شوگر سے پیدا ہونیوالے سنگین امراض سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

 ڈاکٹر حکیم وقار حسین  جمعرات 16 ستمبر 2021
ذیابیطس کا مرض پاؤں کے پیچھے کیوں پڑ جاتا ہے؟ بیڈ سور کیوں ہوتا ہے؟ علاج کیا ہوسکتا ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

ذیابیطس کا مرض پاؤں کے پیچھے کیوں پڑ جاتا ہے؟ بیڈ سور کیوں ہوتا ہے؟ علاج کیا ہوسکتا ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

ایسا موذی مرض جو ایک صورت میں لا علاج ہے اور باقی صورتوں میں قابلِ علاج ہے، جس کی شرح خواتین کی نسبت مرد حضرات میں زیادہ ہے، جس کی شرح پاکستان میں 11.77فیصد ہے۔ اس کی شرح مردوں میں 11.20 فیصد اور مستورات میں 9.19 فیصد ہے۔ مزید یہ کہ اس مرض کی شرح صوبہ سندھ میں 11.70فیصد ہے اور صوبہ پنجاب میں 12.14فیصد ہے۔

شعبہ طب میں اسے ’سوئِ استحال‘ یعنی میٹابولک ایرر کی اصطلاح سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ’ ذیابیطس ‘ہے۔ جس صورت میں یہ لا علاج ہے وہ یہ ہے کہ ’ہارمون انسولین‘ کا انجیکشن لگوا لیا ہے، مگر اس صورت میں قدرتی ادویہ کے ذریعے علاج ہو سکتا ہے، مگر انسولین کے نقصانات میںچکر، وٹامن بی12- کی کمی، ہاضمے کی خرابی ، نزلہ وزکام، جوڑوں کا درد شامل ہے، لہذا مبتلا شخص یہ سوچ کر کہ عمر بھر کا مریض ہے ، استقامت فی العلاج تک نہیں پہنچتے اور انسولین جاری رکھتے ہیں۔

پھر مقدار ِخوراک بڑھانی پڑتی ہے جبکہ باقی صورت مثلاً معدے کی خرابی، دماغی مشقت، چینی اور مشروبات کا زیادہ استعمال ، موٹاپا، کم آرام کرنا ، وٹامنز کی کمی ذیابیطس کی وجہ بنے تو علاج ممکن ہے۔

طبِ قدیم میں ذیابیطس کی وجہ خرابی کلیہ ( گردے کی خرابی ) سمجھی جاتی تھی مگر علاج اچھا ہو جاتا تھا ۔ جدید طب میں لبلبہ کے بیٹا خلیات کی خرابی سمجھی جاتی ہے اور مختلف لیب ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ۔

مثلاً سی پیپ ٹائیڈ ٹیسٹ جو لبلبہ کے افعال کا بتاتا ہے کہ وہ کتنا انسولین پیدا کر رہا ہے، ایچ ۔بی۔اے۔سی ٹیسٹ جو تین ماہ تک کی خون میں شکر کی مقدار کے بارے میں بتاتا ہے، یہ امتحانات نہار منہ بذریعہ خون کیے جاتے ہیں، مگر کئی مرتبہ سی پیپ ٹائیڈ ٹیسٹ درست بھی آ جاتا ہے اور مریض کو ذیابیطس ہوتی ہے، مگر جس کا گردہ ٹھیک نہیں ہوتا اورلبلبہ کے ٹیسٹ درست آرہے ہوں انھیں ذیابیطس ہوتی ہے۔

جدید دور میں گردے کی خرابی کو یورک ایسڈ، کریٹی نائین، ای بی ایف آر وغیرہ تک محدود کر دیا مزید بڑھنے کی کوشش نہیں کی جارہی، لہذا لبلبہ جو ایک غدّہ ہے ، ہی بد نام ہے۔ دلیل یہ ہے کہ جسے ذیابیطس ہو اسے رات کے وقت جب قوتیں دماغ سے گزر کر بدن کی نچلی جانب رخ کرتی ہیں ، بول کافی آتا ہے، رنگ بھی سفیدی مائل ہوتا ہے۔

اسی سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ذیابیطس کا تعلق گردے سے ہے، یہی لبلبہ کو اپنا درست فعل انجام دینے کے خاص ہارمون ایڈرینالین ترکیب دیتا ہے، ایڈر ینالین شریانوں اور وریدوں کے عریض ہونے اور سکڑنے کا ذمہ دار ضرور ہے مگر اس کا کام استحالے سے بھی ہے، مگر طب جدید نے اسے ’اینابولک‘ تک ہی محدود کر رکھا ہے، ذیابیطس خون میں تیزابیت کا سبب بنتی ہے اور خون کو چپ چپاہٹ سے آپس میں ملاتی ہے یعنی خون جماتی ہے۔

ذیابیطس کے نقصانات

1۔ نظامِ ہضم کی خرابی : کیونکہ ذیابیطس تیزابیت بڑھاتا ہے، اس لیے ذیابیطس کے مریض اکثر ریح اور قبض کی شکایت کرتے ہیں، لہذا ان کی بھوک کم ہو جاتی ہے۔ دراصل بھوک ہوتی ہے مگر تیزابیت اس احساس کو کم کر دیتی ہے یوں معدے کی دیواریں کمزور ہوجاتی ہیں۔

2۔ دل کی کمزوری: ذیابیطس میں خون کے جمنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ یوں خون شریانوں اور وریدوں میں جمنے لگتا ہے۔ جب یہ گاڑھا خون قلب میں داخل ہوتاہے تو قلب کو اسے دھکیلنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے جس سے فشارِ خون بڑھتا ہے اور رفتہ رفتہ قلب کی ساخت بگڑنے لگتی ہے۔

3 ۔ جگر کی خرابی: ذیابیطس بغیر شراب کے جگر میں چربی پیدا کر دیتا ہے، یوں خون کے اجزاء کا توازن خراب ہوجاتا ہے۔

4۔نظام ِ اعصاب کی خرابی: اعصاب کے لیے ذیابیطس ’ زہر‘ کا کام کرتی ہے، کبھی اعصابی درد جو تمام جسم میں پھیلنے والے اعصاب کی دکھن سے ماخوذ ہے کا سبب بنتی ہے، کبھی ہاتھ پاؤں کی انگلیوںضائع کرنے کا باعث بنتی ہے۔ نہ مندمل ہونے والے زخم پیدا کرنا ذیابیطس کی علا مت ہے۔ کبھی آنکھ کی ’رییٹی نا ‘کوخراب کرتی ہے یوں ’ڈایابیٹک ریٹینوپیتھی‘ کا باعث بنتی ہے، کبھی پٹھوں کے درداور تناؤ کا سبب بنتی ہے اور ’ ڈایا بیٹک نیوروپیتھی ‘ کے نام سے موسوم ہوجاتی ہے، کبھی پھپوندی اور دیگر جراثیم کی افزائش میں مدد کرتی ہے اور’ ڈایابیٹک سور‘ کہلاتی ہے، اور کبھی چھپی ہوئی رہتی ہے یعنی تشخیصِ علامات ظاہر نہیں ہوتیں، مگر جسم کو برباد کرنے میںمصروف رہتی ہے اور کافی عرصے بعد آلاتِ تشخیص کی ذد میں آتی ہے، جسے’ لیٹینٹ ڈایا بیٹیز‘ کہتے ہیں۔

ذیابیطس پیر کے انگو ٹھے کو کیوں نقصان پہنچاتی ہے

نظامِ انہضام ، نظامِ قلب ، نظامِ اعصاب کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ خون بھی کم پیدا ہوتا ہے، لہذا قوتِ مدافعت نہایت کمزور ہوجاتی ہے، پاؤں چونکہ جوتے میں بند رہتا ہے اور پسینہ اس پر چپکا رہتا ہے، اس لیے مسّے ، پھپھوندی وغیرہ ادھر زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں جو ذیابیطس کی وجہ سے مندمل بہت دیر سے ہوتے ہیں ، لہذا جراثیم افزائش ہی پاتا رہتا ہے، آخر کار ہڈی تک جا پہنچتا ہے اور سوراخ کا سبب بنتا ہے۔

جو افراد چپل کا استعمال کرتے ہیں ، ان کے پیر کے تلوے پھر بھی دبے رہتے ہیں، یوں تلووں میں خون کا بہاؤ کم رہتا ہے، یوں وہ بھی مسّوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پاؤں کے انگوٹھے کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے بغیر چلنا دشوار ہے کہ باقی انگلیوںکی ہڈی کی ساخت انگوٹھے کی نسبت دبلی ہوتی ہے۔

یعنی انگوٹھے کی ہڈی موٹی ہے اور چلتے وقت اس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ذیابیطس کی وجہ سے یہ بھی کمزور ہو جاتی ہے اور کسی وقت بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ جب اس ٹوٹی ہڈی کا معائینہ کیا جائے تو سڑے ہوئے گتے (ہارڈ بورڈ) کی مانند ہو تی ہے۔ کبھی پہلے انگوٹھے کے ناخن کالے پڑتے ہیں۔ اگر جراثیم کی وجہ نہ بھی ہو کیونکہ خون جم رہا ہوتا ہے، مگر رفتہ رفتہ اس جمے ہوئے خون میں اندر ہی اندر پھپھوندی پیدا ہوجاتی ہے۔ تر علاقوں میں پھپھوندی ہوتی ہے، یہ ایک قانون ہے جیسے ٹھہرے ہوئے پانی پر سبز رنگ کی ایلجی آجاتی ہے ۔ مگر کچھ لوگ ذیابیطس یا کسی اور علت کی بنا پر لیٹے رہتے ہیں۔

انہیں ’بیڈسور‘ ہو جاتی ہیںاور جگہ سڑتے سڑتے ہڈی تک پہنچ جاتا ہے، یعنی ہڈی بھی گلا دیتا ہے ۔ محقیقین کے مطابق جسم کے دور کے حصوں میں خون کم جاتا ہے کیونکہ خون کی نالیاں دل کی جانب عریض اور پھر تقسیم در تقسیم ہو کر پتلی ہوتی رہتی ہیں یہاں تک کہ پاؤں اور ٹخنوں میں اس قدر پتلی ہوجاتی ہیں کہ چلتے وقت گوشت اندر کو دبتا ہے، یوں خون اوپر کو آتا ہے، پھر وریدوں میں موجود ہلالی ساخت اس خون کو واپس نچلی جانب اس حرکت سے روکتی ہے اور آہستہ آہستہ خون اوپر کو آتا ہے۔

ذیابیطس کے مبتلا اشخاص میں خون کم پیدا ہوتا ہے اور گاڑھا ہونے کے باعث نہایت آہستگی سے پاؤں سے اوپر کی جانب آتا ہے۔ جن افراد کی جلد خشک رہتی ہے، انہیں زخم جلد آ گھیرتے ہیں، زخم کی وجہ سے جراثیم جلد کے ذریعے خون میں پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ زخم دیر سے بھرتا ہے، یوں زیادہ جراثیم داخل خون ہوتے ہیںاور ’ڈایا بیٹک فٹ‘ پیدا ہوجاتا ہے۔کبھی سخت جوتے پہننے سے انگوٹھے کی ہڈی ٹیڑھی ہو جاتی ہے، پھر رگڑ کی وجہ سے جلد خراب ہوتی ہے، انگوٹھے کے اوپر ناخن ہے، ناخن جلد سے چپکا ہوا ہے۔

درمیان میں چھوٹی سی خلا ہے، جوجراثیم کے داخل ہونے کے لیے کافی ہے۔ صحت مند اشخاص کے ناخن میںجراثیم جاتا ہے مگر خون میں موجود مدافعتی نظام اسے بیکار کر دیتا ہے۔ جن کی قوتِ مدافعت کمزور ہو تو جراثیم نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔ انگوٹھے پر چلتے وقت زیادہ زور آتا ہے، لہذا کمزور انگوٹھا ٹوٹ سکتا ہے۔ جو لوگ زیادہ بیٹھے رہتے ہیں، ان کے سرین کے ساتھ یہی کیفیت ہوتی ہے، خون کی نالیاں دبی رہتی ہیں، خون نچلے حصے میں بہت کم جاتا ہے، آخر کار گاڑھے پن کی وجہ سے رکاوٹ آجاتی ہے اور زخم پیدا ہوتے ہیں۔

انگوٹھے کے زخم اور بیڈ سور سے کیسے بچیں:

1۔ چہل قدمی کرتے رہیں تاکہ دورانِ خون بحال رہے ہلکا دوڑیں تاکہ کسی انگلی پر زور نہ پڑے۔

2۔ کھلے جوتے یا چپل کا استعمال کریں۔

3۔ سبز پتی کی چائے کا استعمال کریں ، یہ خون کو رقیق بناتی ہے

4۔ ہفتے میں کسی دن چینی کا استعمال کریں تاکہ توانائی نہ کم ہو۔

5 ۔جلد پر تیل سے مالش کریں کہ زخم نہ پیدا ہوں۔

6۔ پھلوں کا استعمال کریں۔

7۔ خوراک کے بعد زیرہ اور دیگر ہاضم اشیا ء کا استعمال کریں تاکہ ریح نہ پیدا ہو۔

8۔ آنکھوں پر کم زور دیں تاکہ آنکھ کا ’ریٹینا ‘ محفوظ رہے۔

9۔ نرم بستر پر آرام کریں تاکہ خون کی نالیوں پر زور کم پڑے۔

10۔ جلد کو پسینے سے تر نہ رکھیں، واضح رہے کہ پسینہ خون کی نالیوں کا فضلہ ہے۔

علاج

1۔خون کو پتلا رکھنے کے لیے’بید سادہ‘ یا ’ادرک‘ یا ‘ایسی ٹائیل سیلی سائیلک ایسڈ‘ کا استعمال کریں۔

2۔ ذیابیطس کی مقدار کو معتدل رکھنے کے لیے دار چینی یا پنیرڈوڈہ کا قہوہ پئیںیا گولی ایمپاگلا فلوزن پانچ سے 10 ملی گرام کھائیں۔

3۔ وٹامن ڈی اور ای کی کیپسول کا استعمال کریں۔

4۔ ماء العسل یعنی شہدکا پانی نہار منہ پئیں۔

پرہیز:

چاول، آلو، بھنڈی، اروی، چنے کی دال، ارہر کی دال سے پرہیز کریں ۔ ہفتے میں ایک بار کھا سکتے ہیںتاکہ ان میں موجود لحمیات (پروٹین) سے استفادہ حاصل کیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔