زیادہ کھانے سے نہیں بلکہ ’الٹی سیدھی چیزیں‘ کھانے سے موٹاپا ہوتا ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  بدھ 15 ستمبر 2021
جنک فوڈ کم مقدار میں کھانے پر بھی موٹاپے میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے

جنک فوڈ کم مقدار میں کھانے پر بھی موٹاپے میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے

ہارورڈ: امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپا زیادہ کھانے سے نہیں بلکہ الٹی سیدھی چیزیں کھانے سے ہوتا ہے، چاہے وہ کم مقدار ہی میں کیوں نہ کھائی جائیں۔

’’دی امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ڈاکٹر ڈیوڈ لُڈوِگ کی قیادت میں کی گئی ہے جس کے نتائج اس عام خیال کے برخلاف ہیں جو اس وقت ساری دنیا میں مقبول ہے۔

’’آپ جتنا زیادہ کھاتے ہیں، اتنے ہی موٹے ہوجاتے ہیں‘‘ اور ’’کم کھائیے، زیادہ حرکت کیجیے‘‘ کے روایتی تصور کو میڈیکل سائنس کی زبان میں ’’انرجی بیلنس ماڈل‘‘ (ای بی ایم) کہا جاتا ہے۔

اس کے مقابلے میں موٹاپے سے متعلق نئے تصور کو ’’کاربوہائیڈریٹ انسولین ماڈل‘‘ (سی آئی ایم) کا نام دیا گیا ہے، جس کی بنیادیں کم از کم 120 سال پرانی ہیں۔

ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے کم کھانے اور زیادہ چلنے پر بہت زور دیا جارہا ہے لیکن پھر بھی موٹے لوگوں کی تعداد اور موٹاپے کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے… کیونکہ گھر میں پکے ہوئے کھانوں کی جگہ صنعتی پیمانے پر تیار کردہ غذاؤں (پروسیسڈ فوڈ) کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔

صنعتی پیمانے پر اشیائے خور و نوش کی تیاری میں قدرتی غذاؤں (پھلوں، سبزیوں اور گوشت وغیرہ) میں سے ان کے قدرتی غذائی اجزاء، بالخصوص ریشے (فائبرز) نکال باہر کیے جاتے ہیں۔

دوسری جانب غذائی مصنوعات کی تیاری میں بہت سے ایسے اجزاء بھی شامل کردیئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے جلدی پیٹ بھرنے کا احساس نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر ڈیوڈ کے مطابق، پروسیسڈ فوڈ میں روغنیات (fats) اور کاربوہائیڈریٹس سمیت، بہت سی ایسی چیزیں بھی شامل کی جاتی ہیں جنہیں ہمارا جسم پوری طرح سے ہضم نہیں کر پاتا اور چکنائی کی صورت میں محفوظ کرتا رہتا ہے۔

ان تمام عوامل کا مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ الا بلا (جنک فوڈ) کم مقدار میں کھانے پر بھی موٹاپے میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے۔

اگرچہ اس نئے تصور کے حق میں ڈاکٹر ڈیوڈ اور ان کے ساتھیوں نے سیکڑوں مطالعات و مشاہدات استعمال کیے ہیں لیکن اس بارے میں کسی باضابطہ، وسیع البنیاد اور طویل مدتی تحقیق کے بغیر یہ تصور قابلِ قبول نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ طبّی ماہرین کا ایک نمایاں طبقہ ’’انرجی بیلنس ماڈل‘‘ کو حرفِ آخر نہیں سمجھتا اور اس ماڈل میں وقتاً فوقتاً خامیوں کی نشاندہی بھی کرتا رہتا ہے۔

اگر آئندہ تحقیقات سے ’’انسولین کاربوہائیڈریٹ ماڈل‘‘ درست ثابت ہوگیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ صحت، متوازن غذا اور موٹاپے سے متعلق رہنما طبّی نکات (میڈیکل گائیڈلائنز) میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی آجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔