سرسید احمد خاں، انگلش میڈیم اور لبرل طبقہ

ڈاکٹر شوکت علی  پير 6 ستمبر 2021
سرسید انگلش میڈیم کے متوازی دوسرا تعلیمی نظام چاہتے ہیں، جہاں جدید تعلیم اردو میڈیم میں دی جاسکے۔ (فوٹو: فائل)

سرسید انگلش میڈیم کے متوازی دوسرا تعلیمی نظام چاہتے ہیں، جہاں جدید تعلیم اردو میڈیم میں دی جاسکے۔ (فوٹو: فائل)

جب سے وزیراعظم نے انگلش میڈیم نظام تعلیم کو ذہنی غلامی سے تعبیر کیا ہے پاکستان میں ایک مخصوص طبقے نے انہیں نشانے پر رکھ لیا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ قائداعظم بھی تو انگلش میڈیم اداروں کے تعلیم یافتہ تھے، وہ تو ذہنی غلام نہیں تھے۔ کوئی سرسید احمد خاں کا حوالہ دیتا ہے اور علی گڑھ کالج کی بات کرتا ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

مملکت خداداد پاکستان میں قائداعظم کس طرح کا تعلیمی نظام چاہتے تھے، اس بات سے تو زیادہ تر لوگ واقف ہی ہوں گے۔ البتہ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ سرسید احمد خاں بھی اردو ذریعہ تعلیم کے حامی تھے۔ سرسید زندگی بھر اس بات کے قائل رہے کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر، ہندوستان کے عام باشندوں کی تعلیم کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ 1867 میں سرسید نے وائسرائے ہند کو ایک خط لکھا۔ خط میں سرسید نے ایک ایسے تعلیمی ادارے کے قیام کی تجویز پیش کی جہاں کلکتہ یونیورسٹی میں رائج انگریزی نصاب کو، اردو میڈیم میں پڑھانے کا بندوبست ہو۔ خط کے آخر میں سرسید نے انگریزی نصاب کا اردو زبان میں ترجمہ کرنے کےلیے اپنی خدمات بھی پیش کیں۔

انگریز حکومت نے اس تجویز کو بخوشی قبول کرلیا اور اردو میڈیم یونیوسٹی کے قیام کےلیے خط و کتابت کا آغاز ہوگیا۔ لیکن بعد ازاں سرسید اپنی ہی اس تجویز کے خلاف ہوگئے۔ دراصل سرسید چاہتے تھے کہ اردو میڈیم کا نظام، انگلش میڈیم کے متوازی قائم کیا جائے، جبکہ اُدھر، سرسید کو بھنک پڑگئی تھی کہ برطانوی حکومت، کلکتہ یونیورسٹی میں رائج انگلش میڈیم کو معطل کرکے اردو میڈیم کا آغاز چاہتی ہے۔ ہندوستان میں انگلش میڈیم کی معطلی، سرسید کو ہرگز گوارا نہیں تھی۔ وہ کسی صورت نہیں چاہتے تھے کہ ہند میں انگلش میڈیم کو معطل کیا جائے۔ بعد ازاں جلسوں میں خطاب کرتے ہوئے سرسید نے وضاحت کی کہ وائسرائے اُن کے خط کا مدعا و منشا نہیں سمجھ سکے۔ سرسید ان جلسوں میں علی الاعلان کہتے تھے کہ وہ انگلش میڈیم کے متوازی ایک دوسرا تعلیمی نظام چاہتے ہیں، جہاں جدید تعلیم اردو میڈیم میں دی جاسکے۔

اگر واقعی ایسا تھا تو پھر کیا سرسید، ہندوستان میں طبقاتی نظام تعلیم کے حامی تھے؟

اس سوال کا جواب سرسید احمد کے اس بیان سے ازخود واضح ہوجاتا ہے جو انہوں نے 1882 میں قائم کردہ برطانوی ایجوکیشن کمیشن میں ریکارڈ کروایا۔ کمیشن کے روبرو بات کرتے ہوئے سر سید نے وضاحت کی کہ وہ دو طرح کے الگ الگ تعلیمی نظام چاہتے ہیں۔ بقول سرسید احمد، ایسے پرائمری یا مڈل اسکول جن کا مقصد طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کےلیے تیار کرنا نہیں ہے، وہاں مغربی علوم کےلیے اردو میڈیم کو اپنانا زیادہ بہتر ہے۔ مگر وہ اسکول جن کا مقصد طلبا کو اعلیٰ تعلیم کےلیے تیار کرنا ہو وہاں اردو میڈیم کے بجائے انگلش میڈیم کو اپنایا جائے۔

سوال یہ ہے کہ ہندوستانیوں کےلیے طبقاتی نظام تعلیم کی وکالت کرکے سرسید آخر کون سے اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے؟ جب تک آپ اس بنیادی سوال کو نہیں سمجھیں گے، آپ نہ ہی سرسید کے تعلیمی نظریات کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی برصغیر کے موجودہ تعلیمی المیے کا درست تجزیہ کرسکتے ہیں۔

سرسید احمد خاں 1838 میں 22 سال کی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایک معمولی ملازم (کلرک) کے طور پر بھرتی ہوئے۔ بعد ازاں امین (افسر مالیہ جو رعایا کی اجناس وغیرہ پر ٹیکس کا تعین کرتا ہے)، صدر امین (امینوں کا افسر)، صدر الصدور (خیرات و اوقاف کا ذمے دار افسر) اور بالآخر 1867 کو ترقی پاکر اسمال کاز کورٹ (معمولی تنازعات کےلیے چھوٹی عدالت) کے جج مقرر ہوئے۔ تقریباً 38 سال تک ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی حکومت کی ملازمت کرنے کے بعد 1876 کو ریٹائر ہوئے۔ سرسید انگریزوں کی نظر میں ایک قابل اعتماد اور وفادار ماتحت تھے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں بھی سرسید انگریزوں کے طرف دار اور وفادار رہے۔ صلے میں انعام کے طور پر نقد رقم کے علاوہ دو نسلوں تک معقول پینشن قبول کی۔

1857 کی جنگ آزادی میں سرسید، ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف لڑنے والی ریاستوں اور گروہوں کا دم خم دیکھ چکے تھے۔ ان کے ذہن میں یہ بات پختہ ہوچکی تھی کہ اب انگریزوں کی حکومت مستحکم ہے اور کوئی ان کی طاقت کو چیلنج نہیں کرسکتا۔ سرسید کے نزدیک مصلحت یہی تھی کہ انگریزوں کی حکمرانی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا جائے۔ اور برطانوی حکومت کو اپنی وفاداری و اطاعت کا یقین دلا کر ہندوستانیوں کےلیے جس قدر ہوسکیں مراعات حاصل کی جائیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد ازاں برطانوی حکومت کی ماتحتی میں رہ کر، سرسید احمد خاں، انگریز افسروں کی شان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ کا مشاہدہ کرتے چلے آرہے تھے۔ برطانوی حکومت، انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر بیک جنبش قلم نافذ کرچکی تھی۔ سرسید دیکھ رہے تھے کہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں مشرقی علوم حاصل کرکے نچلے درجے کی ملازمت تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن برطانوی حکومت میں اعلیٰ عہدے حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ وہ اس بات کو بھی محسوس کررہے تھے کہ انگریزوں کے ہوتے ہوئے اعلیٰ برطانوی افسروں کے ہاں انگریزی زبان کی ہی حکمرانی رہے گی اور ہندوستان کی مقامی زبانیں یہاں پھٹکنے بھی نہیں پائیں گی۔ ان حالات نے سرسید کو حریت پسند کے بجائے ایک مصلحت پسند اور انگریز پسند شخصیت بنادیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تا دم مرگ انگریزوں کے طرف دار اور وفادار رہے۔ انگریز بھی، ہندوستان میں برطانوی حکومت کے استحکام کےلیے سرسید کی جاں نثاری اور بیش بہا کوششوں کو سراہتے تھے۔ یہاں تک کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرسید کو ہند کی قانون ساز کونسل کا ممبر نامزد کیا گیا۔ سرسید الیکشن کے ذریعے نہیں بلکہ برطانوی حکومت کی نامزدگی سے کونسل کے ممبر ہوئے تھے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ سرسید کو انگریزی برائے نام آتی تھی اور قانون ساز کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہوئے انہیں اپنی اس کمزوری کا شدت سے احساس رہتا تھا، اور وہ اس کمزوری کو ندامت کی حد تک محسوس کرتے تھے۔

میری رائے میں سر سید کے یہی وہ احساسات تھے جن میں سر سید کے تمام تر سیاسی و تعلیمی نظریات کی جڑیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ بغور جائزہ لیا جائے تو سر سید کے تعلیمی نظریات کی جڑیں، مصلحت پسندی اور انگریز پسندی میں ہی پیوست نظر آتی ہیں۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ سرسید احمد خاں برطانوی ہندوستان میں طبقاتی نظام تعلیم کی حمایت کرتے تھے۔ اس طبقاتی نظام تعلیم سے سرسید اپنے تئیں دو طرح کے مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ پہلا مقصد، ہندوستان کے کروڑوں عام باشندوں کی تعلیم اور دوسرا مقصد ہندوستانیوں کے مخصوص طبقے کا برطانوی حکومت میں اعلیٰ عہدوں کا حصول۔

ہندوستانیوں کے کروڑوں عام باشندوں کی تعلیم کے حوالے سے سرسید کا خیال تھا کہ یہ مقصد اردو میڈیم وغیرہ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عام باشندوں کی تعلیم کےلیے اردو میڈیم کی حمایت کرتے تھے۔

لیکن انگلش میڈیم کےلیے وہ کس طرح کے دلائل پیش کرتے تھے، اس بات کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں سرسید کا تعلیمی نظریہ یہ تھا کہ جب کسی قوم (جیسا کہ ہند کے مسلمان) میں حکومت نہ رہے تو اس کی ترقی صرف اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنی فتح مند قوم (یعنی برطانوی) کے علوم و زبان حاصل کرکے ملکی حکومت میں حصہ لے۔ سرسید مثال دے کر سمجھاتے تھے کہ جب مسلمانوں نے ہندوستان کو فتح کیا تو ہند کے باشندوں میں سے وہی لوگ حکومت میں شریک ہوئے جنہوں نے مسلمان حکمرانوں کے علوم، اُن کی زبان، اُن کے سے خیالات، اُن کا سا تمدن، اُن کا سا لب و لہجہ اور اُن کی سی روش اختیار کی۔ سرسید کی منطق یہ تھی کہ حکمرانوں کی زبان میں علم حاصل کیے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ اور چونکہ ہندوستان کے حکمران انگریز ہیں اس لیے اس ملک میں اردو کے ذریعے سے ترقی کا ہونا محال ہے۔

جہاں تک میں سمجھا ہوں، سرسید کے نزدیک ترقی کا مفہوم یہی تھا کہ ہندوستانی باشندے، انگلش میڈیم کے ذریعے، برطانوی حکومت میں اعلیٰ ملازمتیں حاصل کریں اور پھر انہی ملازمتوں کی بدولت عزت و تکریم پائیں۔ چونکہ برطانوی راج میں انجینئرنگ کا سرٹیفکیٹ، ڈاکٹری کا ڈپلومہ، بیرسٹری کی سند، انڈین سول سروس میں شمولیت، ہائی کورٹ کی ججی، اور قانون ساز کونسل کی ممبری جیسے اعلیٰ عہدے انگلش میڈیم کے بغیر حاصل نہیں کیے جاسکتے تھے، اس لیے سرسید انگلش میڈیم کے وکیل بن گئے۔ سرسید کے نزدیک انگریزوں کی غلامی سے نجات کا راستہ بھی انگلش میڈیم سے ہوکر ہی گزرتا تھا۔ لیکن سرسید غلامی سے نجات حاصل کرنے کےلیے اُس طریقے کے قائل نہیں تھے جو بعد میں کانگریس یا قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ نے اختیار کیا۔ سرسید انگریزوں کی غلامی سے نجات کےلیے بھی ایک مختلف اور منفرد طریقے کے قائل تھے۔ سرسید کا طریقہ یہ تھا کہ ہندوستانی لوگ انگریزی تعلیم حاصل کریں اور اپنے آپ کو انگریزوں کے رنگ میں اس قدر رنگ لیں کہ برطانوی حکمران انہیں اعلیٰ عہدوں کےلیے قبول کرلیں۔ اس طرح جب زیادہ سے زیادہ ہندوستانی اعلیٰ عہدوں کےلیے منتخب ہونا شروع ہوجائیں گے تو پھر غلامی کا تعلق آپ سے آپ ہی دوستی میں بدل جائے گا اور ہندوستانیوں کو اپنی کھوئی ہوئی عزت و حشمت واپس مل جائے گی۔

انگلش میڈیم تعلیم کی بدولت ہندوستان کے غلام باشندے برطانوی حکومت کے نظروں میں کس قدر معتبر ٹھہرے یہ ایک الگ بحث ہے، البتہ یہ ضرور ہوا کہ چیدہ چیدہ سرکاری عہدوں پر دیسی افسر نظر آنے لگے۔ اور بعد ازاں تقسیم ہند کے بعد یہی دیسی افسر پاکستان کی نوزائیدہ مملکت میں ارباب اختیار ٹھہرے۔ برطانوی انگلش میڈیم اداروں کے تربیت یافتہ دیسی افسر یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ اب وہ ایک غلام ہندوستان نہیں بلکہ آزاد ملک کے باشندے ہیں۔ یہ لوگ آزاد پاکستان میں بھی ویسا ہی سوچتے رہے جیسا کہ غلام ہندوستان میں سرسید احمد خاں سوچا کرتے تھے۔

سرسید احمد خاں کے حمایت یافتہ انگریزی میڈیم اداروں کے دانشوروں کا بااثر گروہ، سرسید کی یہ بات بھول گیا کہ عوامی تعلیم کا مقصد اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بااثر لوگ اس بات کا ادراک ہی نہیں کرپائے کہ ایک مخصوص طبقے کو کاروبار مملکت میں شامل کرنے کےلیے سرسید کے طبقاتی نظام تعلیم کا فلسفہ (اگر یہ درست بھی تھا) تو آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی غیر متعلق ہوچکا ہے۔ اور اب ایک خوددار اور آزاد پاکستان میں مقامی زبان اردو کو ہر سطح پر سرکاری و تعلیمی زبان کے طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہر خاص و عام کو کاروبار مملکت میں شامل ہونے کا برابر موقع ملے۔

لیکن افسوس کہ سرسید احمد خاں کے وہ مصلحت پسندانہ اور انگریز پسندانہ، تعلیمی نظریات، جو غلام ہندوستان میں غلامی کو بطریقِ احسن نبھانے کےلیے وضع کیے گئے تھے، ایک آزاد، خودمختار، مملکت خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی قائداعظم کی وفات کے بعد جاری کردیے گئے۔

سرسید احمد خاں مصلحت پسند تھے، اصلاح پسند تھے، انقلابی تھے، کیا تھے؟ میں اس پر زائے زنی سے اجتناب کروں گا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ سرسید کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں ہوگا کہ غلام ہندوستان میں جس طبقاتی تعلیمی نظام کا بیج وہ بونے جارہے ہیں ڈیڑھ سو سال بعد بھی برصغیر کے باشندے اس سے جان نہیں چھڑا پائیں گے۔ اور بقول الطاف حسین حالی (سرسید کے معتقد اور قریبی ساتھی) سرسید کو عمر بھر کے تجربے سے اس قدر ضرور معلوم ہوا ہوگا کہ انگریزی زبان میں بھی ایسی تعلیم ہوسکتی ہے جو دیسی زبان کی تعلیم سے بھی زیادہ نکمی، فضول اور اصلی لیاقت پیدا کرنے سے قاصر ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر شوکت علی

ڈاکٹر شوکت علی

بلاگر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور شعبہ زرعی توسیع و تعلیم میں پی ایچ ڈی ہیں۔ شاعری کی ایک کتاب کے علاوہ اپنے شعبے میں دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ زرعی یونیورسٹی کے سہ ماہی میگزین زرعی ڈائجسٹ کے ایڈیٹر اور ایف ایم ریڈیو میں بطور انچارج کام کرچکے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی انہیں گولڈ میڈل، رول آف آنر اور یونیورسٹی کلر جیسے اعزازات سے نواز چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔