روداد قفس

عبید اللہ عابد  اتوار 12 ستمبر 2021
کروکج جبیں پے سرِکفن، میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو… کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا ۔  فوٹو : فائل

کروکج جبیں پے سرِکفن، میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو… کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا ۔ فوٹو : فائل

جد وجہد آزادیء کشمیر کے سب سے قد آور رہنما اور دنیا بھر میں آزادی کے لئے قابض استعماری قوتوں سے نبرد آزما حریت پسندوں کے لئے منارہ نور کی حیثیت رکھنے والے جنگ آزادی کے سپاہی سید علی گیلانی گذشتہ دنوں بھارتی نظر بندی کے دوران اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ وہ دنیا کے ان چند حریت پسند لیڈروں میں سے ایک تھے جنھوں نے زندگی کا زیادہ تر حصہ قید و بند میں گزارا۔

کہا جاتا ہے کہ جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا نے دنیا میں سب سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا تھا۔ ان کا مجموعی عرصہ اسیری ستائیس برس ہے، تاہم سید علی گیلانی کی جیل اور نظر بندی کے روز و شب شمار کئے جائیں تو وہ نیلسن منڈیلا کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔

وہ پہلی بار 28 اگست 1962ء کو گرفتار ہوئے اور نظر بندی کے دوران ہی زندگی کی آخری سانسیں لیں۔قریباً 60 برسوں کے دوران جیل ، رہائی ، نظر بندی اور پھر جیل کا سلسلہ جاری رہا۔سید علی گیلانی ہمیشہ گرفتاری سے پہلے اپنی والدہ محترمہ اور دیگر اہل خانہ سے ملتے اور پھر پولیس کی گاڑی میں سوار ہوتے۔ صرف سید صاحب ہی کو نہیں ، بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی برسوں تک جیلوں میں زندگی گزارنا پڑی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

سید علی گیلانی بعض دوسرے کشمیری سیاست دانوں کی طرح ہوتے تو بھارت کی طرف سے ترغیب و تحریص پر پھسل جاتے اور ساری زندگی عیش و عشرت کے ساتھ بسر کرتے لیکن انھوں نے عسرت کے ساتھ زندگی گزاری، کیونکہ وہ جانتے تھے، حریت کی جس راہ پر وہ چلے ہیں، یہاں قدم قدم پر صعوبتیں ہوتی ہیں۔

اپنی کتاب ’ وولر کنارے ‘ میں لکھتے ہیں: ’’میری سادہ دل والدہ مجھ سے پوچھا کرتی تھیں کہ سرکار تمھیں کیوں بار بار گرفتار کرتی ہے؟ میں جواب میں کہتا کہ میں ’وعظ‘ پڑھتا ہوں (یعنی تقریر کرتا ہوں)۔ وہ جواب میں کہتی تھیں: ’’وعظ تو اور بھی بہت سارے لوگ پڑھتے ہیں انھیں کیوں نہیں گرفتار کیا جاتا؟‘‘

انھیں شرح صدر حاصل تھا کہ وہ رسول اکرم ﷺ کے دکھائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں۔ اپنی کتاب ’ رودادِ قفس ‘ میں لکھتے ہیں :

’’ تحریک اسلامی کی راہ پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ یہ ہمہ گیر انقلاب کا نعرہ ہے اور اس میں ابتلا و آزمائش کا دور ضرور آتا ہے۔ اس کے بارے میں تو مکی دور میں ہی جناب رسول اکرم ﷺ فداہ ابی و امی کی زبان اقدس سے دعوت اسلامی کا تعارف سننے کے بعد مفروق بن عمر عمرو شیبانی نے کہا تھا:

’’ یہ دعوت جو آپ ﷺ دے رہے ہیں ، شاید بادشاہوں کو پسند نہ آئے۔‘‘

سید علی گیلانی کو یقین تھا کہ دار و رسن کی صعوبتیں منزل کی طرف بڑھنے کی قوت عطا کرتی ہیں۔ ان کے مطابق :

’’ افکار و نظریات کے بہاؤ کو آج تک کوئی نمرودی ، فرعونی ، قارونی ، ہامانی ، شدادی ، کسرائی ، قیصری ، مارکسی ، سرمایہ داری ، الحادی اور زناری طاقت روک نہیں سکی ہے اور نہ آئیندہ روک سکنے میں کامیاب ہوسکے گی۔ وقت کو اپنی رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکی ہے۔ یہ آگے بڑھتا ہے اور بڑھتا ہی رہتا ہے۔اسی طرح تحریک اسلامی کے صالح اور تعمیری افکار و نظریات کا سیل رواں بھی آگے بڑھتا جائے گا۔‘‘

سید علی گیلانی کی یہ بات مکمل طور پر درست ثابت ہوئی۔ کوئی وقت تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں شیخ محمد عبداللہ کو ہیرو کا درجہ حاصل تھا ، وہ برسوں تک کشمیریوں کے دلوں میں بستا تھا لیکن جب اس نے بھارتی قیادت کے سامنے سر تسلیم خم کیا تو وہ کشمیریوں کے دلوں سے اُتر گیا۔اس کے بعد سید علی گیلانی جیسے لوگ کشمیریوں کی آنکھوں کا تارا بنے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ صرف جماعت اسلامی ہی کی صفوں میں نمایاں نہ ہوئے بلکہ کشمیر کی سیاست میں بھی اس قدر بلند مرتبہ ثابت ہوئے کہ بھارتی قیادت اپنے دیدے پھاڑ کر ان کی مقبولیت کو دیکھتی رہ گئی۔ انھوں نے جب بھی کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا ، بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔

اسمبلی انتخابات کے مجموعی نتائج ہمیشہ سے دہلی میں تیار ہوتے آئے ہیں، شیخ عبداللہ کی اولاد اور بعض دوسرے بھارت کے اطاعت گزار سیاست دانوں کو دھونس دھاندلی سے اسمبلی میں بھیج دیا جاتا۔ ایسا نہ ہوتا تو صرف سید علی گیلانی ہی نہیں ، ان کی جماعت بھی واضح اکثریت سے ریاست جموں و کشمیر کی حکمران بنتی۔

مقبوضہ کشمیر کی پوری سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے ، کیا کوئی کشمیری رہنما سید علی گیلانی جیسے جلسے ، جلوس منعقد کرسکا؟ ان کے کسی بھی کارکن کے جنازے میں شریک لوگوں کی تعداد پر ایک نظر ڈالی جائے، کیا ایسی مثال کبھی بھارت کے اطاعت گزار کشمیری سیاست دان پیش کرسکے؟ ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ سبب یہ ہے کہ کشمیری قوم سید علی گیلانی کی دکھائی ہوئی راہ پر گامزن ہے۔

ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو کشمیری اپنے لئے دستور کا درجہ دیتے ہیں۔سبب ایک ہی ہے کہ سید علی گیلانی نے زندگی اپنے لئے نہیں ، اللہ اور اس کی مخلوق، بالخصوص کشمیری قوم کے لئے بسر کی ہے۔ اس راہ میں آنے والی تمام مشکلات و مصائب کو مسکراتے ہوئے برادشت کیا۔ ’ روداد قفس‘ میں ایک دوسری جگہ پر لکھتے ہیں:

’’ جب مقاصد بلند اور ارفع ہوں ، دنیوی اغراض کے مقابلے میں رضائے الٰہی کا حصول اور اخروی فلاح مقصود ہو تو گرفتاریاں آزمائش بنتی ہیں۔ اور آزمائشوں کے مراحل سے گزر کر ہی رب تعالیٰ کی رضا نصیب ہونے کی توقعات استوار ہوتی ہیں۔‘‘

سید علی گیلانی سراپا بھلائی تھے، وہ ہر ایک کو بھلائی کی نصیحت کرتے، حتیٰ کہ گرفتار کرنے کے لئے آنے والوں کو بھی ، اور دوران اسیری ، وہاں موجود حکام کو بھی۔ ایک ویڈیو گزشتہ ایک طویل عرصہ سے سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی جس میں گرفتار کرنے کے لئے آنے والے پولیس اہلکار اس گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑے ہیں اور سید علی گیلانی انھیں نصیحت کر رہے ہیں کہ انھیں بحیثیت کشمیری کیا کردار ادا کرنا چاہئیے ۔ اسی قسم کا ایک واقعہ اپنی کتاب میں بھی لکھتے ہیں جب ایک بریگیڈئر گیلانی صاحب سے دوران اسیری ملنے آتا ہے۔

’’ دروازے کا قفل کھلنے کی آواز گونجی ۔ تین افراد کمرے میں داخل ہوئے : ایک درمیانے قد کا فوجی وردی پہنے ہوئے ، گول چہرہ ، ستواں ناک ، کشادہ پیشانی ، بڑی بڑی آنکھیں ، شگفتہ اور ملائم ہونٹ… دوسرا وہ فرد ہے جو بادامی باغ کے انٹیروگیشن سنٹر میں ملا تھا اور تیسرا ہلکے پھلکے بدن کا ، آنکھوں پر چشمہ چڑھائے ، سیاہ جلد ، انگریزوں کی غلامی کے نشانات پہنے ہوئے۔پہلے صاحب کمرے میں رکھی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں۔دوسرے صاحب کھڑکی کے طاق کا سہارا لے کر ٹیڑھے بیٹھ جاتے ہیں اور تیسرے صاحب بستر کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔

آداب تسلیمات کے بعد میں سب سے پہلے تینوں آنے والوں سے تعارف چاہتا ہوں۔ کرسی پر بیٹھے صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’ میں بریگیڈئیر کیلاش ہوں۔ دوسرے صاحب کا نام اب مجھے یاد نہیں آر ہا اور تیسرے صاحب یونٹ کے ڈاکٹر ہیں۔ بڑے ہی خوشگوار ماحول میں باتیں ہو رہی ہیں… بریگیڈئیر صاحب پوچھتے ہیں’’ رات کیسی کٹی ؟ ‘‘…

میں نے کہا ’’ ایک سپاہی دروازے کے باہر اور ایک کمرے کے اندر بندوق تانے کھڑا ہو تو ایسے ماحول میں جیسے رات کو کٹنا چاہئیے تھا ، کٹ گئی۔ چار بجے جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ آپ نے ہماری حفاظت کا کڑا بندوبست کردیا ہے۔‘‘

بریگیڈئیر صاحب مسکرائے اور کہا ’’ کیا کریں ؟ ڈیوٹی ہی اس نوعیت کی ہے۔‘‘

’’ گیلانی صاحب ! یہ سب کچھ کیا ہور ہا ہے؟ ‘‘ بریگیڈئیر صاحب بڑے مہین لہجے میں بولے۔

میں نے کہا ’’ اے باد صبا ! ایں ہمہ آوردہ تست ‘‘

بولے : ’’ کیا مطلب ؟ ‘‘

میں نے کہا ’’ یہ سب کچھ آپ لوگوں یعنی بھارت کے نیتاؤں اور لیڈروں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے کارن ( باعث ) ہو رہا ہے۔ ہم بیالیس سال سے مسلسل اور برابر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا گیا ہے ، اس کو پورا کیا جائے اور ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دے دیا جائے، جیسا کہ بھارت اور پاکستان دونوں مملکتوں کے ذمہ داروں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کیا ہے لیکن کوئی ہماری آواز پر کان نہیں دھر رہا ہے۔ یہ اس کا طبعی اور فطری نتیجہ ہے ، جو کچھ سامنے آرہا ہے۔‘‘

بریگیڈئیر صاحب کچھ بولے تو نہیں ، مگر سنجیدہ مسکراہٹ کے ساتھ زبان حال سے جو کہا ، وہ صرف میرا دکھی دل ہی سمجھ سکا کہ ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘۔

٭٭٭

ایک موقع پر گیلانی صاحب گرفتار ہوئے، وہ بھارتی فوج کی گاڑی میں تھے۔اس موقع پر کیا سلوک کیا گیا، گیلانی صاحب کے الفاظ :’’ ایک جھپاکے سے دروازہ کھلتا ہے اور کچھ تنو مند گاڑی میں چڑھ دوڑتے ہیں۔ آتے ہی مجھے کھڑا ہونے کے لئے کہتے ہیں۔ اور میرے سر سے ٹوپی کھینچ کر نیچھے پھینک دی جاتی ہے اور ساتھ ہی گالیاں اور گھونسے شروع ہوجاتے ہیں۔ سر پر گرم جگر پہنائی جاتی ہے، اس کو آنکھوں پر ڈال کر نیچے تک کھینچا جاتا ہے اور مجھے دھکے دے کر نیچے آنے کے لئے کہا جاتا ہے۔

بریف کیس بھی نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ میری آنکھیں بند کی جاچکی ہیں۔ اس لئے میں ٹٹولتے ہوئے نیچے آجاتا ہوں۔ دو سپاہی پکڑ کر ڈکوٹا ( جہاز )کی طرف لے جاتے ہیں۔ قریب میں کچھ اور سپاہی ملتے ہیں، وہ جگر اتار دیتے ہیں۔ ٹوپی الٹی سر پر رکھ لیتے ہیں۔ گھڑی اتار لی جاتی ہے ، جیبوں کی تلاشی لی جاتی ہے، بریف کیس کے تمام کاغذات چھان مارے جاتے ہیں۔میں ٹوپی سیدھی کرلیتا ہوں تو دوبارہ فحش گالیاں سننا پڑتی ہیں۔

کوئی کہتا ہے ’’ یہ ایم ایل اے (ممبر لیجس لیٹو اسمبلی ) رہا ہے۔‘‘دوسری طرف سے گالیوں کے ساتھ آواز آتی ہے ’’ کھاتے بھارت کا اور گیت پاکستان کا گاتے ہیں۔‘‘ اب آنکھوں پر دوبارہ پٹی باندھی جاتی ہے، ہاتھ رسی کے ساتھ بڑی مضبوطی سے پیچھے کی طرف باندھ دئیے جاتے ہیں اور اسی حال میں آگے دھکیل دیا جاتا ہے۔‘‘

’’ دو سپاہی دونوں طرف سے بازؤں سے پکڑ کر مجھے ڈکوٹا میں اس زور سے دھکیل دیتے ہیں کہ خدا کے فرشتے اپنے ہاتھوں سے تھام نہ لیتے تو یقیناً ہڈیاں پسلیاں ٹوٹ گئی ہوتیں… ڈکوٹا میں آنکھوں کی پٹیاں بھی زور سے کس دی گئیں، سر کی رگیں پھٹنے کو آئیں۔ہتھیلیوں اور شانے کی ہڈیاں ٹوٹنے لگیں۔سارا جسم لرز رہا تھا۔‘‘

اس کے بعد ڈکوٹا جہاز میں بھارتی فوجیوں نے گیلانی صاحب کے ساتھ جو بدترین سلوک کیا ، وہ ’ روداد قفس ‘ میں مفصل انداز میں لکھا گیا ہے۔ گیلانی صاحب جیل کے جس حصے میں رہے، وہاں کوٹھڑیوں میں صرف چٹاخ پٹاخ ، فحش گالیوں اور چیخنے چلانے کی آوازیں آتی تھیں۔ انھیں پھٹے پرانے ، بدبودار اور گلے سڑے کمبلوں پر ہی سونا پڑتا تھا۔ نہ سرہانہ ، نہ اوپر کوئی چادر اور نہ نیچے کوئی کپڑا۔ بار بار ، بدترین تشدد کے بعد سید صاحب کا جسم اس قابل نہ ہوتا کہ ایسے بستر پر آرام محسوس کرتا۔

’ روداد قفس ‘ میں سید صاحب نے اپنے ساتھ سلوک کے علاوہ باقی قیدیوں کا بھی احوال لکھا ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ ظلم اور وحشت کی یہ داستان 1947ء سے چل رہی ہے۔ سن انیس سو نواسی سے پہلے کی ظلم کہانی الگ، 1989ء کے بعد سے یکم اگست 2021 تک 95,861 کشمیری شہید کر دئیے گئے ہیں۔ جن میں 7,190 کو دوران حراست بدترین تشدد کرکے شہید کیا گیا۔ اب تک ایک لاکھ62 ہزار137 کشمیریوں پکڑ کر جیلوں میں ٹھونس دیاگیا۔ کشمیریوں کی 110,432 املاک کو آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ 22,932 خواتین کو بیوہ کردیا گیا اور 107,834 بچوں کو یتیم۔11,245خواتین اور لڑکیوں کا گینگ ریپ کیاگیا۔

سید علی گیلانی کے مطابق :’’ظلم و استبداد کی شکلیں کشمیر کے مظلوم اور محکوم مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں۔ ان کو اپنے ماضی کی غلطیوں کی یہ سزا ملتی ہے ، جو ان کی گمراہ اور لادین نظریات کی علمبردار لیڈر شپ نے کی ہیں ، جنھوں نے ریاست کی آبادی ، جغرافیائی ہئیت ، تہذیبی ، تمدنی ، مذہبی اور سماجی رشتوں کا کوئی پاس و لحاظ نہ رکھا۔اور ریاست کی آبادی کے 85 فی صد حصے کو ایک ایسے غیر قدرتی اور غیر فطری گٹھ جوڑ میں منسلک کئے جانے کی تائید کی ، جس کے سنگین نتائج کا ان کی بے بصیرتی نے کوئی اندازہ نہ کیا اور یہ نتائج اب نئی نسل ، خاص طور پر نوجوان طبقے کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

لحظوں اور لمحوں کی غلطیاں اور کوتاہ اندیشیاں صدیوں تک انسانی قافلے کو اپنی منزل سے دور کر دیتی ہیں اور ان کو خون کے دریا عبور کرکے اپنی منزلوں تک پہنچنے کی کوشش کرنا پڑتی ہیں۔ ‘‘

سید علی گیلانی کی آپ بیتی روداد قفس ‘ کے دوحصے’ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز‘ اسلام آباد نے شائع کئے ہیں۔ جبکہ تیسرا حصہ بھارتی فوج نے اپنے قبضہ میں لے لیا تھا اور شائع نہیں ہونے دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔