مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں

انیس باقر  جمعـء 31 جنوری 2014
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

سندھ فیسٹیول کا آغاز قریب ہے، سرد ہواؤں کے الوداع نرم و گرم بہار کا موسم آنے کو ہے، ایسے موقع پر ملک بھر میں بہار کا استقبال ہر صوبہ اپنے انداز میں کرنے کو ہے۔ ثقافتی مراکز، آرٹس کونسلیں، جشن بہاراں کا اہتمام کرنے میں مصروف کار ہیں، ایسے میں سیاسی پلیٹ فارم سے پہلی مرتبہ ایک منظم فیسٹیول کا اعلان پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کی قیادت میں کرنے کا اہتمام کیا یا یوں کہیں کہ سندھی ٹوپی اور اجرک تک تو آصف علی زرداری بھی یہ دن مناتے رہے مگر سندھ کے ثقافتی ورثے کو سیاسی مالا میں پرو کر ایک باقاعدہ شکل بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں دی۔ جہاں ایک طرف قائداعظم کی تصویر اور پاکستان کا جھنڈا تھا تو دوسری جانب سندھ کی سرزمین کے رنگ لیے اجرک نمایاں تھی۔

بلاول بھٹو کا یہ خطاب بعد ازاں اشتہار کی شکل میں بار بار ٹیلی ویژن اسٹیشنوں سے کئی بار دہرایا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی عام رنگا رنگ، راگ رنگ موج مستی، سستی شہرت کا پروگرام نہیں بلکہ اس کے پس پشت ایک خیال اور فلسفہ پوشیدہ ہے، جس کو پارٹی کے دیدہ وروں نے سوچ سمجھ کر تیار کیا ہے۔ بلاول بھٹو کی تقریر کا ہر لفظ نپا تلا تھا، وہ الگ بات ہے کہ اس فلسفے سے جو مقاصد حاصل کرنے ہیں ان اہداف کا تجزیہ ضروری ہے مگر جب کبھی ثقافت پر بات ہوتی ہے تو پھر ثقافتی انقلاب کا تذکرہ کیے بنا تاریخ کے صفحات سے گزرنا ناممکن ہے، تا کہ موجودہ ثقافتی دور کا بھرپور جائزہ لیا جا سکے۔ دراصل ثقافت، تہذیب، رسم و رواج، مذہب، روایت پرستی، زبان، بیان، شاعری، جمالیات، آرٹ، موسیقی، فنون لطیفہ، حرفت، رہن سہن، بول چال، رہائش کا آئینہ جو صدیوں میں انسانی کارہائے زندگی میں تخلیق پاتے ہیں، اس لیے اس میں مزدور اور کمزور طبقات اور امراء یا نام نہاد اشرافیہ کے طبقات کا بھی حصہ ہوتا ہے۔

چین میں جب انقلاب آیا اور کمیونسٹ پارٹی نے جب اپنی حکومت بنا لی اور کمیون سسٹم  رائج کردیا تو وہاں ایک طرف تو ملک کو رد انقلاب کی قوتوں کا سامنا تھا جس کی قیادت چیانگ کائی شیک کے ہاتھوں میں تھی، گو وہ شکست خوردہ تھا مگر چینی انقلاب کو امریکا سے شدید خوف تھا ۔ روس کے صدر جوزف اسٹالن، ماؤزے تنگ کے زبردست نظریاتی ساتھی تھے لہٰذا سوویت یونین کی جانب سے ان کو خوف نہ تھا،  چینی انقلاب کے ہند چینی خطے پر گہرے اثرات پڑنے لگے تھے۔ سرد جنگ عروج پر تھی، پاکستان کی آزادی کے 2 برس بعد چین آزاد ہوا مگر برصغیر کی آزادی اور چینی آزادی میں بڑا فرق تھا۔ برصغیر کی آزادی نسبتاً ایک پرامن جدوجہد تھی جب کہ چین کی آزادی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں آئی، اس لیے چینی لیڈر شپ کو چوکس اور چوکنا رہنا پڑتا تھا۔ یہ ایک عام جدوجہد نہ تھی جب کہ برصغیر کی آزادی کا ایک باب جو بدترین تھا وہ مذہبی فسادات اور آپسی قتل و غارت جس نے برصغیر کو آج تک تقسیم کے بھونچال سے نکلنے نہ دیا جنگ و جدل کے ناسور کشمیر کی شکل میں رس رہے ہیں اور برصغیر خصوصاً پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں اور کئی جنگیں دونوں ملکوں کے مابین ہوئیں ۔

چین کو اپنی آزادی کے لیے اندرونی اتحاد کی شدید ضرورت تھی۔ صدیوں کا مراعات یافتہ طبقہ بے اثر ہوا تھا، مزدور کسان، دانشور راج قائم کیا گیا تھا لہٰذا اس میں ماؤزے تنگ کو یہ محسوس ہوا کہ آزادی کے بعد لوگ انقلابی جدوجہد سے دور ہو کر دوبارہ خواب غفلت میں سو جائیں گے۔ اس لیے انھوں نے مئی 1966ء میں ثقافتی انقلاب کا فلسفہ پیش کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں ریڈ گارڈ (Red Guard) سرخ محافظوں کا دستہ قائم کر دیا گیا بلکہ ماؤزے تنگ کی مقبولیت کے پیش نظر کروڑوں کی تعداد میں نوجوانوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تطہیر اور ثقافتی انقلاب کی گرفت میں پورا چین آ گیا، ہر شعبہ زندگی میں ریڈ گارڈ سے معززین اور ملک کے وزیر اعظم، صدر بھی نہ بچ سکے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ فوج کے قائد لن پیاؤ اور پارٹی کے لیڈران، تن سیاؤپنگ ، لیو شاؤچی کو بھی پل صراط محاسبہ سے گزرنا پڑا۔ کیٹل فارمنگ میں انقلاب، اوپیرا (Oprera) ڈانس میں انقلاب گلی گلی انقلابی تھیٹر، ادب میں انقلاب ، چھپائی میں انقلاب، ماؤسنگ فش فارمنگ میں انقلاب، تعلیمی نصاب میں انقلاب، شادی بیاہ میں انقلاب غرض انقلاب نے زندگی کے ہر شعبے میں گھر کر لیا۔ چین کو ایک بڑے عذاب اور بڑے تغیر سے گزرنا پڑا مگر تمام خامیوں اور انسانی حقوق کی بعض زیادتیوں کے باوجود چین مستحکم ہو گیا۔

یہ انقلاب جو 1966ء میں شروع کیا گیا تھا 1969ء میں ختم ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی کو دوام بخشنے کے لیے 1981ء میں تن پیاؤ سنگ نے تحریک چلائی جس کی پیپلز ڈیلی نے جلی حروف میں تعریف کی۔ غرض چینی لیڈروں کی دور اندیشی غلطیوں اور خامیوں کے باوجود مجموعی طور پر عوامی جمود کو ختم کرنے کے لیے ثقافتی انقلاب کی لہر چین میں موجزن رہی۔ گو چین میں عجائبات اور آثار قدیمہ کو خاصا نقصان پہنچا اور بعض نوادرات نابود ہو گئے۔  پیکنگ میں 18 میں سے آٹھ بڑے میوزیم تباہ ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کے بعض بلند پایہ قائدین کو ری ویژنسٹ (Revisionist) روگردانی کرنے والے کے خطابات سے نوازا گیا۔ ریڈ گارڈز نے تن سیاؤ پنگ کے لڑکے سے باز پرس کی، پرانے زمینداروں کے عزیز و اقارب کو بھی نشانہ بنایا گیا مگر مجموعی طور پر ملک اقربا پروری اور کرپشن سے پاک ہوا، گویا یہ عوامی احتساب کا دور تھا۔

اس قلم نے تو نہایت مختصر حالات رقم کیے مگر ملک مجموعی طور  پر عمودی اڑان بھرتا رہا کیوں کہ دانشوروں، کارکنوں اور نظریاتی رضاکاروں کا پورے ملک پر غلبہ تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ کوئی ثقافتی انقلاب اور نوجوانوں کو کسی انقلابی اور عوامی سوچ کی طرف لے جانا مقصود ہے یا محض گفتگو برائے گفتگو۔ لیکن یہ گفتگو برائے گفتگو ہر گز نہیں ہے۔ اس تقریر کے مخصوص جملوں کے واضح مقاصد ہیں۔ اس میں پہلا پیغام ہے کہ ہم غیروں کی ثقافتی تحریک سے بالکل متاثر نہیں ہیں۔ ہماری تہذیب تو 5000 ہزار برسوں پر محیط ہے، جہاں آلودگی بھی تھی اور ان کا رسم الخط بھی تھا۔ گو کہ وہ آج نہیں پھر بھی ہم انھی کے وارث ہیں۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ کون ہے سندھ کی قدیم تہذیب کا وارث، لیکن یہ بات تو کہی جا سکتی ہے کہ رواداری سندھ کی تہذیب ہے۔ سندھ کے قدیم ڈاکوؤں کے بھی کچھ ایسے انداز ہیں اور آج بھی وہ کچے کے علاقے میں موجود ان رسم و رواج کو چلارہے ہیں۔

عورت نے جو گہنا زیور پہن رکھا ہے وہ ان سے بالکل نہیں چھینتے، آج بھی بسوں میں لوٹ مار کے واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ عورتوں سے لوٹ مار نہیں کرتے، ان کے جسم پر اپنا ہاتھ لگانا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں مگر ساتھ ہی اس کلام میں قوم پرستی کی مہک ہے جو محدود نقوش اور محدود مفادات کا پرچار کرتی ہے اور اس طرح یہ کلام سندھی قوم پرستوں کے اوپر ایک قسم کا حملہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھی نیشنل ازم کی داعی اور ان کے مفادات کی نگراں ہے۔ مگر یہاں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ غریبوں اور مظلوموں کو ان کا حق دلوانے میں کس قدر چوکس ہے، البتہ نوجوانوں میں آزادی افکار اور آزادی رقص و موسیقی کی بقا کے لیے چوکس ہے کیوں کہ ٹوپی اور اجرک ایک شناخت تو ضرور ہے ایک خطے اور تہذیب کی مگر اس خطے اور قوم میں جو غربت ہے وہ کس طرح ختم ہو گی؟ اس کا کوئی اظہار نہیں ہے۔ یہ قدیم رسم و روایت کی بقا اور دوام کی تقریر تو ہے مگر ثقافت میں کوئی انقلاب برپا کرنے یا تجدید کے ساتھ کوئی بلندی نظر نہیں آتی۔ البتہ کچھ عرصے کے لیے سکون اور سماج کے تانے بانے محفوظ رکھنے کی بات ہے۔

بلاول بھٹو نے بڑے اصرار کے انداز میں یہ کہا ہے کہ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ اور خصوصیت کے ساتھ اس جملے کو سندھ کے حدود سے باہر لے گئے ہیں یعنی سرائیکی صوبہ تک اپنی سرگرمی کو پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ گویا ان کا اگلا ہدف سرائیکی صوبہ ہو گا۔ وہ کیسے ہو گا، کون کرے گا یا موسم بہار کے بعد یہ بات بھی جاتی رہے گی مگر پیپلز پارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو کے جملے کہ اسلام ہمارا دین اور سوشلزم ہماری معیشت ہے کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ البتہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ پیپلز پارٹی پر قوم پرستی کا رنگ غالب آتا جائے گا، اس لیے سندھ میں قوم پرستوں کی تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ گویا بلاول بھٹو کی ذہنی تربیت چونکہ لندن میں ہوئی ہے اور تمام تعلیمی امور وہیں سرانجام پائے ہیں اس لیے برطانیہ کی جمہوریت کے طرز سے ان کو دور نہیں لے جا سکتے، گویا سوشلزم کا نعرہ پیپلز پارٹی سے دور ہوتا جائے گا۔ البتہ برطانیہ کی جمہوریت میں بے روزگاری، انسانی حقوق اور سوشل ویلفیئر کا تصور موجود ہے۔ اگر پارٹی ان کو بھی اپنا لیتی ہے تو بھی مستقبل کی قیادت پارٹی کو مل سکتی ہے، ورنہ پارٹی سندھ میں گھر کرے گی اور رفتہ رفتہ اگر ہوش مندی سے کام نہ لیا گیا تو دیہی اور شہری سیاست میں کشمکش دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ بہرصورت اس کا چین کے ثقافتی انقلاب کی روح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔