مشکل فریضہ

نصرت جاوید  جمعرات 30 جنوری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

خاص ہو یا عام، ہر شخص کا ایک مزاج ہوا کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں سختی آتی رہتی ہے اور بالآخر آپ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں اپنے مزاج کے بالکل برعکس کوئی عمل کرنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ نواز شریف صاحب کوئی عام آدمی نہیں ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں ہمارے سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوکربتدریج ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے مئی 2013ء کے بعد ایک بار پھر اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ عمومی سوچ کے برعکس وہ بڑے گہرے آدمی ہیں۔ طویل اجلاسوں یا تنہائی میں افسروں یا عام لوگوں سے ملاقات ہو تو لب سئے رکھتے ہیں۔ اپنی رائے کا قطعی اور واضح الفاظ میں اظہار نہیں کرتے۔ ان کے ذہن کو سمجھنا ہو تو ضروری ہے کہ ان سوالات کو یاد کرکے ان پر خوب غور کیا جائے جو وہ سرکاری اجلاسوں یا نجی ملاقاتوں میں بڑی سنجیدگی مگر شائستگی کے ساتھ اٹھاتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے مزاج کو تھوڑا جاننے کی وجہ سے میں بطور صحافی ان سے ملاقات کا کبھی طلب گار نہیں رہا۔ مجھے خوب علم ہے کہ میں جتنی بھی کوشش کرلوں ان سے ’’خبر‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ملے گی۔ ’’خبر‘‘ چاہیے تو ان لوگوں سے رابطہ کیجیے جو ان دنوں ان سے ملاقاتوں کا شرف حاصل کیا کرتے ہیں۔ ’’خبر‘‘ ان کے پاس بھی نہیں ہوتی۔ مگر وہ آپ کو یہ ضرور سمجھا سکتے ہیں کہ ان دنوں نواز شریف صاحب کو کس نوعیت کے سوالات چند واضح جوابات ڈھونڈنے پر مجبور کررہے ہیں۔

امن و امان کے حوالے سے ہونے والے ناخوشگوار واقعات میں حال ہی میں نظر آنے والی شدت سے وہ یقینا بہت پریشان ہوئے۔ ان کی پریشانی کا مگر ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ مسائل پیدا کرنے والوں کے خلاف کسی ’’آپریشن‘‘ کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔ بار ہا میں نے اس کالم میں آپ کو یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ اپنی گزشتہ دو حکومتوں کے دوران بھی بظاہر عسکری قیادت سے پوری معاونت کے بعد ان کی حکومت کی جانب سے کچھ ’’آپریشن‘‘ ہوئے تھے۔ ان آپریشنز کے جو اہداف انھیں بتائے گئے تھے یا جنھیں نواز شریف نے اپنے تئیں ’’اہداف‘‘ سمجھا وہ تو حاصل نہ ہوئے مگر ان کے نتیجے میں ان کی حکومتیں ہی فارغ ہوتی رہیں۔

اپریل 1993ء میں جب ان کی حکومت کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کیا تو اصل وجہ وہ اختلافات تھے جو سیاسی حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان 1992ء کے وسط میں کیے جانے والے ’’سندھ آپریشن‘‘ کے دوران پیدا ہوکر سنگین تر ہوتے چلے گئے تھے۔ 12اکتوبر 1999ء کی اصل بنیاد ’’کارگل آپریشن‘‘ کی وجہ سے ہونے والی غلط فہمیاں تھیں۔ نواز شریف کا دعویٰ تھا کہ انھیں اعتماد میں لیے بغیرجنرل مشرف کارگل کی پہاڑیوں پر قابض ہوگئے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ بھی ہوسکتی تھی۔ جنرل مشرف آج بھی یہ اصرار کرتے ہیں کہ ’’اوجڑی کیمپ‘‘ میں ہونے والی ایک بریفنگ کے ذریعے انھوں نے وزیر اعظم کو اس آپریشن کے بارے میں پوری طرح اعتماد میں لے کر اس کی منظوری حاصل کرلی تھی۔

اب میڈیا میں بیٹھے کچھ لوگ جب امن و امان کے حوالے سے ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد   دہائی مچانا شروع کردیتے ہیں تو نواز شریف صاحب کو اپنی ماضی کی حکومتوں والے ’’آپریشن‘‘ یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اب تو اپنے چند معاونین کو وہ یہ بات بھی یاد دلانا شروع ہوگئے ہیں کہ میڈیا میں لال مسجد کے حوالے سے برپا کیے شوروغوغا کی وجہ سے جنرل مشرف اسلام آباد میں حکومتی رٹ کی بحالی کے لیے ’’کچھ کرنے‘‘ پر مجبور ہوا۔ مگر آپریشن ہوجانے کے بعد پورے میڈیا نے یک زبان ہوکر اسے ’’سیکڑوں یتیم اور بے سہارا مدرسے کی طالبات کا قاتل‘‘ قرار دے دیا۔ سابق  صدر آج بھی اس آپریشن کی وجہ سے کئی سنگین مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔

وزیر اعظم کی سوچ اور تحفظات کی تھوڑی بہت خبر رکھنے کی وجہ سے مجھے پورا یقین تھا کہ بدھ کو وہ جب قومی اسمبلی میں تشریف لائیں گے تو کسی ’’آپریشن‘‘ کا اعلان ہرگز نہیں کریں گے۔ میں بالآخر درست ثابت ہونے پر نہ تو مغرور ہوں نہ مسرور۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے انھوں نے جو چار رکنی کمیٹی بنائی ہے‘ اس کے ارکان میجر ریٹائرڈ عامر، عرفان صدیقی، رحیم اللہ یوسف زئی اور رستم شاہ مہمند اپنی جگہ بہت مناسب لوگ ہیں۔ ان کو مگرجو فریضہ سونپا گیا ہے وہ بہت مشکل ہے۔ اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود اگرچہ میرے پاس خیر کی امید رکھنے کے سوا کوئی راستہ بھی موجود نہیں۔ سو، آئیے ہاتھ اٹھائیں دُعا کے لیے۔

نواز شریف صاحب کی سوچی سمجھی مگر بظاہر ہچکچاہٹ پر مبنی حکمت عملی کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں ان ٹھوس امور کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا جو کارروائی کے حوالے سے ہماری عسکری قیادت کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ Goodاور Badطالبان کا مخمصہ باقی نہ بھی رہے تو سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ’’خصوصی قوانین‘‘ کے ذریعے پوری طرح بااختیار بنائے بغیر امن و امان بحال کرنے کے لیے میدانِ  میں اُتارا گیا۔ پاکستان میں کوئی بڑا آپریشن ہوا تو اس میں Collateral Damageبھی ہوگا۔ کئی بے گناہ شہری گیہوں کے ساتھ پس جائیں گے۔ ہمارا ’’بے باک میڈیا‘‘ اس کے بارے میں سیاپا فروشی کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ پھر ’’آزاد عدلیہ‘‘ ہے جہاں Missing Personsکی دہائی مچائی جائے گی۔ اسی لیے تو بڑی عجلت میں ’’تحفظ پاکستان آرڈیننس‘‘ بنایا گیا تھا۔ وہ جب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لوگوں کے سامنے آیا تو بھانت بھانت کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ زاہد حامد اب دن رات بیٹھے اس قانون کے لیے ایسی ترکیبیں اور اصطلاحات ڈھونڈ رہے ہیں جو Draconian سنائی نہ دیں۔ جب تک وہ ایک تازہ مسودہ تیار کرنے کے بعد اسے باقاعدہ قانون کی صورت منظور نہیں کروا لیتے کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ ہاں ایک بات طے ہے کہ اگر ناخوشگوار واقعات دوبارہ ہوئے تو فوراَ ’’جوابی کارروائی‘‘ ہوا کرے گی۔ فی الحال اس کے علاوہ ریاستِ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت مسائل پیدا کرنے والے واقعات کے خلاف اور کچھ کرنے کو بالکل تیار نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔