شہر قائد میں آلودگی نے شجر کاری کو مات دے دی

سید بابر علی  اتوار 12 ستمبر 2021
کراچی میں تیزرفتاری سے بڑھتی آلودگی کی وجوہات کیا ہیں؟  ۔  فوٹو : فائل

کراچی میں تیزرفتاری سے بڑھتی آلودگی کی وجوہات کیا ہیں؟ ۔ فوٹو : فائل

’’اس روز غضب کی گرمی پڑ رہی تھی۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ ابو معمول کے مطابق دفتر چلے گئے۔ ٹی وی پر بتایا گیا تھا کہ ہیٹ اسٹروک کا خطرہ ہے۔ ہم تینوں کا وقت تو گھر پر ہی گزرتا تھا لیکن ابو کے لیے ضرور فکر ہوتی تھی روزے کی حالت میں اور شدید گرمی میں انھیں کام کرنا پڑتا ہے اور بس کا سفر بھی۔

شام کے پانچ بج رہے تھے۔ میں کچن میں افطار بنا رہی تھی کہ امی کے سرہانے پڑا موبائل فون بجنے لگا۔ کوئی نیا نمبر تھا۔ میں نے فون سنا تو دوسری جانب کسی صاحب نے بتایا کہ وہ اسپتال سے بات کررہے ہیں جہاں اس وقت میرے والد کو لایا گیا ہے۔ میں گھبرا گئی۔ انھوں نے کہا کہ وہ ٹھیک ہیں مگر تم اپنے بھائی یا کسی بھی مرد سے میری بات کرواؤ۔ میں مضبوط اعصاب کی مالک ہوں۔ میں نے ہمت مجتمع کرکے انھیں بتایا کہ گھر میں صرف میں ہی ہوں جسے وہ کچھ بھی بتا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تم اپنے کسی رشتے دار سے رابطہ کرو اور میرا نمبر اسے دو۔

میں رونے لگی تو انھوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ سب ٹھیک ہے۔ شاید گرمی کی وجہ سے تمھارے والد چکرا کر گر گئے تھے۔ ڈاکٹر انھیں دیکھ چکا ہے۔ اب آپ کو یہاں آنا ہو گا۔ مگر انھوں نے اصرار کیا کہ انھیں کسی مرد سے بات کرنی ہے تبھی وہ اسپتال کا پتا سمجھا سکیں گے۔

میں نے اپنے کزن کو فون کیا اور اس نے جب ان صاحب کے نمبر پر کال کی تو اسے بتایا گیا کہ میرے والد ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے چل بسے تھے۔ وہ شدید گرمی میں بس اسٹاپ پر کھڑے تھے۔ آج ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اور اسی لیے وہ دوپہر کو تین بجے ہی دفتر سے گھر کے لیے نکل گئے تھے۔‘‘

کہنے کو تو زرینہ کے والد کراچی میں 2015 کی زبردست ہیٹ ویو کے دوران ہونے والی بارہ سو سے زائد اموات میں محض ایک ہندسہ تھے، لیکن زرینہ اور اس کے گھر والوں کے لیے ان کی پوری کائنات۔

چند دنوں پر مشتمل گرمی کی لہر نے چند ہی دنوں میں کئی سہاگنوں سے ان کا سہاگ چھین لیا، کسی بیٹے کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا تو کہیں کوئی بیٹی باپ کے دست شفقت سے محروم ہوئی، تو کسی اپ نے اپنے بڑھاپے کا سہارا بننے والے جوان بیٹے کے جنازے کو کاندھا دیا۔

ہماری اپنی ہی بے پرواہی اور کوتاہیاں اجل کا فرشتہ بن کر ہم پر نازل ہوئیں۔ جیتے جاگتے انسان لقمۂ اجل بنتے رہے اور سورج قہر بن کر برستا رہا۔ ”ہیٹ اسٹروک” نامی اس آفت نے محض تین دن میں 1200 سے زائد افراد کو لقمۂ اجل بنالیا۔

شہریوں کو لمحوں میں موت سے ہم کنار کرنے میں ہلاکت خیز گرمی کے ساتھ بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ، سڑکوں پر دھواں اڑاتی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور کسی شہری منصوبہ بندی کے بنا پورے شہر کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کردینے والی تعمیرات نے بھی اپنا کردار بخوبی ادا کیا۔

حکومت پاکستان کی وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی کی جانب سے ہیٹ ویو پر جاری ہونے والی ٹیکنیکل رپورٹ میں ہیٹ ویو کی جو وجوہات بیان کی گئیں اس میں ہوا کی صورت حال، ہریالی کی کمی اور شہری علاقوں میں بننے والے ہیٹ آئی لینڈز کے اثرات شامل تھے۔

2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کے بعد شجرکاری کا ایک شور برپا ہوا جس پر کافی حد تک عمل درآمد بھی کیا گیا، لیکن شجرکاری کی اس مہم میں صرف ایک پہلو ”شجر کاری” پر ہی ساری توجہ مرکوز کی گئی اور ہیٹ ویو کا سبب بننے والے دوسرے اہم عوامل کو یکسر نظرانداز کیا گیا اور تا حال کیا جا رہا ہے۔

کراچی میں 2015 کے بعد جتنے پودے لگائے گئے اس سے کہیں زیادہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں سڑکوں پر روزانہ سڑکوں پر آکر کاربن کے اخراج میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ تاہم شہر کے دیگر علاقوں کی نسبت کنٹونمنٹ بورڈ کے ماتحت آنے والے علاقوں میں سبزہ اور درختوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سی بی سی کے 51 اسکوائر کلو میٹر رقبے پر 28 پارکس اور 14 اعشاریہ 7 کلومیٹر رقبے پر گرین بیلٹس قائم ہیں۔

شہر قائد میں بنے شہری جنگلات اور شجرکاری
کراچی میں متعدد بار شجرکاری مہم چلائی گئی۔ ہر سال سرکاری اور نجی اداروں کی جانب سے پودے لگائے جاتے ہیں، لیکن پودے لگانے کے بعد اس کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوپاتے۔ ہیٹ اسٹروک کے بعد بھی کراچی میں نجی اور سرکاری سطح پر پودے لگانے کی ’تقاریب‘ کی گئیں۔ لیکن فوٹو سیشن اور میڈیا کوریج کے بعد ان پودوں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔

یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کے پاس کراچی میں ہونے والی شجرکاری کے مستند اعداد و شمار نہیں ہیں، تاہم اگر شجرکاری کے لیے منعقد کی گئیں تقاریب اور ان میں بیان کیے گئے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے کراچی کو اسلام آباد کے برابر سر سبز ہوجانا چاہیے تھا۔

لیکن کراچی میں انفرادی اور نجی شعبوں کی جانب سے شہری جنگلات لگائے گئے ہیں جن میں میاواکی طریقۂ کار استعمال کرتے ہوئے دسمبر 2015 میں کلفٹن کے علاقے میں ’کلفٹن اربن فاریسٹ‘ لگایا گیا تھا۔300 اسکوائر میٹر پر محیط اس شہری جنگل میں 32 انواع کے 1 ہزار 50 درخت لگائے گئے ہیں۔ شہر میں جنگل لگانے کا سہرا شہزاد قریشی کو جاتا ہے۔

کاروں اور موٹر سائیکلوں سے خارج ہونے والی مضرگیسیں
برکلے یونیورسٹی کی چند سال قبل ہونے والی تحقیق کے مطابق کار کی نسبت موٹر سائیکل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور مضر گیسوں کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ اور حکومت سندھ کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر میں موٹر سائیکلوں کی تعداد 60 لاکھ سے زائد ہے۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے تقریباً 40 فی صد سے زائد موٹر سائیکلیں صرف شہرقائد میں ہیں۔

اس لحاظ سے 24 لاکھ موٹر سائیکلیں کراچی کی سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں اور صرف موٹر سائیکلوں سے ہی 1 کروڑ 44 لاکھ گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا میں شامل ہورہی ہے۔

برکلے یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق
شہری علاقوں میں کار سے خارج ہونے والی مضر گیسوں کی فی فرد مقدار (گرام میں)

کاربن ڈائی آکسائیڈ         278.4
کاربن مونو آکسائیڈ         0.57
نائٹروس آکسائیڈ            0.089

شہری علاقوں میں موٹرسائیکل سے خارج ہونے والی مضر گیسوں کی فی فرد مقدار(گرام میں)
کاربن ڈائی آکسائیڈ           100.224
کاربن مونو آکسائیڈ           22.23
نائٹروس آکسائیڈ              0.1513

کراچی میں ایئرکوالٹی انڈیکس (ہوا کا معیار) کیا ہے؟
کراچی میں ہوا کے معیار کے بارے میں ادارہ تحفظ ماحولیات، حکومت سندھ کے ڈپٹی ڈائریکٹر (پبلک اوئیرنیس) مرزا مجتبٰی بیگ کا کہنا ہے کہ شہرقائد میں ہوا کے معیار کو جانچنے کے لیے ہر ضلع میں مخصوص مقامات پر مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ ہوا کے مانیٹرنگ کے لیے مختلف پیرا میٹرز استعمال کیے جاتے ہیں، کراچی میں ایئر کوالٹی انڈیکس کی جانچ ان پیرا میٹر پر ہوتی ہے۔

2.5 پی ایم (پارٹیکیولیٹ میٹر، ہوا میں موجود ایسے اجسام جن کی چوڑائی 2 اعشاریہ 5 مائیکرون یا اس سے کم ہوتی ہے، مثال کے طور پر ایک انسانی بال کی چوڑائی 50 مائیکرون ہوتی ہے) 10 مائیکرون تک کے اجسام ناک اور کان کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتے ہیں جب کہ یہ اجسام ہوا کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوکر نظام تنفس کی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ادارہ برائے تحفظ ماحولیات، سندھ کی جانب سے حال ہی میں ایک سروے کیا گیا جس ضلع جنوبی کے 11، ضلع وسطی کے 10، ضلع شرقی کے9، ضلع کورنگی کے 20، ضلع ملیر کے 15 اور ضلع غربی اور کیماڑی کے 12 مقامات کی مانیٹرنگ کی گئی۔

ادارہ تحفظ ماحولیات کے سروے کے مطابق کراچی کے اضلاع میں پی ایم 2.5 کے ارتکاز کی سطح

ضلع جنوبی
سروے کے نتائج کے مطابق ضلع جنوبی پر ایئر کوالٹی انڈیکس خیابان اتحاد پر 51، چاکیواڑہ روڈ پر 73، دھوبی گھاٹ پر 82، خیابان جامی پر 53، شاہراہ فردوسی پر50، شہباز کمرشل پر70، بولٹن مارکیٹ پر 76، شاہراہ غالب پر 77، کینٹ اسٹیشن روڈ پر 95، ایمپریس مارکیٹ پر 70 اور کے پی ٹی انڈر پاس پر 60 رہا۔

ضلع وسطی
ضلع وسطی میں واٹر پمپ چورنگی پر74، عائشہ منزل پر 67، فائیو اسٹار چورنگی پر 80، ناگن چورنگی پر 137، راشد منہاس روڈ پر 106، گلبرگ چو رنگی پر 154، سخی حسن چورنگی پر 173، لیاقت علی خان چوک پر 101، کریم آباد پر 198 اور لیاقت آباد 10 نمبر پر ایئر کوالٹی انڈیکس 382 ہے۔

ضلع شرقی
ضلع شرقی میں میں ایئر کوالٹی انڈیکس حسن اسکوائر پر 70، چار مینار چورنگی پر 72، سولجر بازار میں 61، نرسری فلائی اوور پر 67، جیل چورنگی اسٹاپ پر 49، سوسائٹی آفس چورنگی پر 47، قائد اعظم کے مزار پر 79 اور گارڈن ایسٹ کے علاقے میں 64 ہے۔
ضلع غربی اور کیماڑی
ضلع غربی اور کیماڑی میں میں ایئر کوالٹی انڈیکس ہارون آباد پر83، سائٹ (نزد صدیق سنز) پر82، سائٹ (نزد ڈی سی آفس) پر83، منگھوپیر روڈ (نزداٹک پیٹرولیم) پر105، کیماڑی (نزد گلبائی برج) پر 59، سائٹ (نزد بسم اللہ ہوٹل) پر 127، سائٹ (نزد بنوریہ ہوٹل) 110پر، سائٹ (میٹرو) پر 75، منگھوپیر روڈ (نزد امان اسٹیل) پر107، کیماڑی (نزد بسم اللہ مسجد) پر 78، کیماڑی (نزد اٹلس بیٹری) پر 99 اور سائٹ (میوہ شاہ مزار) پر79 ہے۔

ضلع کورنگی
شان چورنگی پر 87، ویٹا چورنگی پر202 ، نیشنل ریفائنری پر123 ، کورنگی 5 نمبر پر346، زمان ٹاؤن پر193، داؤد چورنگی پر227، شاہ فیصل پر99 ، مرتضی چورنگی پر166، ابراہیم حیدری پر123 ، قیوم آباد پر 386، محمود آباد پر167، شیر پاؤ کالونی پر65 ، لانڈھی نمبر 2 پر 145، موریہ خان گوٹھ پر344 ، الفلاح سوسائٹی پر62 ، ڈرگ کالونی پر60، کورنگی کریک کالونی پر193، شرافی گوٹھ پر65 ، جامعہ ملت روڈ پر187 اور پاک سادات روڈ پر68 ہے۔

ضلع ملیر
ضلع ملیر کے علاقے ملیر 15بس اسٹاپ پر 98، سسی ٹول پلازہ پر77، حب روڈ 125، سعود آباد (نزد مسجد رضویہ)72، اسٹیل ٹاؤن چورنگی86، پورٹ قاسم چورنگی پر 88، ملیر قائد آباد پر150، گلشن معمار ٹاؤن 99، گکھر پھاٹک پر 87، منزل پمپ پر 132، پورٹ قاسم سیپکو پر127، ملیر لانڈھی اسپتال چورنگی پر 140، گڈاپ (نزد منگھوپیر مزار)پر 118، سائٹ سپر ہائی وے ٹول پلازہ پر 126، سائٹ (نزد مشین ٹول فیکٹری) پر83، وائے ٹی ایم چورنگی پر 114 اور کوہی گوٹھ پر 136 ہے۔

کراچی مں ضلعی سطح پر ہوا کا معیار کیا ہے؟
کراچی 7 اضلاع وسطی، غربی، شرقی، شمالی، ملیر، کیماڑی اور کورنگی پر مشتمل ہے۔ اگر ضلع کی سطح پر دیکھا جائے تو آلودگی کے لحاظ سے کورنگی سب سے زیادہ متاثر ضلع ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس (پارٹیکولیٹ میٹر ارتکاز )164 ہے، دوسرے نمبر پر ضلع وسطی ہے جہاں یہ ارتکاز 147 ہے، ضلع غربی میں یہ شرح 91، ضلع جنوبی میں 70، ضلع ملیر میں 107اور ضلع شرقی میں 63 ہے۔ اس لحاظ سے ضلع وسطی اور کورنگی میں ہوا کا معیار نہایت مضر، ضلع جنوبی، شرقی، غربی اور ملیر میں غیرصحت بخش ہے۔

ایئرکوالٹی انڈیکس کےاعداد و شمار سے انسانوں کو لاحق خطرات
0 تا 50             بہتر

ان اعداد کے درمیان ہوا کا معیار بہتر ہوتا ہے اور تسلی بخش ہوتا ہے۔ اس شرح پر موجود فضائی آلودگی بہت معمولی یا بالکل بھی خطرناک نہیں ہوتی۔
51 تا 100        درمیانہ درجہ

اس شرح پر بھی ہوا کا معیار قابلِ قبول ہوتا ہے، تاہم بعض آلودہ اجزا کی بنا پر بہت کم تعداد میں یہ کیفیت ان لوگوں کو متاثر کرسکتی ہے جو فضائی آلودگی سے غیرمعمولی طور پر حساس ہوتے ہیں۔
101 تا 150      حساس افراد کے لیے مضرِصحت

الرجی اور دیگر حساس طبیعت رکھنے والے گروہ کے افراد کو کچھ طبی مسائل پیش آسکتے ہیں۔ لیکن عوام کی بڑی تعداد اس سے متاثر نہیں ہوتی۔
101 تا 200    مضرِ صحت

اس فضائی کیفیت میں ہر فرد کو اپنی صحت پر کچھ نہ کچھ منفی اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ حساس اور کم زور مدافعاتی نظام والے افراد کو صحت کے دیگر مسائل پیش آسکتے ہیں۔
201 سے 300    انتہائی مضرِ صحت

اس صورت حال کو صحت کی ہنگامی کیفیت (ایمرجنسی) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس فضائی کیفیت سے پوری آبادی متاثر ہوسکتی ہے۔
301 سے 500     خطرناک

اس کیفیت میں صحت کا الرٹ جاری ہونا ضروری ہے۔ ہر فرد کو صحت کی خطرناک اور پیچیدہ کیفیت کا سامنا ہوتا ہے۔

لاک ڈاؤن سے شہر کے فضائی معیار میں بہتری
ایک سال قبل لگائے گئے لاک ڈاؤن کے دوران ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ (سیپا) کے جمع کردہ ماحولیاتی اعداد و شمار کے مطابق لاک ڈاؤن کے باعث کراچی کے چھے اضلاع سے فضاء اور شور کے جمع کیے گئے نمونوں کی روشنی میں شہر کے فضائی معیار میں 39 فیصد جب کہ شور کی سطح میں 19 فی صد بہتری ہوئی تھی۔

گذشتہ سال کے لاک ڈاؤن کے دوران ضلع وسطی کے فضائی معیار میں8، شرقی میں61، جنوبی میں 40، غربی میں 37، ملیر میں25 جب کہ کورنگی میں 54 فی صد بہتری ریکارڈ کی گئی تھی، جب کہ شور کی سطح میں وسطی میں 42، شرقی میں 20، جنوبی میں 15، غربی میں17، ملیر میں2 اور کورنگی میں 26 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرنسپورٹ کی بدترین صورت حال ہے
طویل ٹریفک جام اور فٹنس کے بغیر اپنی عمر پوری کرچکی دھواں اڑاتی بسیں، منی بسیں اور کوچز شہرقائد میں ہونے والی آلودگی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

2015 اور اس کے بعد کراچی میں بننے والے بڑے رہائشی پراجیکٹ
کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی کے گنجان آباد علاقوں جمشید ٹاؤن، ملیر، نارتھ کراچی، سول لائنز، گلشن اقبال، جمشید کوارٹر، سرجانی، فیڈرل بی ایریا میں 141 ہاؤسنگ پراجیکٹ کی منظوری دی گئی۔ 2016 میں 74، 2017 میں 66، 2018 میں 11 اور 2019 میں 20 بڑے پراجیکٹ کی منظوری دی گئی۔ یہ صرف گنجان آباد علاقوں میں بننے والے رہائشی پراجیکٹس کی تعداد ہے، وفاق کے زیر اہتمام بننے والے پراجیکٹس اس کے علاوہ ہیں۔

گذشتہ 6 سال میں سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں کے اعدادوشمار
پاکستان میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے تیار کنندگان کی ایسوسی ایشن ’پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی اے ایم اے)‘ کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2015 سے جون 2016 تک 1300 سی سی کی 87 ہزار 321، ایک ہزار سی سی کی 26 ہزار 166، ایک ہزار سی سی سے کم کی 67 ہزار 658 کاریں فروخت ہوئیں۔ مجموعی طور پر کاروں کی فروخت 1 لاکھ 81 ہزار 145 رہی، جب کہ اسی عرصے میں 5 ہزار 550 ٹرک، 1 ہزار 17 بسیں، 775 فور بائے فور جیپیں اور 35 ہزار 759 پک اپ فروخت ہوئیں۔ اسی عرصے میں فروخت ہونے والی موٹر سائیکلوں کی تعداد 13 لاکھ، 58 ہزار 643 رہی۔

جولائی 2016 سے جون 2017 کے عرصے میں 13 سو سی سی اور اس سے زائد کی 93 ہزار 925کاریں، ایک ہزار سی سی کی 34 ہزار 678 اور ایک ہزار سی سی سے کم کی 157 ہزار 178 کاریں فروخت ہوئیں، مجموعی طور پر اس سال کاروں کی فروخت 1 لاکھ 85 ہزار781 رہی۔ اسی عرصے میں 7 ہزار 499 ٹرک، 1 ہزار 130 بسیں، 3 ہزار 534 فور بائے فور جیپیں اور 23 ہزار 804پک اپ فروخت ہوئیں۔

گذشتہ سال کی نسبت اس سال موٹر سائیکلوں کی فروخت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس سال 16 لاکھ 30 ہزار 735 موٹر سائیکلیں فروخت ہوئیں۔

جولائی 2017 سے جون 2018 کے عرصے میں 13 سو سی سی اور اس سے زائد کی 99 ہزار 138 کاریں، ایک ہزار سی سی کی 49 ہزار 689 کاریں اور ایک ہزار سی سی سے کم کی67 ہزار 959 کاریں فروخت ہوئیں اور مجموعی طور پر یہ تعداد 2 لاکھ 16 ہزار 786 رہی۔

اس دورانیے میں فروخت ہونے والے ٹرکس کی تعداد 9 ہزار 331، بسوں کی تعداد 762، فوربائے فور جیپوں کی تعداد 12 ہزار870 اور پک اپ کی تعداد 29 ہزار 136 رہی، جب کہ موٹر سائیکلوں کی فروخت مزید اضافے کے ساتھ 19 لاکھ 31 ہزار 340 رہی۔

جولائی 2018 تا جون 2019 کے عرصے میں تیرہ سو سی سی اور اس سے زائد کی 1 لاکھ 959 کاریں، ایک ہزار سی سی کی 55 ہزار 377 کاریں اور ایک ہزار سی سی سے کم کی 51 ہزار 294 کاریں فروخت ہوئیں۔ اس مالی سال میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 7 ہزار 630 کاریں فروخت ہوئیں۔

اس عرصے میں فروخت ہونے والے ٹرکس کی تعداد 5 ہزار 828، بسوں کی تعداد 935، فور بائے فور کی تعداد 7 ہزار 654 اور 25 ہزار 362 رہی۔ اس سال موٹر سائیکلوں کی فروخت میں معمولی سی کمی دیکھنے میں آئی اور ان کی فروخت 17 لاکھ 81 ہزار 959 رہی۔

جولائی 2019 سے جون 2020 کے عرصے میں تیرہ سو سی سی اور اس سے زائد کی 39 ہزار 386 کاریں، ایک ہزار سی سی کی 19 ہزار 291 کاریں اور ایک ہزار سی سی سے کم کی 37 ہزار 778 کاریں فروخت ہوئیں۔ مجموعی طور پر اس سال کاروں کی تعداد 96 ہزار 455 رہی۔ اس سال فروخت میں کمی کی اہم وجہ کورونا کے باعث درپیش معاشی مشکلات بھی تھیں۔ اس سال فروخت ہونے والے ٹرکس کی تعداد 3 ہزار 88، بسوں کی تعداد 559، فور بائے فور جیپوں کی تعداد 3ہزار 459 اور پک اپ کی تعداد 12 ہزار 48 رہی۔

اس سال فروخت ہونے والی موٹر سائیکلوں کی تعداد 13 لاکھ 70 ہزار 5 رہی۔

ان اعداد و شمار کے مطابق ہر گزرتے سال کے ساتھ پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے، جو کہ سڑکوں پر آکر کاربن اور دیگر مضر گیسوں کے اخراج میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، جب کہ ملک بھر خصوصاً کراچی میں پودے لگانے کی شرح سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے اور ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی آفات کا انتظار کر رہے ہیں۔

درخت، خوشی کا سبب
درخت لوگوں کی صحت اور مسرت کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں۔ آپ کسی تناور درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر خود کو پُرسکون محسوس کرتے ہیں تو اس کی بھی ایک سائنسی توضیح موجود ہے۔ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کسی درخت کے سائے میں بیٹھنا یا کسی درخت یا جنگل کی تصویر مرکزی اعصابی نظام پر اثرانداز ہو کر باعث سکون بنتی ہے۔

اعصابی نظام کا یہ حصہ دو حصوںsympatheticاورparasympathetic پر مشتمل ہوتا ہے۔

sympathetic حصہ کسی لڑائی کی صورت میں دل کی دھڑکن، سانس اور خون کی گردش میں اضافہ کرتا ہے جس سے خون میں ایک ہارمون ایڈرینالین میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے آنکھ کی پتلیاں پھیل جاتی اور منہ خشک ہوجاتا ہے، ہمارے پٹھے اکڑ کے سخت ہوجاتے ہیں، جب کہ اس کے بر عکس parasympathetic حصہ سکون اور نظام ہضم کو کنٹرول کرتا ہے، نبض کی رفتار مدھم، خون کی گردش اور سانس کی رفتار معمول کے مطابق ہوجاتی ہے اور جب ہم کسی سرسبز جگہ پر جاتے ہیں تو ہمارے مرکزی اعصابی نظام کا یہ parasympathetic زیادہ فعال ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم خود کو زیادہ پُرسکون اور خوش محسوس کرتے ہیں۔

اسی وجہ سے دنیا بھر میں اسپتالوں اور دیگر طبی مراکز میں درختوں کی تعداد زیادہ رکھی جاتی ہے کیوں کہ یہ مریض کے لیے سکون بخش ثابت ہوتے ہیں۔

ہیٹ آئی لینڈز کیا ہیں؟
2015 میں ہی ہم ایک نئی ماحولیاتی اصطلاح ’’ ہیٹ آئی لینڈز‘‘ سے آشنا ہوئے، اور ان ہی حرارت کے جزیروں نے ان تین چار دنوں میں ہونے والی اموات میں اہم کردار ادا کیا۔
انوائرمینٹل پروٹٰیکشن ایجنسی امریکا کے مطابق کنکریٹ اور تارکول سے بنی عمارتیں، سڑکیں اور دیگر تعمیراتی اسٹرکچر سورج کی حرارت کو جنگلات یا آبی ذخائر جیسے قدرتی لینڈ اسکیپ سے زیادہ جذب کرتا ہے۔ شہری علاقوں میں ایسے مقامات جہاں ہریالی کم اور کنکریٹ کی عمارتیں اور آبادی زیادہ ہو وہاں دیگر علاقوں کی نسبت بلند درجۂ حرارت کی وجہ سے ’آئی لینڈز‘ بن جاتے ہیں۔ ان پاکٹس کو ’اربن ہیٹ آئی لینڈز‘ کہا جاتا ہے۔

ہیٹ آئی لینڈز مختلف حالات میں تشکیل پا سکتے ہیں، دن یا رات، چھوٹے یا بڑے شہر، مضافاتی علاقے، شمالی اور جنوبی ماحول یا کوئی بھی سیزن۔

امریکا میں ہونے والی تحقیق کے اعدادوشمار کے مطابق ہیٹ آئی لینڈز کے اثرات سے دن کے اوقات میں شہری علاقوں میں درجۂ حرارت دیگر علاقوں کی نسبت تقریباً 1 تا 7 ڈگری فارن ہائیٹ، جب کہ رات کے اوقات میں درجۂ حرارت 2 تا 5 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ ہوجاتا ہے۔

وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کی ٹیکنیکل رپورٹ کے مطابق ایسے شہر جہاں آبادی 10لاکھ یا اس سے زیادہ ہو وہاں درجۂ حرارت اطراف کی نسبت 1 سے 3 ڈگری زیادہ ہوتا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 2008 تک کراچی کی آبادی 1 کروڑ 80 لاکھ تھی اس لحاظ سے فی کلو میٹر اسکوائر پر 4ہزار115 افراد رہائش پذیر تھے، جب کہ 2004 میں یہ 3 ہزار 566 افراد فی اسکوائر کلومیٹر تھی۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ اربانائزیشن پراسپیکٹس کے مطابق کراچی کی آبادی میں 2015 کے بعد سے 3 لاکھ 65 ہزار686 افراد کا اضافہ ہوچکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آبادی 1 کروڑ64 لاکھ 59ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔2021 کے اعدادوشمار کے مطابق کراچی میں فی اسکوائر کلومیٹر پر 24 ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔ اور اس میں سالانہ 2.27 فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے، جب کہ 2015 میں کراچی کی آبادی 1 کروڑ 42 لاکھ 89 ہزار تھی اور کم رقبے پر زیادہ آبادی بھی درجۂ حرارت میں اضافے کی اہم وجہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔