- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
مذاکرات صبرآزماہوں گے پہلے بدگمانیاں ختم کرنا ہوں گی
اسلام آ باد: وزیراعظم نوازشریف نے ایک بارپھر تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کے بجائے مذاکرات کاراستہ اختیارکرنے کوترجیح دی ہے۔
موجودہ حکومت نے اس سے قبل تحریک طالبان کے سابق امیرحکیم اللہ محسودکے ساتھ بھی مذاکرات کے لیے جیدعلما پرمشتمل ایک ثالثی کمیٹی تشکیل دی تھی جس پر نوازحکومت کی اعلیٰ شخصیات، تحریک طالبان کے اس وقت کے سربراہ حکیم اللٰہ محسوداور مرکزی شوریٰ نے مکمل اعتماداور اتفاق کااظہار کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کوآگے بڑھانے کے لیے تحریری معاہدہ کیاتھا۔ لیکن یکم نومبر2013 کوطالبان رہنماحکیم اللہ محسودکے ڈرون حملے میں نشانہ بننے کی وجہ سے مذاکراتی عمل تعطل کاشکار ہوا۔ 31دسمبر 2013کو نوازشریف نے جمعیت علمائے اسلام(س) کے سربراہ مولاناسمیع الحق کوتحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کاٹاسک دیالیکن 23جنوری 2014کو مولانانے یہ کہہ کرمذاکراتی عمل سے خودکو الگ کرلیا کہ حکومت مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی حکومت پاکستان اورتحریک طالبان پاکستان کے مابین مذاکرات اورامن معاہدے ہوتے رہے ہیں۔ حکومت اورطالبان کے مابین پہلاامن معاہدہ2004 میںسابق گورنرخیبرپختونخوا لیفٹیننٹ جنرل(ر) علی محمدجان اورکزئی اورقبائلی کمانڈرنیک محمدوزیر کے مابین ہواجو اب بھی قائم ہے۔
22فروری 2005کو بیت اللٰہ محسودکے ساتھ سراروغہ کامعاہدہ ہوا۔ 21جون 2008کومنگل باغ کے ساتھ خیبرایجنسی میں معاہدہ ہوا۔ 5ستمبر 2006کو شمالی وزیرستان کامعاہدہ ہوا۔ 2007 میںوانا سب ڈویژن میںمولوی نذیرکے ساتھ معاہدہ ہوا۔ فروری 2009کو عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت اورمولانا صوفی محمدکے مابین سوات امن معاہدہ ہوا۔ معاہدوںکے باجودنہ توڈرون حملوں کا سلسلہ رکانہ ہی ملک میںامن قائم ہواکیونکہ حکومت نے کسی تیسرے فریق کے بغیربراہ راست طالبان کے ذیلی گروپوں اور قبیلوں کے سرداروںسے الگ الگ یہ مذاکرات کیے حالانکہ حکومت کوچاہیے تھاکہ وہ پارلیمنٹ کے اندراور باہرتمام سیاسی ومذہبی جماعتوںکو اعتمادمیں لیتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی سربراہ اورشوریٰ سمیت تمام ذیلی گروپوں کے ساتھ کسی تیسرے فریق یاثالث گروپ کی موجودگی میں مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی اورامن کے قیام کے لیے ایک مستقل معاہدہ کرتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی مذاکرات کاعمل شروع ہواہے، ڈرون حملوں کے ذریعے اسے سبو تاژکیاگیا۔ 18جون 2004کو جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملہ کرکے کمانڈرنیک محمدکو نشانہ بنایاگیا۔ 2009میں مذاکرات شروع ہونے والے تھے کہ بیت اللہ محسودکو ماردیا گیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔