- انٹرنیٹ بندش کا اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر واویلا مچا دیا جاتا ہے، وزیر مملکت
- پی ٹی آئی کی لیاقت باغ میں جلسہ کی درخواست مسترد
- پشاور میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے کا معاملہ؛ 15 ڈاکٹرز معطل
- پہلا ٹی20؛ عماد کو پلئینگ الیون میں کیوں شامل نہیں کیا؟ سابق کرکٹرز کی تنقید
- 9 مئی کیسز؛ فواد چوہدری کی 14 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور
- بیوی کو آگ لگا کر قتل کرنے والا اشتہاری ملزم بہن اور بہنوئی سمیت گرفتار
- پی ٹی آئی حکومت نے دہشتگردوں کو واپس ملک میں آباد کیا، وفاقی وزیر قانون
- وزیر داخلہ کا کچے کے علاقے میں مشترکہ آپریشن کرنے کا فیصلہ
- فلسطین کواقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کا وقت آ گیا ہے، پاکستان
- مصباح الحق نے غیرملکی کوچز کی حمایت کردی
- پنجاب؛ کسانوں سے گندم سستی خرید کر گوداموں میں ذخیرہ کیے جانے کا انکشاف
- اسموگ تدارک کیس: ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات لاہور، ڈپٹی ڈائریکٹر شیخوپورہ کو فوری تبدیل کرنیکا حکم
- سابق آسٹریلوی کرکٹر امریکی ٹیم کو ہیڈکوچ مقرر
- ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کے صوابدیدی اختیارات سپریم کورٹ میں چیلنج
- راولپنڈٰی میں بیک وقت 6 بچوں کی پیدائش
- سعودی معاون وزیر دفاع کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو
- پختونخوا؛ دریاؤں میں سیلابی صورتحال، مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو الرٹ جاری
- بھارت میں عام انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز،21 ریاستوں میں ووٹنگ
- پاکستانی مصنوعات خریدیں، معیشت کو مستحکم بنائیں
- تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں، اسرائیل ایران پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں کریگا، ایکسپریس فورم
مذاکرات صبرآزماہوں گے پہلے بدگمانیاں ختم کرنا ہوں گی
اسلام آ باد: وزیراعظم نوازشریف نے ایک بارپھر تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کے بجائے مذاکرات کاراستہ اختیارکرنے کوترجیح دی ہے۔
موجودہ حکومت نے اس سے قبل تحریک طالبان کے سابق امیرحکیم اللہ محسودکے ساتھ بھی مذاکرات کے لیے جیدعلما پرمشتمل ایک ثالثی کمیٹی تشکیل دی تھی جس پر نوازحکومت کی اعلیٰ شخصیات، تحریک طالبان کے اس وقت کے سربراہ حکیم اللٰہ محسوداور مرکزی شوریٰ نے مکمل اعتماداور اتفاق کااظہار کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کوآگے بڑھانے کے لیے تحریری معاہدہ کیاتھا۔ لیکن یکم نومبر2013 کوطالبان رہنماحکیم اللہ محسودکے ڈرون حملے میں نشانہ بننے کی وجہ سے مذاکراتی عمل تعطل کاشکار ہوا۔ 31دسمبر 2013کو نوازشریف نے جمعیت علمائے اسلام(س) کے سربراہ مولاناسمیع الحق کوتحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کاٹاسک دیالیکن 23جنوری 2014کو مولانانے یہ کہہ کرمذاکراتی عمل سے خودکو الگ کرلیا کہ حکومت مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی حکومت پاکستان اورتحریک طالبان پاکستان کے مابین مذاکرات اورامن معاہدے ہوتے رہے ہیں۔ حکومت اورطالبان کے مابین پہلاامن معاہدہ2004 میںسابق گورنرخیبرپختونخوا لیفٹیننٹ جنرل(ر) علی محمدجان اورکزئی اورقبائلی کمانڈرنیک محمدوزیر کے مابین ہواجو اب بھی قائم ہے۔
22فروری 2005کو بیت اللٰہ محسودکے ساتھ سراروغہ کامعاہدہ ہوا۔ 21جون 2008کومنگل باغ کے ساتھ خیبرایجنسی میں معاہدہ ہوا۔ 5ستمبر 2006کو شمالی وزیرستان کامعاہدہ ہوا۔ 2007 میںوانا سب ڈویژن میںمولوی نذیرکے ساتھ معاہدہ ہوا۔ فروری 2009کو عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت اورمولانا صوفی محمدکے مابین سوات امن معاہدہ ہوا۔ معاہدوںکے باجودنہ توڈرون حملوں کا سلسلہ رکانہ ہی ملک میںامن قائم ہواکیونکہ حکومت نے کسی تیسرے فریق کے بغیربراہ راست طالبان کے ذیلی گروپوں اور قبیلوں کے سرداروںسے الگ الگ یہ مذاکرات کیے حالانکہ حکومت کوچاہیے تھاکہ وہ پارلیمنٹ کے اندراور باہرتمام سیاسی ومذہبی جماعتوںکو اعتمادمیں لیتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی سربراہ اورشوریٰ سمیت تمام ذیلی گروپوں کے ساتھ کسی تیسرے فریق یاثالث گروپ کی موجودگی میں مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی اورامن کے قیام کے لیے ایک مستقل معاہدہ کرتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی مذاکرات کاعمل شروع ہواہے، ڈرون حملوں کے ذریعے اسے سبو تاژکیاگیا۔ 18جون 2004کو جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملہ کرکے کمانڈرنیک محمدکو نشانہ بنایاگیا۔ 2009میں مذاکرات شروع ہونے والے تھے کہ بیت اللہ محسودکو ماردیا گیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔