کوئی بااختیار ادارہ ایسا بھی تو ہو؟

محمد سعید آرائیں  منگل 14 ستمبر 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ حکومتی عہدیداروں کی کرپشن کے واضح ثبوت موجود ہیں مگر نیب اور ایف آئی اے حکومت کے خلاف کسی کارروائی پر تیار نہیں تو ہم یہ ثبوت کس کو دیں؟

وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے لیکن کہتے ہیں کہ کدھر ہے نیا پاکستان؟ لوگ جنت میں جانا چاہتے ہیں لیکن ان کے اعمال اچھے نہیں اور ٹیکس دیے بغیر حکومت سے سہولتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ادھر سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک پوسٹ میں حکومت سے پوچھا گیا ہے کہ وہ کسی ایک شخص کا بتائے جس سے حکومت ٹیکس وصول نہ کرتی ہو۔ پاکستان کا ہر غریب و امیر اشیائے ضرورت خریدتے وقت حکومت کے مقررہ ٹیکس ادا کرتا ہے، کھانے کے گھی و تیل سے مسالوں، صابنوں حتیٰ کہ کفن کے کپڑے تک ٹیکس ادا کرتا ہے اور پٹرول، بجلی اور گیس پر تو ٹیکس ادا کرتا ہے۔

بینکوں میں جمع شہریوں کی برے وقت کے لیے کی گئی بچت پر ایک لاکھ روپے ہر ماہ مشکل سے تین چار سو روپے منافع شرعی اصولوں کے مطابق نہ ہونے کے برابر ملتا ہے اور حکومت ایک ہزار روپے پر تین سو روپے ہولڈنگ ٹیکس وصول کرلیتی ہے۔ ملک کا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو حکومت کو ٹیکس نہ دیتا ہو، پھر بھی وزیر اعظم کا یہ کہنا ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور حکومت سے سہولتیں چاہتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مہنگائی اور بے روزگاری بڑھا کر غریبوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔

لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، غریبوں کو ایک وقت کی روٹی پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔ آٹا، دال، گھی چاول، دودھ، دواؤں و دیگر اشیائے ضرورت کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے کروڑوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ لاکھوں افراد آج بے روزگار اور خیراتی اداروں کی زکوٰۃ و عطیات سے ملنے والی خوراک پر زندگی گزار رہے ہیں۔

انھیں کھانا تو مفت مل جاتا ہے مگر دیگر اشیا مفت صرف رمضان مین ملتی ہیں جو مخیر حضرات خرید کر لوگوں میں بانٹتے ہیں اور عطیہ کی گئی اشیا پر پہلے حکومت کو ٹیکس ادا کرچکے ہوتے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم ہو یا اپوزیشن رہنما یا کسی بھی سرکاری ادارے کے ذمے دار جو بھی بیان دیں وہ میڈیا میں آجاتا ہے خواہ وہ غلط ہو یا درست۔ جھوٹا ہو یا سچا مگر اس کا فیصلہ کرنے والا کوئی تو ایسا ادارہ بھی ہونا چاہیے جو اس کا ایمانداری اور غیر جانبداری سے فیصلہ کرے اور عوام میں موجود کنفیوژن دور کیا جاسکے۔

ہمارے ملک میں سیاست تو ہے ہی جھوٹ اور سیاستدانوں نے اس قدر جھوٹ بولے ہیں کہ عوام کسی بھی سیاستدان پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے اور موجودہ دور میں ہر طرف سے اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ کوئی فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا کہ جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے۔ یہاں تو پارلیمنٹ اور عدلیہ میں بھی جھوٹے بیانات سے گریز اس لیے نہیں کیا جاتا کہ پارلیمنٹ میں بولے گئے کسی بیان کی باہر کوئی پکڑ نہیں ہے۔ عدالتوں میں حلف اٹھا کر بھی جھوٹے بیانات دیے جاتے ہیں اور انھی جھوٹوں پر بے گناہوں کو سزا مل جاتی ہے۔

ملک میں کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہیے کہ آئین پر عمل کیوں نہیں ہو رہا۔ ملک میں آئین کے مطابق بلدیاتی انتخابات کیوں وقت پر نہیں کرائے جاتے، چھوٹی عدالتوں میں اشتعال انگیز تقاریر کے مقدمات جیسے فیصلے بھی پانچ سال کیوں لٹکے رہتے ہیں۔ فیکٹریوں میں فائر سیفٹی کے انتظامات چیک کرنا کس کی ذمے داری ہے کہ ان کی لاپرواہی سے سیکڑوں افراد کیوں جل گئے۔

ملک کے عوام ٹیکس دیتے ہیں کہ نہیں یہ فیصلہ ہونا تو چاہیے۔ حکومتیں اپنی پارٹی کے ملزموں کو کیوں نہیں پکڑتیں، نیب اور ایف آئی اے جانبداری کیوں برت رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کو بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ ایف آئی اے میں دو ماہ میں صرف دو لائنیں کیوں لکھی گئیں؟

نیب، ایف آئی اے، پولیس اور سرکاری ادارے جھوٹے مقدمات بنا کر لوگوں کو سالوں حراست میں کیوں رکھتے ہیں، ملزموں کے فوت ہو جانے کے بعد ان کی بے گناہی کے فیصلے کیوں آتے ہیں، آئینی طور پر سیاست سے دور رہنے کے پابند ادارے سیاست میں کیوں ملوث ہیں؟ ایسے ہزاروں سوالات ہیں جو عوام کے ذہنوں میں ہیں جن کا جواب کہیں سے تو ملنا چاہیے اس لیے کوئی بااعتماد ادارہ ایسا بھی تو ہو جو تحقیقات کرکے سب کو مطمئن کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔