ن۔م راشد اور ان کی شعری تصنیفات

ڈاکٹر ناصر مستحسن  جمعرات 30 جنوری 2014

ن۔م۔راشدؔ جدید اردو نظم کے عہد ساز شاعر ہیں، اور جس برق رفتاری کے ساتھ سمے گزر رہا ہے اردو ادب کے ناقدین اور بالعموم قارئین کو ن۔م۔راشدؔ کی غیر سلیس فارسی کے شعری سخن کو سمجھنے کا موقع مل رہا ہے، اور فیض احمد فیضؔ کے بارے میں ان کا یہ نقطہ نظر کہ ’’فیضؔ جیسا علم و ادب کے رسیا جس نے اپنی شاعری میں اپنا دس فیصد حصہ استعمال کیا‘‘ اختلافات ہو سکتے ہیں، اردو ادب کی عصری شاعری میں ن۔م۔راشدؔ کی قدر و قیمت نمایاں ہوتی جا رہی ہے اور راشد جدید شاعری کا سب سے معتبر اور مستند حوالہ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ ن۔م۔راشدؔ کی شاعری سے میرا باقاعدہ تعلق یا تعارف 9 سال کی عمر میں ہوا کیونکہ ہمارے یہاں علی سردار جعفری، گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر وزیر آغا، جون ایلیا، زاہدہ حنا صاحبہ، ڈاکٹر مظہر حیدر، ڈاکٹر قمر عباس ندیم، جمیل الدین عالی صاحب کی بحث و تکرار کے ذریعے ن۔م۔راشد کی شاعری کی تلخی اور اس کے ساتھ ان کی شاعری میں انسانی جذبات اور احساسات کی بازگشت میرے کانوں تک پہنچی تھی لہٰذا ان مباحثوں کے ذریعے مجھے شاعری کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ لیکن راشد کے مجموعوں کو اب پڑھنے کا موقع ملا تو ان کی شاعری کے اسرار و رموز کھلتے گئے، ن۔م۔راشد یکم اگست 1910ء کو گوجرانوالہ کے ایک قصبے علی پور چٹھا میں پیدا ہوئے جو قیام پاکستان سے پہلے ’’اکال گڑھ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ راشد کے خانوادے مذہبی رجحان سے منسلک تھے۔ راشد کا تاریخی نام ’’عمر خضر‘‘ جس سے ان کی تاریخ پیدائش 1910ء نکلتی ہے، اسکول کے زمانے ہی سے راشد نے شعر گوئی شروع کر دی تھی اور بمشکل 7 برس کی عمر میں انھوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان اگر میں غلط نہیں ہوں تو (انسپکٹر اور مکھیاں) تھا ۔ اوائل زمانہ میں ان کا تخلص ’’گلاب‘‘ تھا کچھ آپ کی نذر راشدؔ کا کوئی شعر ہو جائے۔

میرے میاں گلابؔ، دہن میں گلاب ہو
خوشبو سے تیری بابا ترا فیض یاب ہو

یہ گم نام کاوشیں اس زمانے میں کچھ گم نام ادبی پرچوں میں چھپتی رہیں جن میں بجنور سے چھپنے والے رسالے ’’تفریح‘‘ اور پانی پت سے چھپنے والے رسالے ’’کائنات‘‘ کے نام اہم ہیں، کچھ چیزیں ’’خضر عمر‘‘ کے نام سے چھپتی تھیں کیونکہ ابھی تک انھوں نے اپنے قلمی نام کا تعین نہیں کیا تھا کچھ چیزیں ’’خضر عمر‘‘ کے نام سے اور کچھ ’’نذر محمد خضر عمر جنجوعہ‘‘ کے نام سے چھپیں اور دو غزلیں ’’خاظف علی پوری‘‘ کے نام کے پلیٹ فارم سے بھی منظر عام پر آئیں۔ راشدؔ کی ابتدائی شعری تربیت میں ان کے والد راجہ فضل الٰہی چشتی نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ خود تو شعر کم ہی کہتے ہیں لیکن ان کا شعری ذوق بہت اچھا تھا فارسی شاعری سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ حافظؔ، سعدیؔ، غالبؔ اور اقبالؔ سے راشدؔ نے اپنے والد کے ذریعے تعارف حاصل کیا اس زمانے میں راشدؔ نے اپنے کورس میں شامل کچھ انگریزی شاعروں کی نظموں کا شعری ترجمہ بھی کیا۔

ان میں ملٹن کی سانیٹ Sonnet ’’نابینا ہونے پر‘‘ اور ورڈز ورتھ Wordsworth اور ہنری لانگ فیلو Henry Long Fellow کی بعض نظموں کے تراجم شامل ہیں۔ راشدؔ نے 1926 ء میں گورنمنٹ کالج لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں داخلہ لیا، انگریزی اردو کے علاوہ دوسرے مضامین میں فارسی اور اردو بھی شامل نصاب تھے۔ راشدؔ اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر کالج کے ایک میگزین ’’بیکن‘‘ کے ایڈیٹر ہو گئے۔ انھوں نے متعدد مضامین انگریزی میں بھی لکھے ان دنوں راشدؔ کے ایک دوست لائل پور سے ایک رسالہ ’’زمیندارہ گزٹ‘‘ نکالتے تھے راشدؔ کی خواہش پر زمیندارہ گزٹ کے لیے انھوں نے نظمیں بھی لکھیں وہ غالباً ’’دیہات سدھار‘‘ تھی ۔1928ء میں انھوں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر لیا اور پھر بی۔اے کے مضامین میں ان کے پاس انگریزی اقتصادیات اور فارسی تھے ان کی ادبی سرگرمیاں بڑے زور و شور سے جاری تھیں اور وہ کالج کے مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے ان کی ایک نظم ’’تو مرے دل کو سکوں عطا کر خدا کے لیے‘‘ لکھی جس پر ان کو نقد انعام بھی ملا۔ کلیات راشدؔ میں یہ نظم ہم کو نظر نہیں آتی۔

کالج کے زمانے کے دوستوں میں فیض احمد فیضؔ اور آغا عبدالحمید کے نام خاص الخاص ہیں، ان کے اساتذہ میں جید ادبی لوگ تھے جن میں احمد شاہ پطرس بخاری، لینگ ہازن اور ڈکن کے نام بھی آتے ہیں راشدؔ نے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے جس میں ’’اخترؔ شیرانی کے ساتھ ایک شام، اردو ادب پر غالبؔ کا اثر، ظفر علی خان کی شاعری اور امتیاز علی تاج کا ڈرامہ ’’انارکلی‘‘ خاص ہیں۔ ان کی رہنمائی ڈاکٹر محمد دین تاثیرؔ نے بھی کی۔ ابتدائی ادوار میں انھوں نے اپنی شاعری کے حوالے سے اصلاح بھی لی اور جن سے لی ان میں روشؔ صدیقی شامل ہیں۔ وہ عشقیہ شاعری کرتے کرتے آزاد نظم کہنے لگے، محمد حسن عسکری کو ایک خط میں راشدؔ نے لکھا ’’اردو میں غالباً آزاد نظم سب سے پہلے میں نے لکھی‘‘۔ راشدؔ آزاد نظم کے بانی نہ تھے، میرا جی سے قربت ہونے کے ناتے یہ گماں ہوتا ہے، اور تصدق حسین خالدؔ نے بھی ان کی مدد کی۔ اسی زمانے میں راشدؔ نے کئی اچھی نظمیں لکھیں، انھوں نے اپنی آزاد نظم ’’جرأت پرواز‘‘ غالباً 1932ء میں لکھی جو ماورا میں شامل ہے، جس زمانے میں راشدؔ ملتان میں کلرک تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خاکسار تحریک عروج پر تھی یہ زمانہ راشدؔ کے لیے تکلیف دہ دور تھا نہ ہی اس دور میں کوئی ادبی محفلیں منعقد ہوئیں نہ ہی آزادی تحریر کی اجازت تھی، معاشی اعتبار سے یہ دور راشدؔ کے لیے پریشان کن دور تھا انھوں نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے ایک روسی مصنف ایلگزینڈر کیرن کے ناول Yama The Pit کا ترجمہ کیا۔ حیات اللہ انصاری کی کتاب ’’ن۔م۔راشد‘‘ منظر عام پر آئی، غالباً راشدؔ کے پہلے مجموعہ ماورا پر نفسیاتی نقطہ نظر سے تنقید تھی جس میں راشدؔ کو ایک جنس زدہ شاعر ثابت کیا جس پر راشدؔ کو شکوک و شبہات تھے۔ انھی دنوں میں راشدؔ کی نظموں کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔

یہ ترجمہ وکٹرکیرنز نے کیا یہ راشدؔ کو پسند آیا، قارئین کرام! ن۔م۔راشد کے کلام کے چار مجموعے ماورا (1942) ایران میں اجنبی (1955) لا= انسان(1959) اور گمان کا ممکن (1977) شایع ہوئے شاعری کو سمجھنے کے لیے تخلیق کار مزاج سے آشنائی ضروری ہے کیونکہ موضوعات ، ہیئت اور اسلوب کے انتخابات میں شاعر کا بنیادی مزاج کار فرما ہوتا ہے، راشدؔ کی شاعری کی تفہیم کے لیے بھی اس کی شخصیت اور عہد سے متشکل ہونے والے ان کے تخلیقی ذہن کو جاننا ضروری ہے، راشدؔ بلاشبہ اپنے عہدے کے بڑے شاعر ہیں اور بڑا شاعر شعر کے بنے بنائے سانچوں سے مطمئن نہیں ہوتا، میرؔ کے عہد کے سانچے ابہام گو شعرا نے بنائے تھے میرؔ نے انھیں توڑا اور نئے سانچے بنائے غالبؔ نے صرف نیا اسلوب ہی وضع نہیں کیا بلکہ بعض روایتی تصورات کو بھی منکشف کیا۔ اقبالؔؔ نے روایتی زبان کو یکسر بدل دیا اور ایک بالکل نئی زبان میں نئی باتیں کیں، راشدؔ جس عہد میں شعور کی منزل پر پہنچے وہ برصغیر میں انگریزی حکومت کا دور آخر تھا۔ راشدؔ کے عہد کے شعرا کی شاعری پر رومانیت کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اقبالؔ، اخترؔ شیرانی، میراجی، فیضؔ، جوشؔ جس شاعر کے پہلے مجموعے کو دیکھیں تو رومانیت نظر آئے گی۔ گناہ اور محبت میں پہلی بار راشدؔ کے ہاں محبت کے جسمانی پہلو کا تذکرہ ملتا ہے، اگرچہ اس نظم میں انھوں نے جسمانی ضروریات کو گناہ قرار دیا ہے۔

گناہ کے تند و تیز شعلوں سے روح میری پُھنک رہی تھی
ہوس کی سنسان وادیوں میں مری جوانی بھٹک رہی تھی
مری جوانی کے دن گزرتے تھے وحشت آلودہ عشرتوں میں

راشدؔ کے یہاں ایک پہلو ایسا بھی ہے جو اخترؔ شیرانی کی رومانیت سے علیحدہ کرتا ہے اور وہ رخصت یا اس پار جانے کی خواہش ہے،

مجھے اس خواب کی بستی سے کیا آواز آتی ہے
مجھے اس پار لینے کے لیے وہ کون آیا ہے
خدا جانے وہ اپنے ساتھ کیا پیغام لایا ہے

راشد کی ابتدائی نظموں میں اور تخیلاتی محبوبہ کے ساتھ اور تخیلات عشق کی کہانیاں ہیں لیکن یہ خیالی عشق عاشق کو زیادہ دیر اپنے قریب نہیں رکھ سکا۔

میرا جی چاہتا ہے ایک دن اس خواب سے میں
حجاب فن و رقص و نغمہ سے آزاد کر ڈالوں
ابھی تک یہ گریزاں ہے محبت کی نگاہوں سے
اسے ایک پیکر انسان میں آباد کر ڈالوں

راشد کو ایک جنس زدہ شاعر ثابت کرنے کے لیے سب سے زیادہ ان کی دو نظموں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایک ’’رقص‘‘ اور دوسری’’انتظام‘‘ لیکن راشد کی شہرہ آفاق نظم کے ساتھ ہم اب آپ سے اجازت چاہتے ہیں کچھ مجبوریوں کو مجھے بھی دیکھنا ہے۔

حسن کوزہ گر
جہاں زاد پہنچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر کوزہ گر ہوں
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطار یوسف
کی دکان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تاب ناکی
تھی جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
آج ہم جس کربناکی کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں راشدؔ کی بھی یہی خواہش تھی کہ حضرت انسان ان ساری برائیوں سے دور ہو جائیں اور آیندہ نسلوں کو اس حبس زدہ ماحول سے ازخود کھلنا ہو گا۔
تری چھاتیوں کی جوئے شیر کیوں زہر کا اک سمندر نہ بن جائے
جسے پی کے سو جائے ننھی سی یہ جان

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔