاں 1977ء کے بعد سے جانا شروع ہوگیا تھا اور کبھی حقیقی معنوں میں سیاستدانوں کے پاس واپس نہیں لوٹا۔

ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی کی مسلم لیگ سے ناراضگی کے حوالے سے جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سندھ میں ’’سب اچھا‘‘ ہے۔ کئی ماہ سے اس کالم میں تواتر کے ساتھ میں تو بلکہ اس بات پر اصرار کیے چلاجارہا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں ایک نئے سیاسی Narrativeکی ضرورت سندھ میں سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ ایک ایسا بیانیہ جو سندھ کے تمام باسیوں کو نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہوکر ایک جدید ریاست کا شہری بنانے کی طرف لے کر جائے اور ان شہریوں کے حقوق کا ادراک کرتے ہوئے انھیں اپنی ذمے داریوں کا احساس بھی دلائے۔ کئی بار یہ بات بھی دہراچکا ہوں کہ 1988ء سے ’’دیہی‘‘ اور ’’شہری‘‘ کے نام پر سیاست کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال سندھ کو مفلوج بنارکھا ہے۔ نواز شریف خود کو Economy Drivenبناکر پیش کیا کرتے ہیں۔ وہ اس حوالے سے لیکن کوئی پیغام سندھ تک نہ پہنچا پائے۔ ان کی عدم دلچسپی نے تحریک انصاف کو مئی 2013ء میں اپنا جلوہ دکھانے کا بھرپور موقع عطا کیا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اس جلوے کی اہمیت سمجھ ہی نہ پائے۔

پشاور میں دھرنے دے کر نیٹو سپلائی رکوانے میں مصروف ہوگئے۔ بہت عرصے کے بعد جب عمران خان کو سندھ ذرا یادآیا تو شاہ محمود قریشی کی معیت میں عمر کوٹ پہنچ گئے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ شاہ محمود قریشی جب سندھ جاتے ہیں تو پیغام تحریک انصاف کا نہیں پہنچتا۔ ’’گدی‘‘ کی بنیاد پر چلائی ’’غوثیہ تحریک‘‘ کا صرف ایک بھاری اجتماع ہوجاتا ہے۔ پیری مریدی کی بنیاد پر سیاست کی جاسکتی تو پیر پگاڑا کے سامنے کبھی کوئی چراغ سندھ میں لو نہ دے پاتا۔ اب تو ’’سروری جماعت‘‘ کے مخدوم امین فہیم کو بھی ہالہ کے بازاروں میں آکر ووٹ مانگنے کے بعد اپنی ’’آبائی نشست‘‘ کو بچانا پڑتا ہے۔ اسلام آباد اور لاہور کے محل نما گھروں میں مقید نواز شریف اور عمران خان جیسے سیاستدانوں کو پورے خلوص سے جان لینا چاہیے کہ سندھ کا عام ووٹر سیاسی اعتبار سے بہت باشعور اور توانا ہے۔ اسے ’’وڈیروں کے بے بس ہاریوں کے ہجوم‘‘ کا محض ایک حصہ جان کر اس کی توہین نہ کیجیے۔ کوئی بھرپور سیاسی پیغام لے کر اس تک پہنچیں اور پھر ’’عام آدمی‘‘ کے چمتکار دیکھئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔