زمانہ مشتاق ہے

غزالہ عزیز  جمعرات 30 جنوری 2014

جب کچھ نہیں ہے بتانے کو تو ۔۔۔۔ بہت کچھ ہے چھپانے کو۔۔۔۔ لیکن اس بہت کچھ کو کیسے چھپایا جائے ۔۔۔۔ خیر ہو میڈیا کی اس کے پاس تو ایک سو ایک طریقے ہیں ۔۔۔۔ سو بین الاقوامی میڈیا اب جس چیز کے لیے سب سے زیادہ فکرمند ہے وہ یہ کہ کیا افغان دوبارہ خانہ جنگی کا مزہ چکھیں گے؟ پھر یہ بھی بڑا اہم سوال ہے جو میڈیا نے نہایت فکر مندی سے اٹھایا ہے کہ کیا اپریل 2014ء میں ہونیوالے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہو کر آنے والے صدر اتنے باصلاحیت ہوں گے کہ وہ طالبان سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوں گے؟

اہم سوالات کے پردے جس چیز کو چھپانے کے لیے ڈالے جا رہے ہیں وہ یہ کہ امریکا اور نیٹو ممالک افغانستان سے جا رہے ہیں شکست کھا کر۔۔۔۔ لیکن جاتے جاتے وہ افغان عوام کو خانہ جنگی کے عذاب میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کے پردے میں کیا ہے اس کا مشتاق تو سارا زمانہ ہے۔۔۔۔ کہ

جو تھا نہیں ہے‘ جو ہے نہ ہو گا‘ یہی ہے اک حرف محرمانہ!

قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ

سو زمانہ قریب ترین نمودار ہونے والے واقعہ کا مشتاق ہے۔۔۔۔ اور ہمیشہ سے ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔زمانہ اس وقت بھی مشتاق تھا جب امریکی طیارے افغانستان کے شہروں اور آبادیوں پر کارپٹ بمباری کر رہے تھے۔ افغانوں کو جھکانے کے لیے امریکا نے اپنی ہی نہیں ایک دنیا کی عسکری طاقت لگا دی تھی۔ دنیا کے 74 ممالک نے کسی نہ کسی انداز سے ساتھ دینے کا اقرار کیا تھا۔ جاپان جس کا آئین فوجی تصادم میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا اس نے بھی اپنی پارلیمنٹ سے اجازت لی اور اپنے چار جنگی جہاز بھیجے خفیہ معلومات ٹرانسپورٹ اور میڈیکل کی سہولتیں فراہم کیں۔ذرا تصور کریں ساری دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی افواج ایک ایسی نہتے اور بے سروسامان قوم پر یلغار کے لیے اکٹھی ہوئیں جس کا قصور اگر کوئی تھا تو صرف اتنا کہ اس نے امریکا کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا۔۔۔۔ اور اپنے ملک میں اسلامی اقدار کی سر بلندی کا اہتمام رکھا۔ افغانستان آزاد افغانوں کا دیس کہ جہاں بقول ابوالاثر حفیظؔ  جالندھری:

نہ اس میں گھاس اگتی ہے نہ اس میں پھول کھلتا ہے

مگر اس سر زمین کو آسمان بھی جھک کے ملتا ہے

اب زمانہ حیرت اور تجسس سے دیکھ رہا ہے کہ امریکی قیادت کی زبان پر ’’انخلا‘‘ کا لفظ ہے۔مغربی میڈیا طالبان کی واضح جیت کے امکان نہ ہونے کا غلغلہ مچا رہا ہے۔۔۔۔کیونکہ ’’بیرونی افواج‘‘ کے انخلا کے بعد ان کے سامنے افغان فوج اور پولیس ہو گی جس کی ’’اعلیٰ تربیت‘‘ متاثر کن ہے۔ اس بات کا سادہ مطلب یہ ہے کہ امریکی اور مغربی افواج جو اب تک ان سے نبرد آزما تھیں اور اب تھکی ہاری شکست خوردہ واپسی کی راہ لے رہی ہیں۔۔۔۔ان کی تربیت متاثر کن تھی ہی نہیں جب ہی انھیں ’’واضح کامیابی‘‘ حاصل نہ ہوئی۔افغانستان پر فوج کشی اور کرزئی حکومت کو قائم ہوئے بارہ سال ہو گئے لیکن افغانستان میں صوبوں اور دیہی علاقوں میں حکومت کا نام و نشان نہیں ہے۔ غیر ملکی افواج کے اہلکار اپنے اڈوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں۔اس وقت امریکا کے اپنے خفیہ ادارے رپورٹ دے رہے ہیں کہ 2017ء تک وہ سب کچھ مکمل طور پر زائل ہو جائے گا جو اب تک اتحادی اور امریکی افواج نے حاصل کیا۔ ساتھ ہی پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر سیکیورٹی معاہدے پر جلد دستخط نہ ہوئے تو افغانستان میں امن تیزی سے خراب ہو سکتا ہے کیونکہ اس معاہدے کے بعد ہی امریکی اور مغربی اقوام افغانستان میں سالانہ کئی ارب ڈالر کی امداد فراہم کریں گے جو افغانستان جیسے غریب ملک کی فوج اور پولیس کی ’’متاثر کن کارکردگی‘‘ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔بہرحال واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو اب امریکی اور برطانوی حکومتیں اور افواج ان کی مدد کے لیے واپس نہیں آئیں گی۔ واپس آ بھی کیسے سکتی ہیں جب کہ وہ جائیں گی ہی نہیں۔

انخلا کا لفظ زبان پر ضرور ہے لیکن ساتھ ہی اس سیکیورٹی معاہدے پر جلد از جلد دستخط بھی درکار ہیں جس معاہدے کے اہم نکات میں اپنی افواج کے قیام کے لیے نو فوجی اڈوں کا حصول تو ہے اور جس کے لیے کرزئی مئی 2013ء میں کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم امریکا کو اڈے دینے پر رضامند ہیں‘‘ صدر کرزئی کو باقی نکات بھی قبول تھے جن میں سے ایک اہم نکتہ امریکی فوج کو افغان بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں پر گولیاں چلانے کی مکمل اجازت دیتا ہے یعنی کسی بھی جرم پر امریکی فوجیوں پر افغانستان کی کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا یوں امریکی فوجیوں کو کسی بھی جرم پر مکمل استثنیٰ حاصل ہو گا۔اس وقت صدر کرزئی کچھ مطالبات کے ساتھ میدان میں اترے ہیں جن میں سرفہرست یہ مطالبہ ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے آغاز میں مدد دی جائے۔ یہ مطالبہ درپردہ امریکا کا ہی ہے جس کو طالبان کو میز پر لانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔کیا زمانے کا الٹ پھیر ہے۔۔۔۔سو جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔سپر پاور کا ستیا ناس ہو چکا ہے۔ چھپانے کو یہ نکتہ بہت ہے۔۔۔۔لیکن چھپائے نہیں چھپ رہا۔۔۔۔کیا عجوبہ ہے؟ وہ طالبان جو نہ باقاعدہ فوج رکھتے ہیں نہ حکومت۔۔۔۔اور نہ ہی کسی قسم کی ٹیکنالوجی۔ اس سے مذاکرات کی تمنا میں بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔

افغانستان میں خانہ جنگی کے اثرات زیادہ تھے یا امریکی اور اتحادی حملے کے؟ پھر افغانستان کی ممکنہ دوبارہ ہونے والی خانہ جنگی سے خوفزدہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟طالبان ترجمان کہتے ہیں افغانستان میں امن کی بحالی مغرب کی ذمے داری نہیں انھیں صرف اتنا کرنا ہے کہ افغانستان سے مکمل طور پر نکل جانا ہے کیونکہ ان کی موجودگی یہاں کی بدحالی کی ذمے دار ہے۔سیکیورٹی معاہدے کے نام پر افغانستان میں فوجی اڈے اور خون بہانے کی مکمل آزادی امریکا کی خواہش ہے تا کہ اگر افغان حکومت بعد میں امریکی فیصلوں کو نافذ کرنے میں ناکام ہو یا اس کے نفاذ میں دلچسپی نہ لے تو امریکا اپنے فیصلوں کے لیے دباؤ ڈال سکے۔

اس پورے علاقے کے کنٹرول اور ایشیائی ممالک میں داخلے کے لیے افغانستان پر کنٹرول لازم درکار ہے۔ یہاں کے قدرتی وسائل بھی نہایت اہم ہیں۔ کرزئی سے معاہدے پر دستخط مشکل نہیں لیکن امریکا ایک طرف پاکستان کو طالبان سے مذاکرات سے روکنا چاہتا ہے اور دوسری طرف خود طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان کو ایک مہرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔مستحکم اور کنٹرولڈ افغانستان اور طاقت ور بھارت امریکا کا خواب ہے جس کی تکمیل پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا پاکستان کو کمزور سے کمزور ریاست بنا کر اپنا آلہ کار بنانا اصل منصوبہ ہے۔ جس کے لیے ساری کوششیں کامیابی کے ساتھ جاری ہیں۔ اس وقت تک جب تک پاکستانی عام انگڑائی لے کر جاگ نہیں جاتے۔۔۔۔ لیکن مثل مشہور ہے سوتے کو تو جگایا جا سکتا ہے لیکن جاگتے کو کیسے اٹھایا جائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔