ضیاء الحق کے ہمراہ

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 31 جنوری 2014

جنوری 1976ء میں آرمی چیف جنرل ٹکا خان کی فوج سے ریٹائرمنٹ سے کئی مہینے پہلے وزیر اعظم بھٹو نے ان کے جانشیں کی تلاش شروع کر دی تھی۔ فوج کے جن سینئر افسروں میں سے انھیں نئے آرمی چیف کا انتخاب کرنا تھا ان سب کو وہ ذاتی طور پر جانتے تھے۔ جنرل شریف سب سے سینئر لیفٹیننٹ جنرل تھے اور ضیاء الحق سب سے جونیئر۔ بھٹو صاحب نے سب سے پہلے ان جرنیلوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، پھر انٹیلی جنس کے سربراہوں سے مشورہ کیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے بریگیڈیئر مظفر خاں ملک ایک ساتھ ملنے آئے۔ وزیر اعظم نے ان سے پوچھا: ’’ضیا الحق کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

جنرل جیلانی تو یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ وہ شخصی طور پر ضیا الحق کو بہت کم جانتے ہیں اور ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن بریگیڈیئر مظفر خاں نے کھل کر اپنا خیال ظاہر کر دیا۔ انھوں نے کہا: ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ضیا الحق کے ذہن میں مذہب کا ایک طاقتور جرثومہ موجود ہے اور یہ کیڑا ایک بار سر میں داخل ہو جائے تو آسانی سے نہیں نکالا جا سکتا۔‘‘

بھٹو یہ سن کر مسکرائے لیکن دل کی بات ظاہر نہ کی۔ وہ ضیا الحق کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ 29 جنوری کو ٹکا خاں ریٹائر ہوئے اور جنرل ضیا الحق کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ انھوں نے اپنے سے کئی سینئر افسروں کو سپرسیڈ کیا تھا۔

جنرل کے۔ایم۔عارف اس دور کی اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب Working With Zia میں لکھتے ہیں۔ ’’جنرل ضیا کو حالات نے اچانک ایک نمایاں منظر عام پر لا کھڑا کیا ورنہ ایک کرشماتی سربراہ حکومت کے سایہ میں فوج کی کمان ایک معمول کی سی ذمے داری تھی۔ لیکن جب بھٹو اقتدار سے محروم ہوئے اور جنرل ضیا نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو عوام کی نگاہیں دفعتہً ان پر مرکوز ہو گئیں اور یوں مقابلتاً ایک گمنام سپاہی راتوں رات اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو گیا جو ہمہ مقتدر بھی تھا اور ہمہ اختیار بھی۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون تھا۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر لوگ ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بے تاب تھے چنانچہ ان کے بیانات کا چرچا ہوا۔ لوگوں کو ان کے اس بیان کی صداقت پر کوئی شبہ نہ تھا کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ لوگ انھیں ایک پروفیشنل سپاہی، ایک تکنیک کار اور ایسا شخص سمجھتے تھے جس کا رجحان مذہب کی طرف ہے اور جس کا سینہ خوف خدا سے لبریز ہے۔‘‘

1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سوال پر ملک میں ایک بڑی سیاسی کشمکش کا آغاز ہوا اور جب حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کا امکان باقی نہ رہا اور 5 جولائی کو ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کر کے ملک کا اقتدار سنبھال لیا تو جنرل عارف ابتدا میں ان کے چیف آف اسٹاف مقرر ہوئے۔ 1984ء میں انھیں وائس آرمی چیف بنا دیا گیا اور حکومت کی طرف سے عملاً فوج کی کمانڈ ان کے ہاتھ میں دے دی گئی۔ ان عہدوں پر کام کرتے ہوئے جنرل عارف قومی سطح پر کیے جانے والے تمام تاریخ ساز فیصلوں میں شامل رہے۔ اپنی کتاب میں انھوں نے ان تمام واقعات کا ذکر کیا ہے جن کا بقول خود وہ اپنے منصب کے دریچوں سے نظارہ کرتے رہے تھے اور جن تک رسائی ان کے لیے کچھ مشکل نہ تھی۔وہ لکھتے ہیں۔ ’’سات برس کی رفاقت میں کبھی ایک بار بھی ایسا نہ ہوا کہ میں نے کوئی فیصلہ کیا ہو اور صدر (ضیا الحق) نے اسے کالعدم کر دیا ہو۔ ہم ایک دوسرے کے ذہنوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ کسی معاملے میں جب ہم آپس میں کسی بات پر متفق نہیں ہوتے تو حرف آخر صدر کی جانب سے صادر ہوتا۔ آمرانہ طرز حکمرانی بنیادی طور پر فرد واحد ہی کی کارکردگی ہوتی ہے۔ اس کے مشیر فیصلہ کرنے میں اس کی معاونت تو ضرور کرتے ہیں لیکن قول فیصل اسی کا ہوتا ہے جو حتمی اختیارات کا حامل (فائنل اتھارٹی) ہوتا ہے۔‘‘

اپنی یادداشتوں کی کتاب کے بارے میں جنرل عارف کہتے ہیں کہ یہ نہ تو اس غرض سے لکھی گئی ہے کہ پاکستان کی کوئی باقاعدہ تاریخ مرتب کی جائے اور نہ یہ ضیا الحق کے دور کا کوئی تفصیلی تجزیہ ہے۔ یہ محض 1977ء سے 1988ء تک کے گیارہ سالہ تاریخ ساز عہد کی کہانی ہے جس میں بہت بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے۔ انھوں نے اس کہانی کے کلیدی کرداروں کی نہ تو بے جا تعریف کی ہے اور نہ ہی کسی کی ناروا مذمت کی ہے۔ یہ مختلف واقعات کے بارے میں ان کے نقطہ نظر، مختلف شخصیات کے بارے میں ان کے تجزیہ اور وہ نتائج جو انھوں نے اخذ کیے ان کا ذکر ہے۔ ہو سکتا ہے بعض لوگوں کا تجزیہ کچھ اور ہو اور وہ ان سے اختلاف کریں لیکن انھوں نے کوشش کی ہے کہ وہ واقعات کو بالکل اسی طرح بیان کریں جس طرح انھوں نے ان کو وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہے۔ شاید اس طرح بعض سوالوں کا جواب مل جائے اور بعض پوشیدہ گوشے بے نقاب ہو جائیں۔

جنرل عارف کہتے ہیں ’’میرا تعلق ایک ایسی نسل سے ہے جو سربلند بھی ہے اور مجرم بھی۔ سربلند اس لیے کہ اس نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا اور پاکستان تخلیق کیا اور مجرم اس لیے کہ اپنی نااہلی کی وجہ سے مشرقی پاکستان گنوا دینے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل کیا۔ ہماری ناپختگی کی یہ ایک روشن دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ 1971ء کے سانحہ کے صرف چھ سال بعد ملک ایک اور مارشل لا کے گڑھے میں دھکیل دیا گیا۔‘‘

پاکستان میں پہلا مارشل لا صدر اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی ملی بھگت کا نتیجہ تھا۔ اسکندر مرزا دو ہفتے کے اندر نکال باہر کیے گئے۔ ایوب خان کی حکومت مارچ 1969ء میں اس وقت ختم ہو گئی جب وہ حکمرانی کے قابل نہ رہے اور جنرل یحییٰ خان حکومت پر قابض ہو گئے۔ یہ دوسرا مارشل لا تھا۔ دسمبر 1971ء میں یحییٰ خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا مگر ملک کو مارشل لا سے نجات نہ ملی۔ بھٹو کی حکومت کا آغاز بھی مارشل لا سے ہوا۔ اس کے بعد 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کو برطرف کر کے ملک کو مارشل لا میں جکڑ لیا۔

جنرل عارف لکھتے ہیں ’’ایک روز ایسا ضرور آئے گا جب مورخین پاکستان کی سول حکومت میں بار بار فوجی مداخلت کے اسباب کا تجزیہ کریں گے۔ وہ اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کیا ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیا الحق سب کے سب اقتدار کے بھوکے، حرص و ہوس کے غلام اور ایسے طالع آزما  تھے جو اپنی انانیت کے اسیر ہو کر ذاتی شان و شوکت کے حصول میں لگے رہے یا پاکستان کے عقل و بصیرت سے محروم سیاسی رہنماؤں کی پیدا کردہ دلدل تھی جس نے ان کو خود بخود اپنی طرف کھینچ لیا۔‘‘

جنرل عارف کی کتاب کا محور جنرل ضیا الحق کی شخصیت اور ان کا دور حکمرانی ہے جسے ذوالفقار علی بھٹو کے عروج و زوال سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور اس میں جو واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں وہ ایک ایسے شاہد کا نقطہ نظر ہیں جو اس سیاسی اکھاڑے میں شامل تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’زیر نظر واقعات کا ماضی قریب میں رونما ہونا، مختلف معاملات کی متنازعہ فیہ حیثیت اور پھر متنازعہ شخصیات کا تذکرہ اس معاملے کو گمبھیر کر دیتا ہے۔ ضیا کی شخصیت نہ کرشماتی تھی اور نہ وہ فصیح البیان عوامی مقرر تھے لیکن انھوں نے جہانگیری اور جہانبانی کے فن کو اتنی تیزی سے سیکھا کہ لوگ ان کی سادہ عادات، خندہ پیشانی، صبر و استقامت، عجز و انکساری اور انہماک کار سے بہت متاثر ہوئے۔ ضیا سخت مزاج تو تھے لیکن ناقابل برداشت نہ تھے۔ مذہب کے معاملے میں وہ ایک تخیل پرست، روشن خیال اور عملی مسلمان تھے۔ ضیا گوشت پوست کے بنے انسان تھے اور انسان غلطی کا پتلا ہوتا ہے۔ ان کی صفات بھی حیرت انگیز تھیں اور کمزوریاں بھی  بڑے پیمانے کی تھیں۔ وہ نہ تو ایک نابغہ روزگار شخص تھے اور نہ ہی ایک عام قسم کی شخصیت۔ بہت سی باتوں میں وہ بھٹو کی ضد تھے۔‘‘

جنرل عارف لکھتے ہیں ’’ضیا کی وفات نے ایک بڑا سوال اپنے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انھیں کس نے قتل کیا۔ کیا یہ ایک ٹیریرسٹ اقدام تھا۔ سبوتاژ کی تھیوری دو سمتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی بھٹو کی پھانسی اور پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام۔ بھٹو جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اولین خالق تھے انھوں نے 1977ء میں الزام عاید کیا تھا کہ ایک غیر ملکی طاقت ان کے در پے ہے۔ کیا ضیا الحق کو بھی ایسے ہی جرم کی پاداش میں سزا دی گئی؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔